بیمار ملکہ کی جوان شہزادی


عصمت چغتائی لکھتی ہیں کہ عورت اگر بھیس بدل کرآ جائے تو خود اس کا شوہراس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ عصمت چغتائی کی بات ذرا پرانی ہو گئی ہے اب توچلن یہ ہے کہ بن بھیس کر کوئی آ جائے توشوہر کے سوا تمام دنیا اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیائے سیاست میں چن چن کر حسیناؤ ں کو لایا جا رہا ہے۔ پہلے حسینائیں فلموں اور ڈراموں میں آتی تھیں اب کارزار سیاست میں آتی ہیں کہ اول الذکر تو مہینوں اور ہفتوں بعدریلیز ہوتے تھے لیکن سیاست کی رنگینی تو ہر روز دوسرے لفظوں میں ہر پل دیکھنے کو ملتی ہے۔

ہمارے میاں صاحب جو سرکاری طور پر میاں کہلوانا پسند نہیں کرتے ویسے سرکار ان کی کون سی رہ گئی ہے کہ ہم انہیں نوازشریف کہیں خیر بڑی عدالت نے بڑے لیڈر کو عمر بھر کے لئے نا اہل کردیا ہے یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے فیصلےپر فوراً عمل کر لیا لیکن اس پر دل سے عمل نہیں کیا اب تو عدالت نے ان کے ”مجھے کیوں نکالا مجھے کیوں نکالا“ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ خیر بڑے لوگ بھلا کہاں لاجواب ہوتے ہیں اور وہ بھی جسے ملکہ برطانیہ نے سر کا خطاب دیا ہو۔ میاں صاحب اس پر برطانوی ملکہ کو تو کچھ نہ دے پائے البتہ اپنی مملکت اور من کی ملکہ کو این اے 120 کا ٹکٹ ضرور دے دیا ہے۔

ملکہ کلثوم نواز کوجب یہ خبر ملی کہ بادشاہ سلامت کی نظر التفات ان پر آن پڑی ہے تو وہ مزید کلثوم ہو گئی لیکن پھر نجانے کس دشمن کی نظر لگ گئی کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے دنوں میں ہی انہیں برطانیہ جانا پڑاجہاں ان کے حلق کے سرطان کی تشخیص ہوگئی بس پھر کیا تھا خاندان کا ہر فرد باری باری ٹکٹ کٹواتا گیا اور لندن جاتا گیا۔ نا اہل نوازشریف بھی تیمارداری کے بہانے عید منانے دیار غیر پہنچ گئے، اسپتال گئے ملکہ عالیہ کے ساتھ ساتھ ایک عدد جذباتی تصویر کھنچوائی اور پھر اگلے روز خبر آئی کہ پاکستان کا یہ شاہی جوڑا لندن فلیٹس میں منتقل ہو گیا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

لیں یہ تو کہانی کا ایک رخ ہے اب این اے 120 کی بھی سنیں جس پر بادشاہ سلامت تب بھی لڑتے تھے جب یہ حلقہ این اے 95 کہلاتا تھا اب چونکہ بادشاہ بادشاہ نہیں رہے اورتاحیات نا اہلی کے ساتھ ساتھ نیب ریفرنسز میں ملزم ہونے کا طوق بھی گردن میں ہےتوانہوں نے بوڑھی اور بیمار ملکہ کی انتخابی مہم چلانے کی ذمہ داری شہزادی مریم نواز کو سونپ دی ہے۔ اب مریم صاحبہ ہیں ان کی قیمتی گاڑی ہے گارڈز ہیں سرکاری پولیس اہلکار، وی وی آئی پی پروٹوکول ہے اورحلقے کی گلیاں، سڑکیں اور بازار ہیں۔ شہزادی صاحبہ نے انتخابی مہم کا آغاز کردیا ساتھ میں چچا حضور کے خرچے پر وہ کام بھی شروع کرا دیے جو ان کے دادا حضور تو نہیں کرتے تھے لیکن بابا حضور ضرور کرتے ہیں یعنی سڑکیں بنانا اورمزید سڑکیں بنانا۔ اس خاندان کا تو بس نہیں چلتا کہ سڑکیں، پل، موٹرویز اور میٹروز کی ایکسپورٹ شرورع کردے، خیر بس تو حلقے کے ووٹرز کا بھی نہیں چلتا کہ وہ اجنبی شہزادی کو اجنبی ماحول میں آنے سے روک لیتے کہ چار سال میں وہ کیا ان کے والد بزرگوار بھی یہاں تشریف نہیں لائے۔ انہیں تو شاید حلقے کا نمبر بھی یاد نہ ہو ایسے میں وہ یہاں کے ان گنت مسائل کا شمار کیا کریں گے اب یہ کام انہوں نے اپنی 43 سالہ اور وہ بھی مثل شہزادی بیٹی کوسونپ دیا کہ سیاسی دشمن کو زیر کرنے کے لئے ینگ بلڈ کا کردار ادا کرے کیونکہ ان کا اوران کی اہلیہ کا کشمیری خون اب بوڑھا ہو چکا ہے۔

شہزادی صاحبہ دختر مشرق کی طرح دخترپاکستان کی چادر اوڑھ کر پہلے حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر تشریف لے گئیں پھر بی بی پاک دامنؒ پر بھی گئیں، دعائیں مانگیں، مناجات کیں، منتیں بھی مانی ہوں گی کہ ملکہ ماں ضمنی انتخاب جیتی تو مزار پر دیگیں چڑھاؤ گیں، اتنے غریبوں مسکینوں کو لنگر کھلاؤں گی وغیرہ وغیرہ۔ عید سے ایک روز پہلے یکم ستمبر کو مال روڈ پر واقع لاہور کے سب سے بڑے سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل بھی گئیں۔ چرچ انتظامیہ سے تو وہ اپنی بیمار والدہ کے لئے دعا کرانےکا کہہ کر گئی تھیں لیکن انہوں نے چرچ کے اندر سیاسی تقریر کر ڈالی۔ چرچ انتظامیہ اس حرکت پر سخت خفا ہوئی انہوں نے عید الاضحی ٰ ختم ہونے کا انتظار کیا اور پھر مسیحائی برادری سے معافی مانگی کہ موصوفہ کو دعا کے بہانے سیاست نہیں چمکانی چاہیے تھی آپ کا اس پر دل دکھا ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں لیکن شہزادی صاحبہ کی زبان سے معافی کے کلمات ادا ہوئے نہ چہرے پر کوئی ملال آیا۔

ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف بجائے کہ عوام سے کارکردگی کی بنا پر ووٹ مانگتیں مریم صاحبہ نے مظلومیت کا کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا کہ ماں بیمار ہے کیا آپ اپنی بہن کو مایوس کروگے سترہ ستمبر کو شیر پر مہر لگاؤ گے۔ یہ بعینہ ایسا ہی ہے کہ گلے میں بیلٹ بکس کا کشکول ڈالا ہو اور گلی گلی میں یہ صدا بلند کی جا رہی ہو کہ ماں بیمار ہے باپ پریشان ہے ایک ووٹ کا سوال ہے بابا۔ ایسے میں ناراض چودھری نثار کا یہ فرمانا کہ “مریم بی بی کو عملی سیاست میں حصہ لے کر اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں انہیں لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے“۔ یہ تو چودھری صاحب اپنی ناراضی کا غصہ نکال رہے ہیں ورنہ تو مریم 11مئی 2013 کے الیکشن سے پہلے ہی سیاست میں آ گئی تھیں اور لاہور میں ہی انتخابی مہم چلاتی رہیں یہ الگ بات ہے کہ اب یہ مہم ایک حلقے تک محدود ہو گئی ہےاب ان پر پورے لاہور میں پھولوں کے ساتھ سرخ نوٹ نچھاور نہیں ہوتے بلکہ ان کی آمد پر چند حلقوں میں ایسا شاہی نظارہ دیکھنےکوملتا ہے۔

گاما پہلوان کلثوم نواز کےحقیقی نانا ہیں اس لحاظ سے وہ مریم نواز کے پڑنانا لگے۔ وہ رستم زماں تھے اس لئے میاں صاحب نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ہونہار بیٹی کو سیاست کے اکھاڑے کی رستم زماں بنائیں کیونکہ ان کے دونوں صاحبزادے برگر کھا کھا کر سرتا پا پوپلے پہلوان بن چکے ہیں۔ شہزادی صاحبہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ خوب صورت ہے اور خوب صورت بولتی ہے اورسیاست میں یہ دو ایسے داؤ پیچ ہیں جو سچائی اوردیانت داری کے پہلوانوں کوعموماً پٹخ دیتے ہیں اب دیکھتے ہیں کہ سترہ ستمبر کے انتخابی دنگل میں کرائے کا پہلوان کامیا ب ہوتا ہے یا ڈاکٹر یاسمین راشد کی صورت میں حقیقی پہلوان گرز اٹھاتا ہے۔

شہزاد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شہزاد اقبال

شہزاد اقبا ل دشتِ صحافت کے پرانے مسافر ہیں۔ وہ صحافت اور سیاست کی گھڑیاں اٹھائے دو دہائیوں سے حالت سفر میں ہیں۔ ان دنوں 92 نیوز چینل میں ان کا پڑاؤ ہے۔

shahzad-iqbal has 38 posts and counting.See all posts by shahzad-iqbal