فوٹو گرافی اور نوسکھیے


ہر لمحہ جو گزر رہا ہے وہ ایک تصویر ہے۔ جو کیمرے کی زد میں آ گیا وہ امر ہو گیا، جو ذہن میں محفوظ رہا اسے دیکھنے والے کی زندگی تک کی مدت ملی اور جو کوئی نہ بنا پایا وہ اگلے سانس کے ساتھ ختم ہو گیا۔ تصویر جب کیمرے سے نہیں بھی کھنچتی تھی تب بھی لوگ پورٹریٹس بناتے تھے، لینڈ سکیپ بناتے تھے، سٹل لائف ہوتا تھا یہاں تک کہ سیلفی بھی پینٹ ہوتی تھی۔ وان گوف کی سیلف پورٹریٹ دیکھی جا سکتی ہے، اور بھی بہت سے بنانے والے تھے ۔ کیمرہ آیا تو کام ذرا آسان ہو گیا۔ شروع میں جو کیمرے تھے وہ “روح کھچ” کیمرے کہلاتے تھے ۔ ان کے سامنے بیٹھنے والوں نے شاید بہت بہت دیر انتظار کرنے کے بعد تنگ آ کے انہیں یہ نام دیا ہو گا۔ چیز ہی ایسی ہوتی تھی، مونچھوں کو بل دئیے صاحب بہادر بیٹھے ہیں، دوپٹہ سلیقے سے اوڑھے بیگم ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے کھڑی ہیں، کیمرے والے کی گردن پوری کی پوری کیمرے کے پردے میں غرق ہے اور انتظار ہو رہا ہے ۔ تصویر خدا جانے کب کھنچے گی، مونچھوں کے بل مرجھا گئے، آنکھیں پتھرا گئیں، ماتھا پسینے سے بھر گیا، بیگم صاحب بے چاری پیر تک نہیں بدل سکتیں، سانس سب کا رکا ہوا ہے، آخر جب کیمرے والے کا سر باہر نکلتا تھا تو مبارک سلامت شروع ہو جاتی تھی کیونکہ یہ طے ہوتا تھا کہ اس نے جب اعلان کرنا ہے تب متاثرین کھل کے سانس لے سکتے ہیں۔ پھر تصویر کی دھلائی کا مرحلہ ہوتا تھا، ڈارک روم میں چھتیس طرح کی خواریاں اٹھائی جاتی تھیں، آٹھ دس پرنٹ ریجیکٹ ہونے کے بعد ایک میں رزلٹ بہتر ملتا تھا تو فوٹوگرافر فتح یاب ہو کر ایک ہفتے کے بعد تصویر دیتا تھا۔ اس کے بعد تھوڑی ترقی ہو گئی اور باقاعدہ رِیل والے کیمرے آ گئے، ان میں سہولت یہ تھی کہ تھوڑی زیادہ تصویریں لے لی جائیں جو بعد میں اکٹھی دھلوائی جا سکتی تھیں۔ پولورائیڈ کیمروں کا اپنا ایک مزہ تھا، ادھر تصویر کھینچئے ادھر کھٹاک سے پرنٹ ہو کے حاضر، تو یہ سب کچھ وقت کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتا جاتا تھا۔ چھتیس تصویروں کا رول اور مختلف کمپنیوں کے ہلکے پھلکے سے کیمرے ابھی کل ہی کی بات ہیں۔ کئی گھروں کی الماریوں میں پرانے نیگیٹیوز آج بھی پڑے ہوں گے ۔ پھر ہم لوگ ایک دم بڑی سی چھلانگ لگا کر ڈیجیٹل فوٹوگرافی کے دور میں داخل ہو گئے ۔

