محبت روہنگیا سے ہے یا قربانی کی کھالوں سے؟


برمی فوج کے ہاتھوں جلایا گیا ایک روہنگیا گاؤں

برما کے بنگالی النسل روہنگیا مسلمانوں کو نسل کشی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ریاست اس کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ایسا کئی برس سے مسلسل ہو رہا ہے۔ مگر پاکستان کی بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کو روہنگیا پر ڈھائے جانے والے مظالم کا درد عموماً صرف دو مہینوں میں ہی ستاتا ہے۔ رمضان میں جب عام لوگ زکوۃ و خیرات کرتے ہیں، یا پھر عید قربان پر جب لوگوں سے قربانی کی کھال اکٹھی کرنے کی مہم چلتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ دور دیس کے مسلمانوں کے نام پر قربانی کی کھال اکٹھی کرنے والے ان حلقوں کو محبت برما کے روہنگیا سے ہے یا قربانی کی کھالوں سے؟

مسلمان کہاں کہاں برے حالوں میں ہیں؟ شام اور عراق میں ان پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ یمن میں وہ ایک برادر اسلامی ملک کی بمباری سے اور فاقوں سے مر رہے ہیں۔ غزہ میں برے حالوں پڑے ہیں۔ افغانستان میں وہ دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ افریقی ممالک میں غربت اور فاقوں سے مر رہے ہیں۔ ان کے نام پر تو مہم نہیں چلتی۔ لیکن سب سے بڑھ کر کوئٹہ، پشاور، فاٹا، اندرون بلوچستان اور سندھ اور جنوبی پنجاب میں لوگ فاقوں سے یا دہشت گردی سے مر رہے ہیں۔ ان پاکستانیوں کا جرم یہ ہے کہ یہ پاکستانی ہیں اس لئے اصلی مسلمان نہیں مانے جائیں گے یا ان کا مسلک ان قربانی کی کھالیں جمع کرنے والوں کو پسند نہیں ہے۔ ان کا نام لینا منع ہے۔ یا ممکن ہے کہ ان کے نام پر کھالیں اور خیرات نہ لینے کی وجہ یہ ہو کہ ان پر پیسہ نہ لگا تو دکھائی دے جائے گا جبکہ دور دیس کے مسلمانوں کے نام پر لئے گئے پیسے کو خرچ ہوتا دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ حضرات آپ کو محبت برما کے روہنگیا سے ہے یا قربانی کی کھالوں سے؟

مذمت کرنی ہے تو مذہب و مسلک سے بالاتر ہو کر ہر انسان پر ظلم کی کریں۔ خواہ کسی انسان کو بھی اگر رنگ، نسل، عقیدے، سیاسی رجحان یا زبان کی وجہ سے نفرت کا نشانہ بنایا جائے تو اس کے خلاف بات کریں۔ انسانی جان کی حرمت کی بات کریں۔ نسل کشی کسی کی بھی ہو، اس کے خلاف بات کریں خواہ وہ برما کے مسلمان کی ہو یا پاکستان کے ہندو کی۔ ایسا ہو تو آپ کا گروہ دوسروں سے محفوظ ہو گا اور دوسرے بھی آپ سے محفوظ ہوں گے۔

ویسے برما کے روہنگیا بنگالی مسلمانوں کی فکر میں ہلکان افراد دو کام کیوں نہیں کرتے۔

پہلا یہ کہ روہنگیا علاقے سے چند سو کلومیٹر شمال مغرب کی طرف ڈھاکہ میں محصور لاکھوں بہاری پاکستانیوں کی اتنی ہی فکر کر لیں جتنی ان کو روہنگیا کی ہے تاکہ ہمیں یقین آئے کہ ان کے دل میں جو درد ہے وہ مسلمانوں کا ہی ہے۔ ان بہاریوں کی پاکستان واپسی کے لئے مہم چلائیں لیکن آپ ان کا تو نام تک نہیں لیتے جیسے وہ پاکستانی نہ ہوں یا مسلمان نہ ہوں لیکن دور دیس برما کے مسلمانوں کے نام پر قربانی کی کھال ان کو چاہیے۔ پہلے اپنا گھر تو سنبھالیں پھر محلے کی فکر کریں۔

