بھارتی پیش قدمی، وزیر خارجہ کی ذمہ داری


پاکستان میں مستقل سیاسی بے یقینی اور بھارت میں عشروں پر محیط سیاسی استحکام کے اثرات مقامی حالات کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سیاست پر بھی اپنے نقش جما رہے ہیں۔ بھارت کی گزشتہ دو عشروں میں لگا تار اور بدستور معاشی حکمت عملیوں اور ان کے بھارتی ریاست پر اثرات نے بھارت کو اس قابل کر دیا ہے کہ اس کے کو اب خطے کی تنہا بالا دست طاقت بننے کے ہو گئے ہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے بعد بھارت میں یہ تصور مزید راسخ ہو گیا ہے کہ امریکہ بین الاقوامی معاملات میں اپنی حکمت عملیوں کو تبدیل کرنے کی راہ پر چل نکلا ہے اور اس کیفیت سے فائدہ اٹھانے کے سب سے زیادہ مواقع بھارت کو دستیاب ہوں گے اور یہ دستیاب اس بناء پر ہوں گے کہ اس صدی کے آغاز سے اب تک امریکہ اور بھارت میں محبت کی پینگیں دن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔

واجپائی کے دور میں تعلقات کی نئی جہتوں کا آغاز ہوا اور منموہن سنگھ نے ان کو بڑھاوا دیا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ہی نریندر مودی نے ٹرمپ سے ملاقات کے لئے امریکہ کا دورہ کیا اور اس دورے کی ترجیحات میں یہ شامل تھا کہ نئی امریکی انتظامیہ کے ذہنوں کو پڑھا جائے کہ وہ کس نوعیت کی تبدیلیاں اپنے بین الاقوامی ایجنڈے میں وقوع پذیر کرنا چاہ رہی ہے اور بھارت کا اس میں کیا کردار ہو سکتا ہے۔ اگر ہم اس دورے کے بعد بھارتی میڈیا اور ان کے اہل دانش کی تقاریر اور تحاریر کا مطالعہ کریں تو یہ معاملہ کوئی راز نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنا کردار عالمی منظر نامے پر دیکھ رہے ہیں۔ اب ایسا ہو گا کہ نہیں اس سے قطع نظر ہمارے ہمسائے کہ جس سے ہماری تلخیوں کی طویل داستان ہے کا ارادہ یہی ہے۔

ابھی کچھ عرصہ قبل تک بھارت میں یہ تصور رائج تھا کہ بھارت کا کردار خطے میں چین کی موجودگی کے سبب سے ایک توازن رکھنے والے ملک کے طور پر ہے۔ مگر ٹرمپ انتظامیہ کے وجود میں آنے کے بعد یہ تصور ایک نئی جہت اختیار کر گیا ہے کہ اب اس خطے میں توازن اختیار رکھنے والی قوت کی بجائے بھارت کا کردار خطے کی بالا دست طاقت کا بن سکتا ہے۔ اور ٹرمپ کے دورے اقتدار میں اگر امریکہ نے اپنی حکمت عملی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی کر ڈالی تو امریکہ کے پاس اپنے مفادات کے تحفظ کی غرض سے بھارت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا۔ اپنے لئے اس کردار کو حاصل کرنے کے واسطے بھارت نے قدم بڑھانا شروع کر دیے ہیں۔ جزائر سیشلز میں بھارت کی فوجی بیس کا قیام اس کی واضح مثال ہے۔ بھارت ایک طویل عرصے سے بحیرہ ہند کے پانیوں پر اپنی حکمرانی ثابت کرنے کے لئے ہر حربہ اختیار کر رہا ہے۔ مگر اب بھارت بحیرہ ہند سے آگے بڑھ کر South China Sea میں بھی اپنے قدم جمانے کی باتیں کر رہا ہے۔

اس بات کا بھارت میں احساس موجود ہے کہ بھارت کی معیشت چین کی معیشت کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر امریکی حمایت سے وہ اس فرق کو پاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں ہے کہ بھارت قوت خرید کے اعتبار سے دنیا کی تیسری بڑی منڈی ہے۔ اور اس حقیقت کو ہتھیاروں کی سپلائی سے لے کر عام ضروریات زندگی تک کی اشیاء مہیا کرنے والے سرمایہ دار ممالک نظر انداز نہیں کر سکتے۔ یعنی دولت کشید کی جا سکتی ہے۔ پھر بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں اس معیشت کا بھارت کی سماجی زندگی میں بھی ایک اثر واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ مثلاً اس عرصے کے دوران بھارت میں 16 کروڑ لوگ خط غربت سے آزاد ہو کر درمیانے درجے کی معیشت رکھنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ پھر سیاسی استحکام تو سب سے بڑی چیز ہے۔

