ریکوڈک سونے کے ذخائر:کھایا پیا کچھ نہیں۔ ۔ ۔


وطنِ عزیز میں ان دنوں احتساب کا بہت چرچا ہے۔ گزشتہ 30برسوں سے ملکی سیاست پر چھائے نواز شریف پاکستان کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہو کر سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنے عہدے کے لئے نااہل قرار پائے۔ انہیں ”گاڈفادر“ کا لقب ملا۔ اس ملک میں سیاست کے نام پر لوٹ مار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لئے اب ضروری ہے کہ”گاڈفادر“ کو ان کے خاندان سمیت بدعنوانی کے مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلا کر عبرت کا نشان بنایا جائے۔ مجھے قوی امید ہے کہ کرپشن کے خلاف ہمہ وقت جنگ میں مصروف صادق و امین صحافی اور سیاست دان شریف خاندان کی داستان کو منطقی انجام تک پہنچا کر چھوڑیں گے۔

کرپشن کے بے رحم احتساب پر مچائے شور کے عین درمیان مگر ہماری پارلیمان کے ایوان بالا میں جسے سینٹ بھی کہا جاتا ہے، چند اراکین نے ریکوڈیک کے بارے میں حقائق جاننے کی کوشش کی۔ اپنے پیشرو کے برعکس، وزیراعظم عباسی پارلیمان کے اجلاسوں میں باقاعدہ شریک ہو رہے ہیں۔ ریکوڈیک کے معاملات پر سوالات اُٹھے تو انہوں نے رضا کارانہ طور پر چیئرمین رضا ربانی سے وعدہ کیا کہ اس ضمن میں پریشان ہوئے اراکین کا کوئی اجلاس بلایا جائے تو وہ اس کے سامنے تمام حقائق بیان کر دیں گے۔ گزشتہ ہفتے کے آغاز میں وہ اجلاس منعقد بھی ہو گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے اس کے سامنے جو حقائق رکھے ان کے بارے میںایک لفظ بھی لیکن ہمارے ہمہ وقت مستعد رہنے کے دعوے دار میڈیا کی بدولت ہمارے سامنے نہیں آپایا۔ جواز اس خاموشی کا یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ اجلاس In Cameraتھا۔ اس میں ہوئی باتیں ”آف دی ریکارڈ“ تھیں۔

ریکوڈیک کے بارے میں میڈیا میں چھائی خاموشی کا مذکورہ جواز مجھے دیوانہ ہو کر اپنے کپڑے پھاڑنے پر اُکسا رہا ہے۔ ”آف دی ریکارڈ“ باتوں کا کھوج لگانا ہی رپورٹر کی بنیادی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ میڈیا کے گروکئی دہائیاں پہلے یہ طے کر چکے ہیں کہ اصل ”خبر“ وہ ہوتی ہے جسے حکمران اشرافیہ خلقِ خدا سے چھپانا چاہتی ہے۔

24/7 چینلوں کے لئے کام کرنے والے نوجوان صحافی ایسی ”خبریں“ حاصل کرنے ہی میں ہلکان ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان کی ”پہنچ“ کا عالم تو یہ ہے کہ جب کبھی وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کے درمیان اکیلے میں ملاقات ہوتی ہے تو اس ملاقات کے ختم ہوتے ہی قوم کو بتادیا جاتا ہے کہ مذکورہ ملاقات میں کون سے معاملات زیر بحث آئے۔ عموماً یہ خبر” ذرائع“ کی معرفت سے میسر ہوتی ہے۔ یہ ”ذرائع“ کون ہیں اس کا تذکرہ دو نمبر کی مستعدی دکھانے والے باخبر افراد کرنے کی جرا¿ت سے مگر محروم ہیں۔ Whatsapp کے ذریعے بنی بنائی ”خبریں“ رپورٹروں کے فونوں پر مل جاتی ہیں اور ہم ڈھٹائی سے ٹی وی سکرینوں پر انہیں Breaking Newsکا عنوان دے کر اُکھڑی سانسوں سے بیان کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمارے کئی عقلِ کل بنے پاٹے خان بعدازاں اس Breaking Newsکا تجزیہ کرتے ہوئے ایک لمحہ کو رُک کر اس ”خبر“ کی صداقت پر سوال اٹھانے کی ہمت بھی نہیں دکھا پاتے۔

قانون کو سب کے لئے برابر اور بدعنوانوں کا کڑا احتساب دیکھنے کو بے چین صادق و امین افراد کو شاید ریکوڈیک کی اہمیت کا اندازہ ہی نہ ہو۔ بلوچستان کے چٹیل پہاڑوں میں موجود یہ علاقہ سونے اور تانبے کے علاوہ چند ایسی معدنیات کے ذخائر سے بھی مالا مال ہے جو کمپیوٹر کی صنعت میں کلید کی حیثیت رکھتی ہیں۔ معدنی دولت سے مالا مال یہ پٹی ریکوڈیک سے چلتی ہوئی افغانستان میں کئی کلومیٹر دور تک جا پہنچتی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان پر ”کچھ نیا“ کرنے کی تقریر کرنے سے پہلے معدنیات کے کاروبار سے جڑی ایک امریکی ملٹی نیشنل کمپنی کے سربراہ سے اس پٹی کے بارے میں طویل بریفنگ سنی۔ اسی پٹی کی بنیاد پر ایک بدنام زمانہ ”پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی“ Black Water کے بانی ایرک پرنس نے عالمی سرمایہ کاروں کے چہیتے اخبار وال سٹریٹ جرنل میں ایک مضمون لکھا۔ اس کے ذریعے پرنس نے ا مریکی حکومت کو یہ سمجھانا چاہا کہ افغانستان میں مزید افواج بھیجنے کے بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر کوئی بندوبست کیا جائے۔ اس بندوبست کی بدولت امریکی حکومت کی بجائے امریکی سرمایہ کار اپنے تئیں کرائے کے فوجی جمع کریں۔ انہیں افغانستان بھیج کر اس ملک میں موجود معدنیات پر اجارہ قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جب بھارت کو افغانستان میں ”حصہ“ ڈالنے کو کہا تودرحقیقت اسے افغانستان کی زمین میں موجود معدنیات پر اجارہ حاصل کرنے میں امریکہ کی شراکت داری پر اُکسایا۔ چین، افغانستان میں خام لوہے کی بہت ساری کانوں پر کام کرنے کا ٹھیکہ حاصل کر چکا ہے۔ کچھ رقبے اسی حوالے سے بھارت نے بھی حاصل کر رکھے ہیں۔ ٹرمپ کی خواہش یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ باہم مل کر افغانستان میں موجود معدنیات پر اجارہ قائم کر لیں تو چین ممکنہ طور پر کھربوں ڈالروں کے منافع کو یقینی بنانے والی اس گیم سے باہر ہوجائے گا۔