یہاں پورا سین بدل گیا۔ شروع میں ڈیجیٹل کیمرے تھوڑے مہنگے تھے لیکن ماس مارکیٹ کو دھیان میں رکھتے ہوئے چین اور تائیوان نے جب بنانے شروع کیے تو عام بندے کی رینج میں آ گئے، اچھا پھر یہ خرچہ بھی ایک ہی بار کا تھا، ایک بار کیمرہ خرید لیجیے اس کے بعد دبادب تصویریں کھینچئے، میموری کارڈ بھر گیا تو کمپیوٹر میں خالی کیا، بیٹری خالی ہوئی تو اسے چارجر سے بھر لیا، فری فنڈ میں ہزاروں تصویریں کھچ گئیں جو آج بھی کسی ہارڈ ڈسک میں پڑی کلبلا رہی ہوں گی۔ یہ معاملہ ابھی چار پانچ برس میں عروج پر پہنچا ہی تھا کہ موبائل میں بھی کیمرے لگ گئے اور اب تو یوں ہے کہ بہت ساری پروفیشنل سہولیات والا کیمرہ ہر اچھے موبائل میں دستیاب ہے ۔ اب ہر انسان جو موبائل رکھتا ہے وہ فوٹو گرافر ہے ۔ لیکن کیا ہر فوٹو گرافر یادگار تصویریں کھینچتا ہے؟ اس پر تھوڑی بحث ہو سکتی ہے ۔ اچھی تصویر وہ ہے جو صرف آپ کو پسند نہ ہو اس کی اپیل یونیورسل ہو۔ ایک جاپانی کو بھی وہ تصویر اتنی ہی پسند آئے جتنی ایک روسی کو آ سکتی ہے، یا کوئی چینی بھی اسے اتنا ہی پسند کرے جتنا ایک ایرانی کر سکتا ہے ۔ یہ مشکل سائنس نہیں ہے، سیدھی سی بات ہے، اپنی سیلفیاں بنانے سے پرہیز کیا جائے اور دوست یاروں کے فوٹو سیشن پورے ہو جائیں تو انسان سڑک سے گزرتے ہوئے بھی اچھی تصویریں بنا سکتا ہے ۔ فوٹو گرافر اپنی ذات کا اسیر نہیں ٍ ٍہوتا۔ وہ کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دیکھتا ہے، اسے ہر منظر میں ثبات کی تلاش ہوتی ہے، وہ ہر وقت تٌلا ہوتا ہے کہ کچھ بھی اچھا نظر آئے اور تصویر بنا لی جائے، وہ پروفیشنل کیمرے کا محتاج بھی نہیں ہوتا، کیمرہ رزلٹ بہتر بنانے میں مدد تو دے سکتا ہے لیکن کیمرہ اپنے ساتھ آئیڈیے لے کر نہیں آتا، وہ اندر کی آنچ پر پکتے ہیں، قصہ مختصر اگر اپنی تصویروں اور آس پاس کی دنیا سے ایک قدم بھی باہر رکھ لیا جائے تو ہر موڑ پر سینکڑوں تصویریں ہاتھ باندھے کھڑی ملیں گی، وہاں صلاحیت کا اصل امتحان ہوتا ہے ۔

لمحہ موجود کی صورت حال یہ ہے کہ اگر مردم شماری والے فارم میں فوٹو گرافر کا ایک خانہ ہوتا تو کم از کم دس کروڑ بزعم خود فوٹوگرافرز پاک سرزمین سے اُگ آنے تھے ۔ فوٹو گرافی ایک عظیم فن ہے، لوگوں کے بال سفید ہو جاتے ہیں، کمریں اکڑ جاتی ہیں، آنکھوں میں حلقے پڑ جاتے ہیں، پاؤں پر چھالے تک بھی پڑتے ہیں تب کہیں جا کر ایک صحیح والا فوٹو گرافر بنتا ہے ۔ ہمارے یہاں علی فوٹو گرافی، جمال کیمرہ آرٹ، بشیر فوٹو ماسٹر کے نام سے ہر ایک بندہ کیمرہ تھامے لائن میں لگا نظر آتا ہے ۔ دیکھیے اس میں کوئی حرج نہیں، اچھی بات ہے، کری ایٹو کام ہے، رجحان اس طرف ہو گا تو بچے الٹے سیدھے کاموں سے بچیں گے لیکن صرف فنکشنز کی تصویریں بنانا پروفیشنل فوٹوگرافی تو ہو سکتی ہے کوئی اچھی یادگار تصویر وہاں سے نکلنا ممکنات میں شامل نہیں ہو سکتا۔