دنیا میں یہ تصور بھی نہایت مضبوط ہے کہ بھارت کی ریاست جو بات جو وعدہ کرے گی اس کو پورا کرنے میں اس کو کوئی رکاوٹ حاصل نہیں ہو گی۔ اور حکومت سیاسی عمل کے ذریعے ہی قائم ہو گی اور روانہ ہو گی۔ لہٰذا اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کیفیت کا بھارت بھر پور فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے لئے یہ بالکل واضح ہے کہ بھارت کی ایسی کسی جانب پیش قدمی کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل کا سامنا وطن عزیز کو ہی کرنا پڑے گا۔ اب سیاسی بے یقینی کو تو فی الحال رفع نہیں کیا جا سکتا یہ تو ایک وائرس کی صورت میں وطن عزیز کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے کہ جس کا علاج ہر ترقی کے واسطے بہت ضروری ہے۔ مگر خارجہ حکمت عملی سے اس بڑھتے ہوئے چیلنج کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

وزارت عظمیٰ کی تبدیلی کے ساتھ ہی وزارت خارجہ کی ٹیم میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف کی عدم موجودگی کے سبب سے ان کے قد کاٹھ کا رہنما وزیر خارجہ کو سرکاری سطح پر حاصل نہیں ہو گا۔ مگر وزیر خارجہ سیاست اور حکومت کے بہت سے نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں اسی لئے معاملہ فہم ہیں۔ اور ان سے بہتر کارکردگی کی امید کی جا رہی ہے۔ اب وہ بقایا مدت کے لئے وزارت خارجہ میں کیا پروڈکٹ تیار کریں گے؟ اس میں یہ تو واضح ہے کہ یہ مختصر مدت اور طویل مدت کی حکمت عملیاں ہوں گی۔ کہ جس سے مختصر مدت کی حکمت عملی پر وہ اپنے دور میں عمل درآمد بھی کروائیں گے۔

کارل مینگر تھا تو ماہر معیشت اس نے اپنی کتاب پرنسپل آف اکنامکس لکھی بھی معیشت پر تھی مگر اس کا ایک پیرا خارجہ حکمت عملی پر بھی بالکل درست بیٹھتا ہے وہ لکھتا ہے کہ ”کسی بھی پروڈکٹ یا سروسز کی قدر اس محنت کی مقدار سے متعین نہیں ہوتی جو اس پروڈکٹ یا سروس کو پیدا کرنے کے لئے کام آئی اور نہ ہی کل پیداواری اخراجات پر یہ انحصار کرتی ہے۔ بلکہ اس کا تعین خریدار و فروخت کنندگان کی ضروریات اور خواہشات سے ہوتا ہے“۔ ادھر معاشی پروڈکٹ کی بجائے اگر بین الاقوامی پالیسیوں کو سمجھ لیا جائے تو یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں ہے کہ وزیر خارجہ جو پروڈکٹ بھی تیار کریں گے اس پر محنت سے زیادہ اس امر کا خیال رکھنا ہو گا کہ پاکستان کے پاس ایسا کیا ہے جو بین الاقوامی دنیا کے سامنے سیل کر سکتا ہے۔ اور اس کو کیا Buy کرنا ہے۔

اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے پاکستان کا سفیر مسقط میں اپنی اسناد سفارت تک پیش نہیں کرسکا ہے۔ جرمنی میں جو یوم آزادی کے سلسلے میں تقریب ہوئی اس کا مہمان خصوصی کتنا غیر اہم آدمی تھا یہ دیگ کے صرف چند دانے ہیں۔ سفارتکاری کے حوالے سے یہ لکھا پڑھا اصول ہے کہ بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے والے اساتذہ اور دیگر ماہرین پالیسی سازی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ خواجہ آصف کو بھی ایسی ہی ٹیم کو تشکیل دینا ہو گا۔ کیونکہ بیوروکریسی کے ذہن میں آئیڈیاز صرف اگلے گریڈ میں جانے کے ہوتے ہیں۔ فریڈرک اے ہائیک نے کہا تھا کہ Ideas have consequences۔ ”نظریات کے بھی نتائج ہوتے ہیں اور ان نظریات کی صحت کا دارومدار ان نتائج پر ہوتا ہے“۔ بھارت سے مقابلہ کرنے کی غرض سے خیالات کی بھی نمو کرنی ہو گی کیونکہ مطلوبہ نتائج پانا تو اس وقت سول یا خاکی بیوروکریسی کے بس کی بات نہیں ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).