وسعت اللہ خان ننھے غلام مصطفیٰ سے فٹ پاتھ اور اسکول کی باتیں کرتے ہیں


جہاں تک وسعت اللہ خان کا ضبط صحافتی اخلاقیات کی تاب لاسکتا تھا، وہاں تک گیا. یک لخت چپ ہوگیا. بات جاری رہتی تو ضبط اشکوں میں بہہ جاتا اور یہ پیشہ ورانہ کم ظرفی ہوتی. شاید وسعت یہ سوچ کر بھی رک گئے کہ

“یہ بچہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے برپا”

بچے نے جواب وہ دیے جو وسعت اللہ خان نے پوچھے بھی نہیں تھے۔ ہر جواب ایک کرب ہے. ایسا کرب جسے کوئی بالغ عمر بیان نہیں کرسکتا. کسی بچے کی توتلی زبان ہی اس کا احاطہ کرسکتی تھی.

اطمینان کی بات یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بڑے بڑے خواب بسے ہیں. فکر کی بات یہ ہے کہ یہ خواب کسی پلیا کے نیچے پڑے پڑے مرجاتے ہیں۔

ہمیں دل سے شکریہ ادا کرنا ہے ایسے اداروں کا اور اساتذہ کا جو ان بچوں کے ساتھ مل کر معصوم خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ رہے ہیں.

پھر ہمیں اعتراف کرنا ہے اپنی کوتاہیوں کا اور احساس کرنا ہے اپنی ذمہ داریوں کا. (لنک بشکریہ: فرنود عالم )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).