یاد رہے کہ یورپ سے سمندر کے ذریعے برصغیر پاک وہند تک پہنچنے کا راستہ پرتگال کے واسکوڈے گامانے دریافت کیا تھا۔اس کے بعد سپین اس راہ پر گامزن ہوا۔ سپین کے بعد ولندیزی آئے اور ان کے بعد فرانسیسی۔ بالآخر ٹیپو کے زمانے تک اس خطے کے وسائل پر اجارہ حاصل کرنے کی حتمی کش مکش برطانیہ اور فرانس کے مابین ہوئی۔ بالآخر برطانیہ یہاں کا حتمی مالک ٹھہرا۔
بھارت کو اپنے ساتھ ملاکر امریکہ کا ٹرمپ افغانستان میں موجود معدنیات کے ساتھ ویسا ہی کھیل کھیلنا چاہ رہا ہے۔ وہ مگر اس ضمن میں کوئی گیم لگانے کے محض منصوبے بنارہا ہے جبکہ پاکستان نے سامراجی عزائم کے بغیر ریکوڈیک میں چھپی معدنیات کو کاروباری استعمال میں لانے کا ٹھیکہ ایک بین الاقوامی فرم کو طویل مذاکرات کے بعد کئی سال پہلے دے دیا تھا۔

میں یہ بات تسلیم کرنے کو بالکل تیار ہوں کہ ریکوڈیک کے ذخائر ایک بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکے پر دینے کے لئے ہمارے نااہل اور بدعنوان حکمرانوں نے ”قومی مفاد“ کا خیال نہیں رکھا ہو گا۔ کمیشن کے نام پر کئی لوگوں نے بھاری رقوم بھی بٹوری ہوں گی۔ ایک سودا مگر طے ہوگیا تھا۔ اس سودے کے لئے ہوئے مذاکرات کے دوران ہمارے مستعد میڈیا نے کبھی اپنی تفتیشی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کیا۔ جب ہر شے طے ہو گئی تو چند ”محبانِ وطن“ نے دہائی مچادی۔ ”لٹ گئے- مر گئے“ کا شور بلند ہوا تو ”عوام کی طاقت“ سے بحال ہوئے افتخار چودھری کے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا۔ طویل اور سنسنی خیز سماعتوں کے بعد وہ سودا کینسل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے گئے۔

بین الاقوامی کمپنی اس فیصلے کے خلاف عالمی اداروں کے پاس چلی گئی۔ خبر اب یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو ”معاہدہ شکنی“ کے جرم میں مذکورہ کمپنی کو کم از کم 8ارب ڈالر جرمانے کی صورت ادا کرنا ہوں گے۔ سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ زرمبادلے کے ذخائر میں مسلسل کمی کا شکار پاکستان 8ارب ڈالر کی یہ خطیررقم کیسے اور کہاں سے ادا کرے گا۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے۔ فی الوقت میری معصوم قوم کو میڈیا کی مستعدی کے اس دور میں بھی یہ خبر ہی نہیں ملی کہ ریکوڈیک کے ذخائر سے ایک دمڑی کمائے بغیر اسے ان ذخائر کے بارے میں ہوئے سودے پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے کم از کم 8ارب ڈالر جرمانے کی صورت ادا کرنا ہوں گے۔

”کھایا پیا کچھ نہیں- گلاس توڑا- بارہ آنے“والی بات تو سنی تھی۔ محض ”گلاس“ توڑنے کی وجہ سے 8ارب ڈالر ادا کرنا تو کسی نے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ مجھے ہرگز سمجھ نہیں آ رہی کہ شاہد خاقان عباسی اس موضوع پر ”آف دی ریکارڈ“ بریفنگ کیوں دے رہے ہیں۔ وہ یہ سودا طے کرنے اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے کے کھیل میں ہرگز ملوث نہیں تھے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا بھی اس پورے قصے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

سارا کھیل چند ”محبانِ وطن“ اور جسٹس چودھری نے رچایا۔ اس کھیل کے تمام کرداروں کے نام ہمارے سامنے کیوں نہیں لائے جارہے۔ ریکوڈیک کے با رے میں سچ اور صرف سچ بولا گیا تو قوم کو سمجھ آجائے گی کہ بظاہر نیک نیتی کے ساتھ کرپشن کے خلاف لڑی جنگیں بالآخر کیا گل کھلاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).