متشدد ذہنیت، پر امن معاشرے کا زہر قاتل


جب ہم اپنے ماضی و حال پر نظر ڈورا کر دیکھتے ہیں تو ایک قسم کا احساس جرم ذہن میں کچوکے لگاتا ہے کہ ہماری پوری انسانی تاریخ ظلم و جبر سے عبارت ہے۔ خاک و خون کا ایسا خوفناک منظر ہے کہ شاید ہی کچھ امن کے مکمل ادوارآئے ہوں۔ ہر قسم کی ظلم و بربریت ہمارے حصے میں آئی ہے کہ انسان مایوسی کی حد کو چھونے لگتا ہے اور سوچتا ہے کہ فرشتوں کا اللہ سے سوال کرنا کہ ’کیا تو ایسی مخلوق بنائے گا جو فساد کرنے والی اور ناحق خون بہانے والی ہوگی‘ ٹھیک ہی تھا۔

آپ پاکستان کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، پڑے لکھے جدید سہولیات سے آراستہ شہر ہوں یا کم پڑھے لکھے علاقے جہاں بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے، متشددانہ طبع آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔ دس دس روپے کے لئے ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے والے، گاڑی کی قطار پر لڑنے جھگڑنے والے، رائی کا پہاڑ بنا کر گالم گلوچ کرنے والے، غرض ہر قسم کی بات پر آپ کو ایسے پر فتنہ قسم کے اذہان سے واسطہ پڑتا ہے ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ آپ کوئی سا بھی انسانی رشتہ اٹھا لیں، ان سب میں بھی ایک عجیب قسم کی رسہ کشی کی کشمکش ہے۔ کہیں جائیدادوں کے جھگڑے، کہیں خواتین کے رولے، اور کہیں ایسی بدگمانیاں کہ جینا مرنا ختم۔

اکثر سماجی مسائل کے فساد کی جڑ یہی تشدد پسندی ہے۔ سب سے نازک موضوع کو ہی پہلے اٹھا لیتے ہیں۔ توہین رسالت و اسلام کی وجہ سے ہمارے معاشرے نے دنیا کو تشدد کے وہ وہ نمونے دیے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ رحمتہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا کس مونہہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا کریں گے۔ کہیں دماغی طور پر کمزور لوگوں پر الزام لگا کر سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر مار دیا، کہیں حاملہ عورت کو خاوند سمیت اینٹیں مار مار کر ادھ موا کر دیاپھر بھی دل نہیں بھرا تو دہکتی ہوئی بھٹی میں پھینک دیا، کہیں چھوٹی بچی پر الزام دھر دیا، کہیں گھر جلا دیے جس میں چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں دم گھٹنے سے مرگئے، کہیں علم کے گہوارے میں ایک کڑیل جوان کو جھوٹے الزامات پر ڈنڈے مار مار کر ہلاک کر دیا، اور ابھی کچھ دن پہلے ہی دو بزرگوں کو پھاوڑے کے وار کر کے اپنی جنت کما لی۔ کس کس کا غم روئیں اور کس کس کا ماتم کریں۔ علماء سے امید تھی کی وہ امت کی اصلاح و تربیت کا بیڑا اٹھائیں گے مگر ان میں سے اکثر خود نفرتوں کے بیوپاری بن گئے۔ شرک کے فتوے، کفر کے فتوے، گستاخ ہونے کے فتوے، اور پھر ان فتاوی پر تشدید اتنی کہ جو نہ مانے وہ بھی اتنا ہی بڑا مشرک، کافر و گستاخ۔ الاماں الحفیظ ۔

سیاست بھی اسی طرح کے متشدد رویوں کے گند سے ملفوف ہے۔ مخالف سیاسی پارٹی کی کوئی بات تو گوارہ ہی نہیں کی جاتی، ان کی خواتین پر رکیک حملے، سیاسی مخالفین پر جھوٹے مقدمات، فوج کے ساتھ مل کر سازشیں، احتجاج کرنے والوں پر نہ صرف تشدد بلکہ بعض اوقات مار ہی دیا جاتا ہے، ذاتیات پر حملے اور کیا کچھ نہیں۔ سیاسی رہنماؤں سے ایک گونہ امید تھی کہ شاید قوم کے مزاج میں نرمی لائیں گے، مگر الٹا عدم برداشت بڑھ رہی ہے اور اس میں ہمارے سیاسی رہنماؤں کا حصہ ضرورت سے زیادہ شامل ہے۔

ہماری افغان پالیسی جو کہ فوج کی آشیرباد سے جہاد کہلائی اس نے بھی ہماری قوم کے دلوں میں ایک عجیب قسم کا پارسائی کا زعم اور تشدد پسندی ودیعت کر دیا ہے کہ اتنی دہائیوں بعد بھی ہم اس لعنت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ یہاں تک انسانی جان کو ارزاں سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ لوگ بھی جو تحریک طالبان پاکستان کو دہشتگرد سمجھتے ہیں وہ بھی بازاروں اور سڑکوں میں معصوم افغانیوں کے پڑخچے اڑانے والے افغان طالبان کو مجاہدین سمجھتے ہیں۔

اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کیا ہم سب بھی اسی بیمار متشددانہ ذہنیت کے بیچ و بیچ نہیں جی رہے۔ ہمارے گھروں میں نوکروں کے ساتھ جو ظلم کیا جاتا ہے، ہمارے دفاتر میں نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ جو ناروا سلوک برتا جاتا ہے، ہمارے ہاں غریب رشتہ داروں کے حقوق کی پامالی جس بے شرمی سے کی جاتی ہے، ہمارے سکولوں میں اساتذہ کی طرف سے شاگردوں کے ساتھ جو تضحیک آمیز رویہ اپنایا جاتا ہے، ہمارے ہاں بڑے بزرگوں کے بارے میں جس طرح کی بد تمیزیاں کی جاتیں ہیں، ہماری سڑکوں پر دوسروں کی ماں بہنوں پر جو بازاری آوازے کسے جاتے ہیں، ہمارے ہاں دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے جس طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں، ہمارے ہاں طالبان جیسے سفاک دہشتگردوں کے لئے جو نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور اس طرح کی بیشتر کارروائیاں ہم اپنی آنکھوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول میں روزمرہ کی بنیاد پر مشاہدہ کرتے ہیں، یہ سب اسی متشدادنہ ذہنیت کے انڈے بچے ہیں۔

حل کیا ہے؟ یہ بھی ایک گورکھ دھندہ ہے، کیونکہ حل نہ صرف یہ کہ آسان نہیں ہے بلکہ طویل ہے جو کہ ہم سے صبر ایوبؑ مانگتا ہے۔ عام طور پر ہم لوگ اکثر مسائل میں تعلیم کو ہی مسئلے کا واحد حل بتاتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ تشدد پسندی کی پستیوں میں تعلیم یافتہ لوگ بھی اسی طرح گرے پڑے ہیں جس طرح کم تعلیم یافتہ لوگ۔ مشال خان کی مثال سب کے سامنے ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ تعلیم حل نہیں ہے، یقیناً تعلیم حل ہے مگر مکمل حل پھر بھی نہیں ہے۔

ہمیں فرقہ واریت کا خاتمہ کرنا ہوگا، جو کہ مذہبی انتہا پسندی کے لئے بیج کا کام کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ فرقے ختم ہو جائیں، بلکہ فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے خلاف جو نفرت دلوں میں ہے وہ ختم کرنی ہوگی۔ اور اس نفرت ختم کرنے کی سب سے بڑی ذمہ داری جن پر عائد ہوتی ہے بدقسمتی سے وہ لوگ ہی اس نفرت کی آگ میں تیل پھینکنے والے ہیں۔ ہماری عوام کو اس کے لئے خود کوشش کرنی پڑے گی۔ ان کو یہ سوالات اپنے علماء سے پوچھنے پڑیں گے کہ ان نفرتوں سے ہمیں دین و دنیا میں آخر کیا فائدہ ہے۔ اگر کسی سے عقیدے کا اختلاف ہے، تو کیا لا کم دین کم ولی دین کہہ کر ہم اپنے معاشرے سے نفرت کے پہلو کو ختم نہیں کر سکتے۔ یقیناً کر سکتے ہیں مگر صرف انسانیت سے محبت کی پہلی سیڑھی چڑھنی ہوگی۔

میرے نزدیک تعلیم، رواداری، تحمل اور برداشت سب تشدد پسندی کے خاتمے کے لئے ضروری ہیں مگر جب تک ہمارے ہاں قانون کی بالادستی نہیں ہوگی تب تک لوگوں میں قانون ہاتھ میں لینے کا ایک خاص قسم کا احساس برقرار رہے گا۔ جب تک امیر اربوں چرا کر بھی سزا سے بچتا رہے گا اور غریب روٹی چوری کر کے بھی سزا بھگتے گا، تب تک ایک مکمل پر امن معاشرہ قائم کرنا سہانے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔

تشدد پسندی کے خلاف عوام الناس میں آگہی پیدا کرنے کے لئے ہر ایسے وسیلے کو بروئے کار لانا پڑے گا جس سے ہم پر امن فضا کے لئے رائے عامہ کو ہموار کر سکیں۔ میڈیا ہو یا منبر، سیاسی جلسہ ہو یا مذہبی اجتماع، گھریلو کھانے ہوں یا گاؤں کے پنڈال، سکول ہوں یا مدرسے، ہمیں ہر وقت ہر جگہ عدم تشدد، تحمل اور برداشت کے رویے نہ صرف پڑھانے اور سکھانے ہوں گے بلکہ ان پر عمل کر کے دکھانا ہوگا۔ پرامن معاشرہ ایک دن میں نہیں بنے گا، ایک سال میں نہیں بنے گا مگر ہمارا کام تخم بونا ہے اور دن رات اس کو پانی دینا ہے، جب تک یہ بڑا ہو کر تناور درخت بنے گا، تب تک شاید ہم نہ ہوں گے مگر ہماری نسلیں اس آزادی اور بے خوفی کی فضا میں جی سکیں گی جن کا ہم نے صرف خواب دیکھا ہے۔

حکومت کی سطح پر عدم تشدد کے فلسفے کو عوام الناس میں فروغ دینے کے لئے بہت سارے ایسے اقدامات ہیں جن کا ذکر کیا جا سکتا ہے مگر فی الحال اس کو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں کیونکہ ہمیں بارش کا پہلا قطرہ خود بننا ہے۔ ہمیں خود اپنے آپ سے، اپنے بچوں کی تربیت سے اور معاشرے میں اپنی رواداری کے احساس سے آغاز کرنا ہے۔ جس دن ہم نے اپنے آپ کو ہر قسم کی نسلی، مذہبی اور طبقاتی تفریق سے بالا کر کے انسانیت سے محبت سیکھ لی اور اپنے بچوں کو سکھا دی، شاید ہم نے اپنے حصے کا پہلا فرض ادا کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).