دوسرا یہ کہ بنگلہ دیش کے سفارت خانے کے سامنے جا کر احتجاج کریں کہ وہ اپنی سرحد کھول دے اور ان بنگالی النسل روہنگیا مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں داخل ہونے دیں۔ ادھر بنگلہ دیش میں بھی جماعت اسلامی ہے اور ہندوستان میں بھی۔ ذرا ادھر کی جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک زبردست تحریک تو چلائی جائے کہ بنگلہ دیش ان روہنگیا مسلمانوں کو قبول کرے۔ برما یہی تو دعوی کرتا ہے کہ وہ بنگالی ہیں اور برما کے شہری نہیں ہیں بلکہ انگریز کے دور میں برما میں آباد ہوئے تھے۔ ان کی نسل بنگالی ہے، زبان بنگالی ہے، کلچر بنگالی ہے، تو بنگلہ دیش انہیں کیوں ٹھکرا رہا ہے؟ ذرا کلاس تو لی جائے اس نابکار ملک کی۔

لگے ہاتھوں کبھی اس بات پر غور کر لیں کہ برما کی حکومت پر پاکستان کا کیا زور چلتا ہے؟ کیا عالم اسلام کی واحد قوت پاکستان برما پر ایٹمی حملہ کر دے اور جب میزائل بھارت اور ڈھاکہ کے اوپر سے اڑ کر ادھر جا رہا ہو تو جواب میں ایک طرف بھارتی ایٹمی حملے کا سامنا کرے اور دوسری طرف شدید بین الاقوامی ردعمل کا شکار ہو کر خود اپنا وجود ہی خطرے میں ڈال دے؟ ویسے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان کے پاس ایسے میزائل نہیں ہیں جو برما کیا ڈھاکہ تک بھی مار کر سکیں۔ یعنی ہمارا ایٹمی طاقت ہونا صرف ہماری اپنی خودی ہی بلند کر سکتا ہے، برما کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ کہیں وہ مثل تو صادق نہیں آ رہی ہے کہ کووں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرا کرتے۔

دوسرا راستہ معاشی ہے۔ کیا پاکستان ایک اتنا امیر ملک ہے کہ برما کی معیشت اس کے دیے گئے قرضوں کے سر پر چل رہی ہے؟ یا پھر پاکستان اور برما کی باہمی تجارت اس درجے کی ہے کہ پاکستان یہ تعلقات توڑ لے تو برما شدید مشکلات کا شکار ہو جائے گا؟ یا پھر اتنی بڑی معاشی طاقت ہے کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف یا ایشین ڈیویلپمنٹ بینک میں اس کا سکہ رائج اور ان کے ذریعے وہ برما کا بین الاقوامی معاشی مقاطع کرنے پر قادر ہے؟ ایسا نہیں ہے تو پاکستان کس بنیاد پر برما پر زور ڈال سکتا ہے؟ پاکستان تو خود قرضوں پر چلتا ہے کسی کو کیا دے گا۔

ویسے اڑتی اڑتی ایک افواہ سنی ہے کہ برما کی حکومت کے پیچھے چین ویسے ہی کھڑا ہے جیسے پاکستان کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے۔ تو پھر کیا کریں اب؟ پاکستان کے لئے کیا حکم ہے میرے قربانی کی کھال والے آقا؟ امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے تو امریکہ مردہ باد ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ روہنگیا کے لئے بھی کچھ کر ڈالیں۔

لیکن ہِر پھر کر وہی پرانا سوال سامنے آتا ہے۔ قربانی کی کھال والے صالح بھائیوں اور ہمنواؤں کو روہنگیا صرف زکوٰۃ اور قربانی کی کھالوں کے سیزن میں ہی کیوں یاد آتے ہیں؟ ان حضرات کو محبت روہنگیا مسلمانوں سے ہے یا قربانی کی کھالوں سے؟ جاتے جاتے ایک سوال اور بھی۔ یہ روہنگیا کے نام پر اکٹھا کیا گیا پیسہ کس چینل سے برما جاتا ہے اور ادھر کیسے استعمال کیا جاتا ہے؟

اگر آپ کو روہنگیا، یمن، شام،  فلسطین وغیرہ کے مسلمانوں کی مدد کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اسے پورا کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان کو ایک بڑی معاشی طاقت بنائیں۔ ایسا کرنے کے لئے ہمیں انتہاپسندی سے دور جانا ہو گا، مذہب، مسلک اور نسل کے نام پر نفرت ختم کرنی ہو گی، قانون کی پابندی کرنی ہو گی، ٹیکس دینا ہو گا، نظام تعلیم کو ترقی یافتہ ممالک کے نقش قدم پر چل کر بہتر کرنا ہو گا۔ کیا آپ یہ سب کچھ کرنے کو راضی ہیں یا بس روہنگیا کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کر یں گے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar