فریڈرک نیطشے کے اقوال زریں


[contact-form][contact-field label=”Name” type=”name” required=”true” /][contact-field label=”Email” type=”email” required=”true” /][contact-field label=”Website” type=”url” /][contact-field label=”Message” type=”textarea” /][/contact-form]

کیا ہی شخص تھا، نیطشے، اور کیا ہی تخلیق کا معیار تھا۔ ایسے لوگ عمومی مسلم تہذیبوں میں پیدا کیوں نہ ہو سکے؟ اور جو پیدا ہوئے، ان کے ساتھ سلوک کیا ہوا؟ ابن خلدون، ابن رشد، ابوالاعلیٰ علی، جابر بن حیان تو وہ نام ہیں جو جلدی سے ذہن میں آن لیے، وگرنہ اک لمبی فہرست ہے ان سوچنے والوں کی جن پر تھوکا گیا، جن کی کتب جلائی گئیں، جن کو زندیق (ویسے اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ ) کہا گیا، جن کو کافر قرار دیا گیا، جن کو دیس نکالا ملا، اور کئیوں کا مقدر موت بھی رہی۔ مسلم معاشروں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ، ان کے خیالات کا گلا گھونٹنے میں بھی کافی چستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ نتیجہ، کم از کم پاکستان کی ”پڑھی لکھی مڈل کلاس“ کی حد تک آپ کے سامنے ہے: دل میں مدینہ، زبان پر گالی، دماغ میں لندن!

خیر، نیطشے کے کفن کے بکسے سے زعفران کے چند دھاگے، چند اضافوں کے ساتھ، آپ سب کے لیے:

* نئی منازل کی تخلیق کے لیے اپنی موجودہ جگہ سے، منزل تک پُل بنانا پڑتے ہیں، اور یہ پُل خود کی مرضی سے ہی تخلیق ہو پاتا ہے، مگر کہ جس کی بنیاد ذہن اور خیال کی آزادی پر سے اٹھائی گئی ہو۔
* آزاد روحیں بہت مشکل میں رہتی ہیں اور کم ہی تخلیق ہو سکیں۔ مگر میں ہر اس مقام پر (گویا) ان کا منتظر ہی رہا کہ جہاں ان کے ملنے کی نوید اور امید تھی۔
* صرف اک آزاد شخص ہی ذہنی میچورٹی اور ذات کی تکمیل حاصل کر سکتا ہے۔ یہ تکمیل آپ کو بہت سی بندشوں اور ان کے خوف سے بھی آزاد کر دیتی ہے۔ لوگ، جو کہ غلامی کی بہت سی اقسام کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، ان کے لیے آزادی (کے مناظر و مظاہر) بہت اچانک ہونے والا واقعہ (ہوتے) ہیں۔ بالکل زلزلہ کی طرح۔ وہ اس سے ہل جاتے ہیں، حیران ہو جاتے ہیں، اس کو سمجھ نہیں پاتے۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ اپنی بندش کے مقام سے آگے بڑھ جائیں، یہ مشکل ہوتا ہے۔ مگر وہ جو یہ کام کر پاتے ہیں، ان کا سفر بہت دور دراز کی منزلوں تک لے جانے والا ہوتا ہے۔

* غلامی برداشت کرتے رہنے کی عادت کو چھوڑئیے اور ذہن کی آزادی کی طلب کیجیے۔ خیال کی آزادی آپ کو اپنی وجودیت کا جواز بھی دے گی۔
* اک آزاد شخص اپنے ہی تخلیق کردہ زندگی کے سورج کی نرم و گرم دھوپ میں زندہ رہتا ہے۔ سورج غلام کا بھی ہوتا ہے، مگر وہ اسے جھلساتا رہتا ہے۔
* اے میرے غلام دوست، تجھ سے تو جنگلی جانور اچھے ہیں۔

* آزاد لوگ خوفزدہ نہیں ہوتے۔ وہ دنیا میں دوسروں کی بہت خلوص سے تعریف کرتے ہیں تاکہ اچھی اور عمدہ باتوں کے سلسلے چلتے رہیں۔ وہ خود نمائی سے خود کو بچا کر رکھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ زندگی کی راہداریوں میں خاموشی، مگر اطمینان سے چلنے کی شوقین ہوتے ہیں۔ وہ گِر کر دوبارہ اٹھ جانے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی دنیاوی دانش چھوٹی چھوٹی خوراکوں میں وصول کرتے ہیں مگر بہت سخاوت سے اسے دوسروں میں بانٹتے ہیں۔

* زندگی بہت بڑی نہیں۔ یہ بہت سے چھوٹے چھوٹے واقعات کا اک بڑا مجموعہ ہوتی ہے، بس۔
* تمھاری غلامی والی ذہنیت ہی تمھاری آقا اور مالک ہے۔ یہ تمھارے اندر کی اچھائی کو چاٹ جاتی ہے۔ یہ تم پر اپنے اوزاروں سے مسلسل وار کرتی ہے۔ تمھیں چھوٹے سے چھوٹا بناتی چلی جاتی ہے۔ تمھیں تقلید پر مجبور کیے چلی جاتی ہے اور تم ہر بات پر ”ہاں ہاں“ کہے چلے جاتے ہو۔ اس ہاں ہاں میں تمھاری زندگی، ذات او رشخصیت کی ”ناں ناں“ ہو رہی ہوتی ہے۔ تم کٹ رہے ہوتے ہو۔ پھر اک دن ختم ہو جاتے ہو۔

* تمھارا اور تمھاری ذات کا مستقبل آنے والی نہیں، ابھی عین اس وقت حال کی گھڑی میں واقع ہورہی شے ہے۔ کیا تم جانتے ہو؟ تم کیسے جان سکتے ہو اگر تم آزاد نہیں ہو تو؟

آپ جو اگر آزاد نہیں، تو کوہلو میں چلتے بیل اور آپ میں سوائے ہئیت کے اور کیا فرق ہے، جناب؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).