نثار مرزا، ایف ای چوہدری، ایم آر اویسی، جاوید قاضی، آفتاب احمد، اظہر جعفری، شاہد زیدی کا نام کتنوں نے سنا ہو گا؟ اچھا گلریز غوری یا ندیم خاور کو جانتے ہیں؟ عمیر غنی، سعید راؤ، آمنہ یاسین، ابرار چیمہ، کامران سلیم، عبدالوارث حمید میں سے کتنوں کی تصویریں دیکھی ہیں؟ بھائی یہ پاکستان میں فوٹو گرافی کی تاریخ ہیں، ان کی بنائی تصویریں اگر صرف دیکھ ہی لی جائین تو اندازہ ہوتا ہے کہ

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

تو ایسا کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص کیمرہ خریدے اور تمام تر اندرونی و بیرونی صلاحیتیں ٹیوب لائٹ کی طرح اس کی ذات میں روشن ہو جائیں؟ آبی یا روغنی تصویر بنانی ہے تو پینٹنگ سیکھنی پڑے گی، شاعری کرنی ہے تو اصلاح لیں گے، رقص سیکھنا ہے تو گرو کے پیر پڑیں گے، اداکاری کرنی ہے تو کم از کم فلمیں تو دیکھنی پڑیں گی، جب یہ سب کچھ بالکل روٹین ہے تو بھئی تصویر بنانا تو سب سے مشکل کام ہے، ہر فوٹوگرافر آبجیکٹ کے ساتھ بندھا ہوتا ہے، مطلب باہر کی دنیا سے تعلق رکھنے والی بہت سی چیزیں ڈائریکٹ ایک تصویر پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں، کس طرح ایک نوسکھیا ایسا پرفیکٹ ہو جائے گا کہ اپنے نام کے ساتھ باقاعدہ “فوٹو گرافی” لکھ کر اپنی کھینچی تصویروں پر ٹانک دے گا؟ استاد کی شاگردی نہ کیجیے کم از کم استادوں کی بنائی تصویریں دیکھ لیجیے ۔ انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی شوقیہ پاکستانی عکس کار ان لوگوں کی بنائی تصویریں نہیں دیکھتا تو یہ باقاعدہ محرومی ہو گی یا ذاتی سستی کہا جا سکتا ہے ۔

فوٹو گرافی وقت مانگتی ہے، بہت تھوڑا سا وقت دے کر بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے ۔ بڑے شہروں میں فوٹو گرافی کی نمائشیں ہوتی ہیں، اگر وقت ملے اور موڈ ہو تو وہاں کا چکر لگا کر جائزہ لیجیے ۔ کمپیوٹر سکرین پر تصویر اور اسی تصویر کا پرنٹ بنانے کے درمیان کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس بارے میں کھوج لگائیے ۔ بلیک اینڈ وائٹ تصویر بعض اوقات رنگین تصویروں سے زیادہ موثر ابلاغ کس طرح کرتی ہے، اس پر غور کیجیے ۔ کچھ بھی نہیں کرنا تو کھلے آسمان تلے جائیے، اڑتے پرندے، سامنے موجود بجلی کا کھمبا، کہیں کونے میں اُگا پھول، ٹینکی سے نکلا پیپل، پڑوسیوں کی بلی، گلی کا کتا، سامنے والوں کا چھوٹا سا بچہ، سوکھے ہوئے پتے، سب کچھ میں ہزاروں تصویریں چھپی ہیں۔ تصویر صرف اتنا تقاضا کرتی ہے کہ اسے سیلف لیس ہو کر کھینچا جائے یعنی اس میں اپنا آپ شامل نہ ہو باقی دنیا کا ہر رنگ ہو، آگے مولا کرم کرے گا، دل کی لے بدلے تو ہر ساز کا رنگ خود ہی مدھم ہوتا چلا جاتا ہے۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain