اے ڈی خواجہ، لاوارث پولیس اہلکار، آصف زرداری اور ہوشو شیدی


 سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے تقرریوں اور تبادلوں کے اختیارات کو بھی بحال کر دیا ہے۔ اس خبر پر سندھ پولیس کے لاوارث اہلکار جو برسوں سے اپنی ترقی کا انتظار کر رہے ہیں کہ شاید اے ڈی خواجہ ان کا پروموشن میرٹ پر کر دے اور ان لاوارث پولیس اہکاروں کی سنی جائے۔ سندھ پولیس میں ایسے اہلکار بھی موجود ہیں جو تمام محکماتی امتحانات پاس کرنے کے باوجود برسوں سے اپنی ترقی کے لیے خوار ہو رہے ہیں اور ان کے سامنے بھرتی ہونے والے ایسے پولیس اہلکار بھی موجود ہیں جو کچھ سال پہلے سپاہی بھرتی ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی سفارش کی بنا پر سپاہی سے ڈی ایس پی بن گئے۔

سندھ میں اگر سیاست کرنی ہے تو پھر پولیس اور بیوروکریسی آپ کی جیب میں ہونی چاہیے ورنہ آپ سیاست نہیں کر سکتے۔ ابھی تک سندھ میں تھانہ اور کچہری کی سیاست کا بول بالا ہے۔ تمام پولیس اہلکاروں اور بابو شاھی کی تقرریاں اور تبادلے سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں اور ان بابوؤں کو اپنی تیز ترقی کے لیے تگڑی سیاسی سفارش چاہیے ہوتی ہے۔ وزیروں، مشیروں، ایم این ایز، ایم پی ایز کے گھر والوں میں سرکاری محکمے بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر ایک وڈیرے کا بھائی یا بیٹا تھانے کو دیکھتا ہے تو دوسرا تحصیل داری کو دیکھتا ہے تو کوئی میونسپل کارپوریشن کو دیکھتا ہے تو کوئی محکمہ تعلیم اور صحت کو دیکھتا ہے۔ نوکریاں تو بس پیسوں پر بکتی ہیں چاہے چپڑاسی کی نوکری ہی کیوں نہ ہو۔ اب تو خاکروب کی نوکری کے لیے بھی مسلمان بھرتی ہو رہے ہیں بس سرکاری نوکری ہو پھر ڈیوٹی پر جاؤ یا نہ جاؤ تنخواہ تو بس ملتی رہتی ہے۔ لوگوں کو سرکاری نوکری کی ایسی لت لگ گئی کہ خود رشوت دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں استاد 5 سے 8 لاکھ، سپاھی 5 لاکھ، اے ایس آئی 15سے 20 لاکھ، تحصیل دار 30 سے 40 لاکھ لوگ تو سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بھی تقرری کے لیے پیسے لیتے ہیں۔

کچھ مہینے پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ پبلک سروس کمشن کے حوالے سے لیے گئے از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے 2013 سے 2016 کے دوران لیے گئے تمام ٹیسٹ اور انٹرویوز غیر قانونی قرار دے دیے۔ واضح رہے سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین اور ارکان مستعٰفی ہو گئے تھے۔ اب جب کمیشن کی صورت حال ایسی ہو وہاں شفافیت اور معیار کا کیا حال ہوگا۔

سندھ کے محکموں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ “ویزا” لے لو، کچھ پیسوں کے عوض “ویزا” آسانی سے مل جاتا ہے۔ آپ کو پھر نوکری پر آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس ویزے کے لیے پیسے کلرک یا آفیسر کو ہر مہینے ملنے چاہییں۔ صوبہ سندھ کے کلرک کروڑ پتی اور افسران ارب پتی ہیں تو آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ وڈیرے جاگیردار، وزیر، ایم این ایز، ایم پی ایز کے پاس کتنا پیسا ہوگا جن کو سارے محکموں سے حصہ جاتا ہے۔

یہ لوگ تنخواہ تو سائیں سرکار سے لیتے ہیں مگر نوکری وڈیرے سائیں کے اوطاق اور اولاد کی کرتے ہیں۔ سندھ کی اس طرح کی صورت حال میں کیوں نہ لوگ اے ڈے خواجہ اور سندھ حکومت کی لڑائی پر خوش ہوں۔ لوگوں کو نہ اے ڈی خواجہ سے پیار ہے اور نہ آصف علی زرداری سے نفرت۔ کیا اے ڈی خواجہ کے آنے سے پولیس رشوت لینا چھوڑ دے گی؟ کیا پورے سندھ کے تھانیداروں کے تبادلے اے ڈی خواجہ کرتے ہیں؟ سندھ کے عوام کو پتہ ہے کہ تھانا کچہری اب بھی وڈیرے سائیں اور رئیس سائیں کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے اے ڈی خواجہ صاحب آئیں یا جائیں، سندھ کے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جب اے ڈی خواجہ سندھ میں تعینات رہے ہیں تو کیا سندھ میں لوٹ مار بند ہو گئی تھی۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح سندھ میں چور چوکیدار ہے۔ اب بھی دن دہاڑے غریب کی عزتیں لوٹی جاتیں ہیں، موٹر سائیکل ہو یا کار یا پھر موبائیل فون سب کچھ غیر محفوظ ہے۔ چور، لٹیروں، پولیس اہکاروں، بابوؤں، وڈیروں اور سرداروں کی یاریاں قائم و دائم ہیں۔ ان لوگوں کو غریب عوام کے ساتھ کیا تعلق؟ ان کو تو بس اپنی کمائی سے غرض ہے۔ باقی آصف علی زرداری اور ادی فریال کا موہن جو داڑو کے مانھوں (عوام) کے ساتھ کیا رشتہ جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کا تھا جو اب اس دیس میں نہیں رہتے۔ باقی ووٹ تو بھٹو کی امانت سمجھ کر لوگ پیپلز پارٹی کے نام پر ہی دیتے ہیں کیونکہ بھٹو صاحب اور ان کی بیٹی پنکی نے ان سے وعدہ لیا تھا۔

دیکھا جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ سندھ میں مزاحمتی سیاست میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لوگ بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے لٹیروں کی کامن ویلتھ سے اب تنگ آ چکے ہیں مگر موہن جو داڑو کی پر امن، پیار اور محبت کی روایت کی وجہ سے خاموش ہیں۔ ورنہ ہر دور میں وادی سندھ کی تہذیب پر لٹیروں کے حملے ہوتے رہے ہیں۔ سندھ دھرتی تو ہوشو شیدی جیسے سپوت پیدا کرتی رہی ہے جو انگریزوں کے خلاف بارود کے بغیر لڑتا رہا اور توپوں میں بارود نہ ہونے کے باعث اینٹیں اور پتھر استعال کرکے انگریز سامراج سر چارلس نیپیئر کو اپنی کتاب “دی کانکیوسٹ آف سندھ” میں اپنی شان میں قصیدے لکھنے پر مجبور کر دیا۔

(بدعنوانی کے الزامات کا دستاویزی ثبوت ہونا چاہیے۔۔۔ مدیر)

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).