قیام پاکستان کے بعد پہلی نماز عید الاضحیٰ


قائد اعظم کی زندگی کا ایک یادگار واقعہ، جو تاریخ کی نظروں سے اوجھل ہے۔

یہ25 اکتوبر1947ء کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوارمنایا جانا تھا۔ قائد اعظم اور دیگر سرکاری عمائدین نے 18 اگست 1947ء کوعیدالفطر کی نماز وفاقی دارالحکومت میں بندر روڈ پر مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں میں ادا کی تھی، جو عید گاہ کے نام سے بھی معروف تھی۔ اس نماز کی امامت کا فریضہ مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دیا تھا۔ 25 اکتوبر 1947ء کو عید الاضحیٰ کی نماز کی ادائی کے لیے بھی اسی مقام کا انتخاب ہوا۔ اس مرتبہ بھی امامت کا فریضہ مولانا ظہور الحسن درس کے حصے میں آنا تھا۔ قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا، لیکن تمام لوگ اس وقت بڑے حیران ہوئے جب نماز کا وقت آگیا مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انھوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نمازکی ادائی کچھ وقت کے لیے موخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ”میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں“ چناں چہ انھوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ابھی نماز عید کی پہلی ہی رکعت شروع ہوئی تھی، کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں، مگر قائد اعظم نے ان حکام کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف ہی میں نماز ادا کروں گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی پوری عید گاہ قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرات ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علما کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔مولانا ظہور الحسن درس 9 فروری 1905ء کو کراچی میں مولانا عبدالکریم درس کے یہاں پیدا ہوئے تھے۔ آپ 1940ء سے 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے رکن اور اہم عہدوں پر فائز رہے۔ قائداعظم آپ کو سندھ کا بہادر یار جنگ کہا کرتے تھے۔ مولانا ظہور الحسن درس نے 14 نومبر 1972ء کو کراچی میں وفات پائی اور قبرستان مخدوم صاحب نزد دھوبی گھاٹ میں آسودہ خاک ہوئے۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف تھے جن میں ”چشم تلطف پنجتن“، ”خون کے آنسو“ اور ”تحقیق الفقہ اما فی کلمتہ الحق“ کے نام سرفہرست ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).