سانپ، کشمیری اور گلگت بلتستان


گلگت بلتستان دنیا کاخوبصورت ترین علاقہ ہے اس کے جنگل، کھیت، پہاڑ، دریا، جھیلیں، ہوائیں دنیا کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ گلگت بلتستان کے دوستوں کے ساتھ واجبی سا تعلق 2005 میں اس وقت استوار ہوا جب ہم تعلیم کے سلسلے میں راولپنڈی منتقل ہوئے۔ گلگت بلتستان تقریبا 28000 مربع میل رقبہ پر پھیلا 10 اضلاع پر مشتمل علاقہ ہے جسے سن 2009 سے پہلے لوگ شمالی علاقہ جات کے نام سے جانتے تھے اس علاقہ کی آبادی آخری مردم شماری کے اندازے کے مطابق تقریبا 20 لاکھ ہے۔ تعلیمی اداروں کی کمی، وسائل کی محرومی، غربت اور پسماندگی کے مارے گلگت بلتستان کے اکثریتی نوجوان تعلیم اور روزگار کے سلسلے راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ اس باعث گلگت بلتستان کے نوجونوں سے روالپنڈی میں تسلسل سے ملاقاتیں جاری رہیں۔

متحرک قوم پرست اور ترقی پسند دوستوں کے پاس ان کی تنظیموں اور سیاسی پارٹیوں کے قائدین گائے بگائے چکر لگاتے رہتے گلگت بلتستان کے قوم پرست اور ترقی پسند دوستوں کے ساتھ نہ صرف اچھے سیاسی تعلقات استوار ہو چکے تھے بلکہ بات دوستی تک پہنچ چکی تھی۔ گلگت بلتستان کے عوام پسماندگی اور محرومی کے باوجود حددرجہ مہمان نواز لوگ ہیں اور اکثر گلگت بلتستان آنے کی دعوت دیتے رہتے مگر پیشہ ور مصروفیت کے باعث کبھی جانے کا اتفاق نہ ہو سکا لیکن اس بار اگست کی عدالتی چھٹیوں پر ہم نے جبار کاشر ایڈووکیٹ کے ساتھ طے کیا کے ہر صورت گلگت بلتستان کا دورہ کرنا ہے۔

تو بات ہو رہی تھی گلگت بلتستان کے قوم پرست اور ترقی پسند دوستوں کی کے ان سے سیاسی تعلق کی بناء پر سیاسی پروگرامات، تریبتی نشستوں اور روزمرہ زندگی میں گفتگو کا تسلسل جاری رہتا۔ ہم مسئلہ گلگت بلتستان، تنازعہ کشمیر، پاکستان سے تعلق اور مستقبل کے لائے عمل پر بات چیت کرتے، ان کا موقف جانے کی کوشش کرتے۔ ہمیں انتہائی حیرت اس وقت ہوئی جب ہمیں گلگت بلتستان کی ضرب المثل ”سانپ کو چھوڑو کشمیری کو مارو“ سننے کو ملی۔ کیونکہ ہماری سیاسی تربیت ”جیے کاشر میری جان، جموں لداخ بلتستان ”کے جیسے سیاسی نعروں کے زیر سایہ ہوئی تھی۔ جب ہم گلگت بلتستان کے دوستوں سے اس نفرت یا جذبہ کی وجہ پوچھتے تو کم و پیش تمام سیاسی کارکن ایک ہی جواب ہوتا کہ ابراہیم خان صاحب نے 28 اپریل 1949کو معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا سودا کر کے پاکستان کے سپرد کر دیا تھا اب آپ لوگ کس منہ سے گلگت بلتستان کا نام لیتے ہیں۔ ہمارا دلیل اور رددلیل کا سلسلہ چلتارہا اور بآلاخر مشترکہ سیاسی پروگراموں کے ذریعے گلگت بلتستان کو تنازعہ کشمیر کا چوتھا فریق، اس کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کرنے اور مکمل علیحدگی اور خودمختاری کے حق جیسے نقات پر اتفاق ہوا۔

اب ہمیں گلگت بلتستان کے دورے کے دوران دو مختلف الخیال لوگ ملے ہیں۔ ایک ایسے جن سے ہمارا تعلق پہلے بھی تھا یعنی پڑھے لکھے نوجوان جو راولپنڈی اسلام آباد لاہور کراچی وغیرہ میں رہ کر آے ہوئے تھے اور دوسرا وہ عام گلگت بلتستان کے شہری جو گلگت بلتستان کے اندر روزگار کے ساتھ جوڑے ہیں نسبتاً کم پڑھے لکھے ہیں مگر پڑھے لکھے نوجوان طبقہ سے بلکل مختلف سوچتے ہیں۔ نفرت، دوری یا شکوہ جو پڑھے لکھے نوجوانوں سے ملا اس کی نسبت عام لوگوں سے صرف اور صرف محبت، اپنائیت اور درد کا رشتہ پایا۔ شاید یہی وجہ ہے کے نوجوان طبقہ بھی خاصہ بدل چکا ہے۔ جن موضوعات پر کبھی محتاط انداز میں بات نہ ہو سکتی تھی اب کھل کر بحث کے نتیجے میں مشترکہ سیاسی لائحہ عمل پر اتفاق ہو رہا ہے۔ سانپ اور کشمیری دونوں بیک وقت سامنے آجائیں تو سانپ کو مرا جاتا ہے اور کشمیری سے بحث کی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان اب بھی دنیا کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اس کے جنگل، پہاڑ، مٹی، دریا، جھیلیں، پھل اب بھی دنیا کو اپنی طرف کھینچتی ہیں مگر گلگت بلتستان کی ہواہیں تناذعہ کشمیر کے لوگوں اپنی طرف بلا رہی ہیں خوش آمدید کہہ رہی ہیں ان ہواؤں کا رخ جنوب کی سمت چل نکلا ہے۔ اپنی محبت، محنت، خلوص اور سیاسی کام سے ان ہواؤں کو زورآور بنانا ہماری ذمہ داری ہے۔

مصنف ولید بابر راولا کوٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک وکیل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).