بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کی ماں ہے


اُستاد فرماتے ہیں ”میں ایک ایسی قوم کا فرد ہوں، جس نے گزشتہ کئی صدیوں سے کوئی بات نہیں سوچی‘‘۔

مگر اب فکروتدبر کے صدیوں پرانے مقفل کواڑ کھلنے چاہئیں صاحب! زنگ آلود دَر وَا کرکے سوچنے اور صحت مند مکالمے کی روایت کا آغاز صدائے وقت ہے۔ سوال اٹھنے چاہئیں اور مکالمے کی صورت جواب تلاش کرنے چاہئیں۔ اکیسویں صدی میں جو معاشرہ سوال اٹھانے پر مشتعل ہو جاتا ہے، وہ نارمل سماج نہیں کہلاتا۔ مہذب دنیا میں یہ بیمار چلن کب کا قصہ پارینہ ہو چکا کہ:

در بدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پھرتے ہیں سوال

اور مجرم کی طرح ان سے گریزاں ہیں جواب

بلین ڈالر کا سوال اٹھانا چاہیے کہ کچھ ممالک میں شہریوں کا جذباتی استحصال اتنا آسان کیوں ہوتا ہے کہ جو بھی لال بجھکڑ اپنی جہالت کا پرچم بلند کرتا ہے، اسے فوراً اپنے حصے کا بیکراں جانثار ریوڑ میسر آ جاتا ہے؟ نیز ایسی ریاستوں میں نظم و ضبط کا فقدان اور انسانی خون سستا کیوں ہوتا ہے؟

غوروفکر اور مکالمے کی کوکھ سے جواب برآمد ہو گا کہ دنیا کے جن معاشروں میں آبادی ریاستی منصوبہ بندی کے تحت بڑھتی ہے، ہر کسی کے لیے علم و تحقیق کے دَر وا ہیں، سوچ اور اظہار کی آزادی ہے، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع یکساں طور پر ارزاں ہیں، خوشحالی ہے اور عوام کی حاکمیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، وہاں شہریوں کو اپنی اور دوسروں کی زندگی سے پیار ہوتا ہے۔ باہمی احترام، تنظیم اور قانون کی پابندی ایسی عادات لوگوں کی سرشت میں سما جاتی ہیں۔ ایسے معاشروں میں جہالت اور انتہا پسندی کوئی مقام حاصل کر سکتی ہیں، نہ لاقانونیت اور قتال و جدال پنپ سکتے ہیں۔ کسی لال بجھکڑ کو اپنا تندور گرم کرنے کی خاطر انسانی ایندھن میسر آتا ہے، نہ کسی دو نمبر دکان کے کھوٹے مال کو عوامی پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جن ممالک میں آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی ہے، سوچ اور علم و آگہی کے دریچے مقفل ہیں، تنگ نظری اور گھٹن کا ماحول ہے، صحت و تعلیم کی سہولتیں عنقا ہیں، انصاف، بنیادی حقوق، روزگار اور تفریح کے مواقع خواب ہیں، ریاستی وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز ہیں، بھوک اور ننگ عام ہیں اور عوام کی رائے کو چند مضبوط جوتے اپنی نوک پر رکھتے ہیں، وہاں فرد کو دوسروں تو کیا، خود اپنی زندگی کی بھی کم ہی پروا ہوتی ہے۔ ایسے بیمار ماحول میں لال بجھکڑوں کو اپنا آتش کدہ گرم رکھنے کی خاطر ابنِ آدم اور بنتِ حوا کا ایندھن خوب میسر آتا ہے اور ان کی دو نمبر دکانوں کا کھوٹا مال بھی ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔ ایسی بدقسمت سر زمینوں میں لوگوں کی سیاسی اور مذہبی وابستگی میں ہیجان اور اشتعال کے انگارے بھر کر شدت پسندی، لاقانونیت اور قتل و غارت کو فروغ دینا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا۔

فکروتدبیر اور مکالمے سے یہ راز بھی کھلے گا کہ ایسے تمام مسائل میں بے تحاشا آبادی اُم المسائل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ثبوت زیرِ نظر ہے کہ دنیا کے جن ممالک میں آبادی 2.4 فیصد سالانہ کی خوفناک شرح سے بڑھ رہی ہے، ان میں وطن عزیز کے علاوہ افغانستان، ایتھوپیا، موزمبیق، نائجیریا، لائبیریا، انگولا، کانگو، چاڈ، بنین، برکینا فاسو، عراق، مالی اور گنی بسائو جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں امن و امان کی صورتحال، بنیادی سہولتوں، انصاف، فی کس آمدنی، غربت کی شرح، نظم و ضبط، عام آدمی کی عزت نفس اور جہالت و جذباتیت جیسی بلائوں پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے۔

