پاکستان کی سیاست میں کیا ہو رہا ہے ؟


کتنا اچھا لگتا ہے یہ سننا کہ ٹرمپ پالیسی کے خلاف پارلیمنٹ، حکومت اور فوج ایک ہو گئے۔ قومی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ قرارداد میں غیرت ملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ کو فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت معطل کر کے دونوں ممالک کے حکام کے دورے بھی ملتوی کیے جائیں۔ بھارت کو افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکا جائے۔ حکومت امریکی سفیر کو طلب کرے، وغیرہ وغیرہ۔ آخر اس تمام مشق کا فائدہ کیا ہے؟ کس کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقاریر سے کون سا رن کانپنا شروع ہو گیا ہے؟ معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ یہ ساری کی ساری کارروائی محض رسمی ہے۔ پاکستان پرآنے والا دباﺅ ایسے اقدامات سے نہیں ٹالا جا سکتا۔ امریکی صدر کی مذمت کیلئے بلائے گئے اس اجلاس میں کام کی بات ایک آدھ ہی تھی۔ چودھری نثار نے گرما گرم تقریر کے دوران ایک ہی مطالبہ کر کے کئی حلقوں کو چونکا دیا۔ سابق وزیر داخلہ نے مطالبہ کیا کہ امریکی امداد کا آڈٹ ہونا چاہیے۔ بات بالکل جائز ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی متنازع تقریر میں زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ ہم نے پاکستان کو کئی ارب ڈالر دئیے مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دے رہا ہے۔ پاکستانی حکام نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اربوں ڈالر دینے کی بات درست نہیں جو رقم ملی وہ زمین یا فضائی حدود کو استعمال کیے جانے کی مد میں تھی۔ چودھری نثار نے تو آڈٹ کا مطالبہ کر کے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔ اس طرح مالی امداد کے حوالے سے امریکی حکام کے جھوٹ کا پول پوری دنیا کے سامنے کھل سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سپرپاور شرمندہ ہونے کے بجائے دھونس جمانے کا سلسلہ پھر بھی جاری رکھے گی۔

پاکستان کی جانب سے ایک صفحے پر ہونے کی بات اخبارات کی سرخیوں اور ٹی وی چینلوں کے پروگراموں کی حد تک تو چل سکتی ہے مگر یہ کس سے ڈھکا چھپا ہے کہ جس پارلیمنٹ کو منظم طریقے سے دن رات ہر للو پنجو سے گالیاں دلوائی جاتی ہوں، اس کی وقعت بیرونی ممالک کی نظر میں کیا ہو گی۔ یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس پارلیمنٹ کی اوقات ہی کیا جو محض ایک ٹویٹ کا بوجھ نہ سہہ سکے۔امریکہ تو ہر شعبے میں دخیل ہے۔ پاکستانی حکام سے ڈیل کرنے والے امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کس سے کیسے بات کرنی ہے۔ ایک ہی صفحے پر نظر آنے کی کوشش کرنے والے امریکی دباﺅ یا مراعات کے سامنے اپنے اپنے شعبوں سے بے نیاز ہو کر ایک ہی صف میں کھڑے ہونے سے قطعاً نہیں ہچکچائیں گے۔

قومی اسمبلی کے اسی اجلاس میں شیخ رشید نے بھی خطاب کیا۔ اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فرزند راولپنڈی نے جو کچھ کہا اس کی ہدایت انہیں کہیں سے ملی تھی۔ شیخ رشید نے ’انکشاف‘ فرمایا کہ ہم امریکہ سے نہیں لڑ سکتے۔ ہمیں بیک چینل ڈپلومیسی جاری رکھنی چاہیے۔ ان کی دونوں باتیں بالکل درست ہیں۔ کسی کے اکسانے پر چند مخصوص مولویوں کے بیانات اور نام نہاد تنظیموں کی جانب سے مرنے مارنے کے نعروں میں کوئی دم نہیں۔ یہ سب وقت کا ضیاع اور بے کار سرگرمی ہے۔ اصل بات وہی ہے کہ ریاست پاکستان کو کسی طور پر موقع نہیں دینا چاہیے کہ کوئی اور ملک حملہ آور ہو۔ اس تلخ علاقائی ماحول میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دور ہ تاجکستان بہت اہمیت کا حامل رہا۔ افغان فوجی قیادت نے پاکستانی سپہ سالار سے مذاکرات کے بعد بیان جاری کیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کرادی ہے۔ اس حوالے سے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہونگے کیونکہ ہمیں صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ بھارت کی جانب سے بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ سی پیک کے تناظر میں سارا معاملہ یوں اور بھی گمبھیر ہو جاتا ہے کہ کئی اور ممالک بھی اپنے مفادات پر زدپڑتی دیکھ کر دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ ایسے تمام حریف ممالک اپنے اپنے انداز سے بھارت کے ہاتھ مضبوط کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین تو ڈوکلام سے بھارتی فوج کی واپسی کو بھی اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ اڑھائی ماہ سے زیادہ عرصے تک بھوٹان کے علاقے میں گھس کر چینی فوج کو اینگیج رکھنے والی فورس بھارت نے کسی خیر سگالی کے تحت واپس بلائی یا پھر وہ خود کو کسی نئے محاذ پر الجھانے سے پہلے دشمنوں کی تعداد گھٹا رہا ہے؟ جو کچھ بھی ہو یہ تو طے ہے کہ اس وقت مشرقی سرحدوں کی طرح ہی مغربی سرحدوں سے بھی خطرات کے بادل امڈ رہے ہیں۔

سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورت حال تو یہ ہے کہ پاکستان کو درپیش سرحدی مسائل کے ساتھ ساتھ اندرون ملک بھی اختلافات نت نئے روپ میں سامنے آرہے ہیں۔ مردم شماری کے معاملے پر جس طرح سے شور اٹھا ہے وہ اس لیے زیادہ سنگین ہے کہ اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کے ساتھ پاک فوج نے پورا فریضہ مل کرسر انجام دیا۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے مردم شماری مسترد کی تو کراچی اور ایم کیو ایم نے اعتراضات اٹھا دئیے۔ فاٹا کے حوالے سے بھی شدید تنقید سامنے آرہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مردم شماری کا معاملہ پہلے سے زیادہ متنازع ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں ان عناصر کی بھی کمی نہیں جو اس تمام معاملے کو آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو رکوانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ان حلقوں کا کہنا ہے کہ جب مردم شماری ہی نہیں مانی جائے گی تونئی حلقہ بندیاں نہیں ہو سکیں گی۔ ایسے میں الیکشن کرانے کا کوئی جواز نہیں رہے گا، سو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے، طویل عرصے کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت بنانے کا حکم جاری ہوجائے گا۔

ملک میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے خدشات کو یقینا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر بڑے پیمانے پر یہ سوچ بھی پائی جارہی ہے کہ ایسا کوئی بھی فیصلہ ریاست پاکستان کی سالمیت کیلئے ہر لحاظ سے نقصان دہ ہو گا۔ تاثر عام ہے کہ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے سے قبل ہی پیپلز پارٹی سے ڈیل کر لی گئی تھی جس کے ثمرات پیپلزپارٹی ان دنوں خوب سمیٹ رہی ہے، بعض اہم قومی امور پر سابق صدر زرداری اور جانے مانے حوالدار اینکروں کا ایک ہی موقف دیکھ کر قوم کو خوش گوار حیرانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے مگر اب بےنظیر بھٹو قتل کیس کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے اندرونی حلقوں کے علاوہ ملک بھر میں بحث چھڑ چکی ہے کہ آخر قاتل کون تھے ؟ آصف زرداری اپنے دور صدارت میں ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں علم ہے کہ قاتل کون ہیں۔ وہ کبھی کھل کر نام تو سامنے نہیں لائے تاہم نجی محفلوں میں مبینہ قاتلوں کا تذکرہ ضرور کرتے رہے۔ اب بھی اگر پیپلز پارٹی نے قاتلوں کا کھل کر نام نہ لیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ معاملے پر ہمیشہ کیلئے مٹی ڈال دی گئی ہے۔ بےنظیر قتل کیس میں جنرل مشرف کو اشتہاری ضرور قرار دیا گیا ہے مگر ان کا کسی نے کیا کر لینا ہے؟ پاکستان پر حالیہ امریکی دباﺅ اور بار بار ایٹمی پروگرام کے غیر محفوظ ہونے کا معنی خیز تذکرہ کر کے خبث باطن کا مظاہرہ کرنے کے دوران اگر کوئی سابق صدر اور آرمی چیف ہی الزامات عائد کر دے تو کسی اور دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

