افغانستان کا یوم استقلال اور پاکستانی دانشور


کچھ دن پہلے میں ایک عجیب مخمصے کا شکار تھا جب میرے پاکستانی دوستوں کی سوشل میڈ یا پر افغانستان کے حوالے سے مبارکباد کی تصویریں لگ رہی تھیں اور وہ ایک دوسرے کو افغانستان کے یوم استقلال کے حوالے سے مبارکباد دے رہے تھے۔ اور انہوں نے افغانستان کے جھنڈے سے اپنی تصویروں کو مزین کیا تھا۔ تو میں سوچ میی پڑ گیا کہ یہ میرے ساتھ ایڈ دوست تو پاکستانی ہیں پھر افغانستان کے ساتھ ان کی انسیت کیوں؟ اس کا مجھے کوئی جواب نہیں ملا۔ یہ انیس اگست کی بات ہے۔ جب میں نے ان صاحبان کی چودہ اگست کے اسٹیٹس چیک کیے تو اُس میں ایک موصوف نے لکھا تھا کہ ہم چودہ اگست کیوں منائیں ہمارا دن تو اُنیس اگست ہے۔

اس بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ سب کیا ہے کیونکہ 19 اگست کو افغانستان میں یوم استقلال منایا گیا جس میں کابل میں رنگ برنگے جھنڈے نظر آئے اور یہ افغانستان سے پیار کرنے والے یہاں بھی یہ دن جوش و جذبے سے مناتے مگر انہیں اجازت نہیں تھی۔ اس لئے سوشل میڈیا پر جشن مناکر دل کو ٹھنڈے کرتے رہے یہ دن اس یاد میں منایا جاتا ہے جب افغان ملت نے انگریزوں کو بدترین شکست سے دوچار کر کے افغانستان سے بھگا دیا تھا، آج سے 98 سال قبل انگریز زخم چاٹتا ہوا افغانستان کی سرزمین سے فرار ہوا تھا لیکن اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے 16 سال قبل ایک بار پھر صلیبی اتحاد کا حصہ بن کر افغانستان کی سرزمین کا رخ کیا، لیکن ایک بار افغان غیور ملت کے قہر کا نشانہ بنے اور ان کے صلیبی لشکر ہلمند اور زابل کی سرزمین پر ایک بار پھر تتر بتر کر دیے گئے۔ صرف 8 سے 10 سال کے عرصے میں برطانوی فوج نے ایک بار پھر شکست کا اعتراف کر کے 2013 میں مکمل طور پر دوبارہ افغانستان سے مکمل انخلاء کا اعلان کر راہ فرار اختیار کر لیا۔ اور یوں فرنگیت افغانستان میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ جس پر افغانی یہ دن مناتے ہیں۔

مگر دیکھا جائے توافغانستان آج بھی مکمل طور پر آزاد نہیں، بلکہ امریکی قیادت میں بنائی گئی غاصب صلیبی افواج کے خلاف ابھی تک آزادی کی جنگ لڑ ی جارہی ہے۔ اگر تاریخ پڑھی جائےتو اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان پاکستان بننے سے دو سو سال پہلے معرضِ وجود میں ایا ہے۔ لیکن افغان آزادی کا 98 واں سال منا رہے ہیں۔ کیونکہ دوسری افغان انگریز جنگ جوکہ غالباً 1876 میں لڑی گئی تھی۔ جس کا ایک معرکہ، ، میوند، ، کا ملالئی اور شہزادہ ایوب خان کے حوالے سے مشہور ہے اس جنگ کے نتیجے میں افغانستان کافی حد تک انگریز کے کنٹرول میں آگیا خاص کر خارجہ امور اور دفاعی امور انگریز کے پاس چلے گئے جب سردار امان اللہ خان کابل میں برسرِ اقتدار آیا تو اس نے انگریز کے خلافت تیسری جنگ لڑی۔ تیسری افغان انگریز جنگ کے نتیجے میں انگریز کو شکست ہوئی اور افغانستان مکمل طور پر ایک آزاد مملکت بن گیا۔ امان اللہ خان کو ایک خود مختار بادشاہ تسلیم کیا گیا۔ خارجہ پالیسی اور دفاعی امور انگریز کے ہاتھ سے نکل گئے۔ یہ وہ دن ہے جیسے افغان ”د خپلوکئی ورز“ یعنی قومی خودمختاری یا استقلال کے حوالے سے مناتے ہیں۔

مگر بات یہ ہے کہ ٹھیک ہے افغانی تو یہ دن اس لئے منارہے ہیں کہ انہیں استعماری قوتوں سے نجات ملی یہ پاکستانی شاعر کس خوشی میں کابل اور افغانستان کے دیگر شہروں کو اپنی شاعری کا حصہ بنا رہے ہیں۔ کابل اور پشاور ایک ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کیٹگری میں ہمارے صحافی، سیاست دان، شاعر، گلوگار اور زیادہ تر نیشنلسٹ لوگ شامل ہیں جن کو پشاور سے کوئی پیار نہیں جب کابل میں کوئی دھماکہ ہوتا ہے تو ان کے دل دکھتے ہیں۔ اُن پر یہ کڑھتے ہیں جبکہ پشاور اور پاکستان سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس وقت یہ لوگ سیکورٹی فورسز کو الزامات دیتے ہیں جبکہ انہوں نے ملک یعنی پاکستان کے اندر رہ کر افغانی جھنڈے اپنی جیبوں پر لگائےہوتے ہیں۔ جب پو چھا جاتا ہے توجواب ہوتا ہے ہم سب افغانی ہیں۔