پیارے وطن کی چھٹی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق پچھلے 19 سال کے دوران 57 فیصد اضافے کے ساتھ ہماری آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار ہو چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں مملکت خداداد نے صرف دو شعبوں میں حقیقی ترقی کی ہے۔ ایک آبادی کا عفریت اور دوسرا گداگری کی صنعت۔ 2.4 فیصد کی قابلِ رشک شرح نمو کے ساتھ ہم ہر سال تقریباً 50 لاکھ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ آج کل ٹی وی پر 1965ء کی جنگ کے آغاز کے وقت ایوب خان کے قوم سے خطاب کی فوٹیج دکھائی جا رہی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آ گیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ دس کروڑ مغربی اور مشرقی پاکستان کی جملہ آبادی تھی۔ ہم سنتے ہیں کہ 1951ء میں مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ 80 ہزار تھی، جو آج 21 کروڑ کے نزدیک پہنچ چکی ہے۔ اس سے قبل پاکستان کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک کہا جاتا تھا‘ مگر حالیہ مردم شماری کے بعد ہم ترقی کر کے پانچویں نمبر پر آ گئے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اگلی مردم شماری کے بعد ہم ایک نمبر مزید اوپر چلے جائیں۔

یونیسکو اپنی گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ میں کہتا ہے کہ پاکستان گزشتہ 15 برس میں تعلیمی پروگرام کا کوئی بھی ہدف پورا نہیں کر سکا۔ ہماری شرح خواندگی جنوبی ایشیا میں سب سے کم یعنی 57 فیصد ہے۔ ملک عزیز کا شمار ان 9 ممالک میں ہوتا ہے جو تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتے ہیں۔ دنیا کی سات سو بہترین یونیورسٹی کی لسٹ کو چھوڑیے، ایشیا کی سو اچھی جامعات میں سے ہماری ایک بھی نہیں۔ اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ کہتی ہے کہ وطن عزیز تعلیم کے میدان میں دیگر ممالک سے پچاس سال پیچھے رہ گیا ہے۔ ہماری آدھی سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گھسیٹ رہی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہاں تیس فیصد لوگ ذہنی مریض ہیں۔ انصاف کے لیے یہاں نسلیں رُلتی ہیں اور کیا ستارہ چمکا ہے ہمارے بخت پر کہ ہمارے سکول جانے کی عمر کے بچوں کی نصف تعداد یعنی اڑھائی کروڑ نونہال سکولوں سے باہر ہیں۔

یہ نونہال کیا کرتے ہیں، یہ ناخواندہ اور نیم خواندہ شہری کس کام آتے ہیں، ان بے روزگاروں کا کیا شغل ہے، ان خط غربت سے نیچے رینگنے اور انصاف کے لیے رُلنے والوں کی مصروفیات کیا ہیں، یہ تیس فیصد ذہنی مریض کس مشن پر ہیں اور اس کراں تابہ کراں پھیلی آبادی کا عفریب کیا گل کھلاتا ہے بھلا؟… یہ سب باہمی انتشاروافتراق کے گل کھلانے کے علاوہ تیز رفتاری سے بڑھتی شدت پسندی کا ایندھن ہیں، جو نادانستہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے جہنم نما معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں۔ ان محروم، نابلد اور دنیا سے بے خبر لوگوں کے غول بیابانی کے ناپختہ اذہان کو کوئی بھی شعبدہ باز اپنی کم علمی کی آتش بانی سے مہمیز کرکے ان کا جذباتی استحصال کرتا ہے اور اپنے حصے کی بھیڑ بکریاں اپنے پیچھے لگا لیتا ہے۔ وہ عدم برداشت اور دنگا فساد کا تندور گرم کرکے اپنی روٹیاں لگاتا ہے اور ہم سادہ لوح ان تندوروں میں لکڑیوں کی طرح جل کر خود کو راکھ کرتے ہیں۔

ان گزارشات کا حاصل یہ کہ ملکی وسائل سے بڑھ کر بے ترتیب آبادی میں اضافہ اور تعلیم و صحت، روزگار اور انصاف جیسی بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی معاشرے میں انتشار اور شدت پسندی کی راہ ہموار کرتی ہے‘ اور شدت پسندی دہشت گردی کی بنیاد ہے۔ ایک گھر کی مثال لیتے ہیں۔ اگر مزدور کا بھی ایک بچہ ہوگا تو اسے بہت عزیز ہوگا، وہ اس پر توجہ دے گا اور بساط بھر تعلیم دلا کر اسے معاشرے میں باعزت مقام دلانے کی سعی کرے گا۔ کوئی ادارہ اسے ”علم‘‘ کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے مانگ کر لے جانا چاہے گا تو وہ ہرگز نہیں دے گا۔ تاہم اگر اس مزدور کے دس بچے ہوں گے تو اس کی محدود آمدنی کے دشمن اور گھر میں انتشار کا موجب بنیں گے۔ پھر وہ بچوں سے جان چھڑائے گا۔ جو چاہے انہیں لے جائے اور روبوٹ بنائے یا خودکش بمبار، مزدور کو پروا نہ ہو گی۔

بارِ دگر عرض ہے کہ پاک سرزمین میں بھی اب خرد و فہم کے بند دریچے کھلنے چاہئیں۔ مکالمے کا آغاز ہونا چاہیے اور سب سے پہلے اہل دانش کو اُم المسائل پر کھل کر بات کرنے کی آزادی اور شہریوں کو اس سیل بلا کے آگے بند باندھنے پر قائل کرنے کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ کارِ خیر بیک وقت سرکاری و غیر سرکاری سطح پر کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).