جنرل مشرف نے ایک نجی ٹی وی کوانٹرویو میں (جوہر لحاظ سے ارینج نظر آرہا تھا ) کھل کر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر ایٹمی پھیلاﺅ میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے، پاکستانی اداروں خصوصاً خفیہ ایجنسیوں کو اس تمام معاملے کا فوری نوٹس لے کر کارروائی کرنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ معاملہ بڑھتے بڑھتے ”سلطانی گواہ“ کے روپ میں ڈھل جائے۔ سابق آمر اپنے پرانے ادارے کی جانب سے ملک کی ’دوبارہ خدمت‘ کا موقع نہ دیئے جانے پر ان دنوں آپے سے باہر جاتے نظرآرہے ہیں۔یوں بھی ایک ہی ماہ کے دوران لندن اور ناروے میں مقیم پاکستانیوں کے احتجاج پر تین تقریبات کی منسوخی نے جنرل مشرف کو سخت نفسیاتی الجھن میں مبتلا کر دیا ہے۔سابق آمر کو اس وقت شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب ایک تقریب میں موجود ناروے کی خاتون وزیراعظم نے خواہش کے باوجود سابق آمر کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔

ملک کے اندر بھی کہاں سب اچھا؟ بہت پہلے عرض کیا تھا کہ معاملہ نواز شریف تک نہیں رکے گا۔ سکرپٹ میں درج احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے شہباز شریف ہی نہیں بلکہ حکومت پنجاب اور پوری مسلم لیگ(ن) کو ٹارگٹ کیا جائے گا۔ ملکی سیاست کو پوری طرح زیر قبضہ رکھنے کیلئے کسی کو بھی ایک حد سے زیادہ پھیلنے کی اجازت نہ دی جائے گی۔ مسلم لیگ(ن) تو اتنا خطرہ بن چکی تھی کہ سینیٹ الیکشن اس کی جیب میں پڑے نظر آرہے تھے۔ اگلے عام انتخابات 2018 ءمیں ہونے کی صورت میں پھر سے 5 سال حکومت کرنے کا خطرہ بھی منڈلارہا تھا۔

سو پر کاٹنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ اپنے تئیں”مسٹر کلین “ بننے والے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف ملتان میٹرو کا پہلا تیرچلا دیا گیا۔ پتہ نہیں کیوں شہباز شریف نے اوورایکٹ کرتے ہوئے پریس کانفرنس کر ڈالی۔ صرف مخصوص چینل پر برسے مگر یہ نہیں بتایا کہ اس چینل کو یہ ’نیک کام‘ کرنے کی ہدایت کس نے دی ہے۔ شاید انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ جن کو دوست سمجھتے تھے وہی خنجر گھونپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ قرائن سے لگتا ہے کہ شہباز شریف مخالف مہم مزید زور پکڑے گی۔ کرپشن یا بے گناہی کیلئے کسی عدالتی انکوائری کی ضرورت نہیں،پروپیگنڈا کا طوفان کھڑا کر کے’ مسٹر سپیڈ‘ کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی۔ حیرت کیوں ؟ایسا تو ہونا ہی تھا، ملک سیاسی کھینچا تانی اور اندرونی کشمکش کے ایسے حالات سے دو چار رہے گا۔ مسئلے کا حل موجود ہے مگر خطرات سے پرُ۔

سکہ بند مبصرین اور خود کو جمہوریت پسند کہلوانے والے حلقے پچھلے کافی دنوں سے کہہ رہے ہیں کہ معاملات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے نواز شریف کو غم و غصہ اور گھریلو پریشانیاں پیچھے چھوڑ کر توجہ اور دلیری سے اسی راستہ پر آگے بڑھنا ہو گا جس کا اظہار وہ گاہے گاہے کرتے رہتے ہیں ۔ اب تو خود ان کے مخلص پارٹی ورکروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ نواز شریف کھل کر سامنے نہ آئے تو صرف غیر یقینی کے اس طوفان میں مسلم لیگ(ن) ہی نہیں بلکہ بہت کچھ غرقاب ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).