میں ان لوگوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ یہاں رہتے ہو تو دل بھی یہاں دھڑکنا چاہیے اگر نہیں تو جاکر افغانستان میں کیوں نہیں بس جاتے۔ جہاں انہیں دوسرے پاکستانیوں کی طرح افغانی گھاس بھی نہیں ڈالتے۔ جبکہ یہ خود کو افغانی گردانتے ہیں جس کا ذکر آج سے دو ہزار سال پہلے چینی سیاح ہیونگ سانگ کی لکھی گئی کتاب مقدونیہ کا سکندر کا دورہ، اورنگ زیب کے دور کی میں لکھی گئی مشہور کتاب’ مغزن افغانی‘میں اس خطے کے حوالے سے لکھی گئی دیگر کتابوں میں پشتونوں کے لئے افغان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی تاریخی طور پر افغان سے مراد پشتون اور پشتون سے مراد افغان ہی لیا جاتا ہے۔ لیکن جب احمد شاہ درانی کے دور میں موجودہ افغانستان کی داغ بیل ڈالی گئی تو افغانستان کے دیگر اقوام بھی اس لفظ افغان کیساتھ پروئے گئے۔ اس لیے اس لفظ کے ماضی اور حال کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخی طور پر ہر پشتون افغان ہے مگر ہر افغان پشتون نہیں ہے۔ اس لئے یہ لوگ خودکو اُن کے ساتھ نتھی کر رہے ہیں۔

ان لوگوں کو یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کے ساتھ نہ ختم ہونے والے مسائل تو پاکستانیوں کو درپیش تھے ہی اس افغانستان کا رویہ بھی دوستانہ نہیں تھا جس کے یہ گن گاتے ہیں۔ ان افغانیوں نے پاکستانیوں پر نہروں میں پانی چھوڑا تھا جب قافلے افغانستان کے راستے پاکستان آرہے تھے۔ انہوں نے کیا کم ظلم کیے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ اتار چڑھاؤ آتے رہے جس پر بہت کچھ تحریری شکل میں ملتا ہے۔ پاکستان میں قوم پرست جماعتوں اور الذوالفقار جیسی دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کے حکمرانوں سے مدد ملتی رہی۔ قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت سے لے کرسوات اور بلوچستان میں لگنے والی آگ کے ساتھ ساتھ آج تک دہشت گردی کے مختلف واقعات کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کے تانے بانے پاکستان میں افغان خفیہ ایجنسیوں کے کردار سے جوڑے جا سکتے ہیں۔

یہ بات شاید ماضی قریب میں لکھی جانے والی مقبول کتابوں یا اخباری مضامین میں نہ ملے کہ افغانستان میں پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا گروہ 80 کی دہائی میں انجینئر حبیب اللہ نامی ایک افغان رہنما نے منظم کیا، جو قاضی حسین احمد مرحوم کے ذاتی دوست تھے۔ انہیں بعد میں افغانستان کی کمیونسٹ حکومت نے شہید کردیا تھا۔ روس کے خلاف جہاد افغانوں کو پاکستان کے مزید قریب لے آیا اور لاکھوں مہاجرین جنگ کے دوران میں پاکستان میں پناہ گزین ہوئے۔ ایک وقت میں ان کی تعداد 50 لاکھ سے زائد تھی اور اب بھی لاکھوں کے لگ بھگ پاکستان کے کونے کونے میں مقیم ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کی معیشت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جب یہ اپنے ملک جاتے ہیں تو پاکستان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جبکہ بھارت ان کادوست ہے۔ اب جاکر دیکھیں افغانستان میں ہزاروں پاکستانی جیلوں میں بند ہیی وہ بھی ناکردہ گناہوں میں، وہاں شمالی اتحاد کی حکومت کی وجہ سے پاکستانیوں پر گھیرا تنگ ہے انہیں وہاں بے جا تنگ کیا جاتا ہے۔ بہت سے پاکستانی افغانستان سے اس لئے واپس ہوگئے ہیں کہ انہیں وہاں عذابوں سےدوچار کیا جارہا تھا جبکہ ہمارے دوست یہاں اپنے ملک کی آزادی کا جشن نہیں مناتے اور کہتے ہیں کہ ہم ابھی تک غلام ہیں جبکہ افغانستان کا یوم استقلال اور دیگر دن بہت خوشی سے مناتے ہیں۔ تو یہ یوم استقلال منانے افغانستان کیوں نہیں چلے جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).