مشیر کی ضرورت ہے


ہماری کمپنی کو پاکستان میں اسلام کی ترویج و اشاعت پر اجارہ داری کے لئے مُشیر (Consultant) کی ضرورت ہے۔ ہمارا برانڈ اسلام کا مشہور برانڈ ہے جو مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد کے نام سے متعارف ہوا۔ 1977ء میں اسلامی انقلاب آنے کے بعد ہمارے برانڈ کو بے پناہ شہرت ملی مگر وقت گذر نے کے ساتھ مخالفین نے ہمارے برانڈ کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا ہے۔ مخالفین نے یہ افواہ پھیلائی ہے کہ علمائے دین پاکستان کے مخالف تھے۔ کانگریس کے ساتھ مل کر ” اکھنڈ بھارت “ اور ” ہندو مسلم بھائی بھائی“ کا نعرہ لگاتے تھے۔

ہمارے مخالفین نے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا عطا اللہ شاہ بخاری، مولانا فضل حق خیر آبادی اور دیگر نامور اسلاف کا نام لے کر یہ افواہ بھی پھیلائی ہے کہ علمائے دین نے پاکستان اور بانی پاکستان کو کبھی تسلیم نہیں کیا یہاں تک کہ ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہٰ الااللہ“ کا نعرہ بھی انہوں نے قیام پاکستان کے ڈیڑھ سال بعد متعارف کرایا۔ تحریک پاکستان کے برسوں بعد بھی یہ نعرہ کسی نے نہیں سنا تھا۔ مخالفین کے اس زہر آلود پروپیگینڈے کی وجہ سے پنجاب، سندھ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ہمیں کوئی ووٹ نہیں دیتا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے جن شہروں میں علم و آگہی ہے، تعلیم کی روشنی ہے، وہاں بھی ہماری دال نہیں گلتی۔ تاہم اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جہالت میں ڈوبے ہوئے چند اضلاع ایسے ہیں جہاں ہم نے اپنا سکہ بٹھایا ہوا ہے۔ ہمارے برانڈ کے اسلام کی پنجاب اور سندھ سمیت پورے ملک میں مارکیٹنگ کے لئے مُشیر کی خدمات درکار ہیں۔

مشیر کی قابلیت اور اس کے تجربے کے بارے میں مند رجہ ذیل نکات پیش نظر رہنے چاہیں۔ پہلی قابلیت یہ ہے کہ وہ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کہنے کا فن جانتا ہو۔ دوسری قابلیت یہ ہے کہ وہ کبھی اور کسی بھی حال میں تاریخ کا طالب علم نہ رہا ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ وہ تحریک پاکستان سے مکمل بے خبر ہو۔ اُس کو برصغیر کی تحریک آزادی اور دو قومی نظریے کا علم نہ ہو، چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ سرسید احمد خان، علامہ اقبال، محمد علی جناح اور اُن کے ساتھ تحریک پاکستان میں شامل دیگر لیڈروں پر علمائے دین کے لگائے ہوئے فتووں کو دل سے تسلیم کرتا ہو۔ پانجویں قابلیت یہ ہے کہ وہ ٹانکا لگانے کا ماہر ہو جیسا کہ سیٹھ صاحب کے پاس ایک شخص آیا۔ اُس نے کہا میں ٹانکا لگاتا ہوں۔ نوکری کی تلاش ہے۔ سیٹھ صاحب نے کہا تجربہ کتنا ہے وہ شخص بولا، بھوپال، لکھنو، لو ہا رو، حیدر آباد اور دکن کے نوابوں کے ہاں ملازمت کی ہے۔ سیٹھ نے اُس کو ملازم رکھ لیا۔ انگریز افیسر کو دعوت پر بلایا، کھانے کی میز پر ٹانکا لگانے والا خدمت گاروں کی وردی میں خدمت پر مامور تھا۔ سیٹھ صاحب نے شیخی بگھارتے ہوئے انگریز مہمان کو بتایا کہ یہ گوشت ہرن کا ہے، یہ چکور کا گوشت ہے اور یہ مرغابی کا گوشت ہے۔ میں نے ایک ہی شاٹ سے تینوں کا شکار کیا ہے ”انگریز حیران ہو کر بولا۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ٹانکا لگانے والے نے کہا، سرجی! ہرن لیٹا ہوا تھا چکور ساتھ ہی دانہ چک رہا تھا۔ مرغابی اڑتی ہوئی آئی۔ سیٹھ صاحب نے نشانہ باندھا تو گولی تینوں کو جا لگی۔ انگریز نے کہا ”O! I See” ۔ ہمارے مشیر کو ٹانکا لگانے کا ایسا ہی ماہر ہونا چاہیے۔

کام کی تفصیلات میں جانے کی چنداں ضررت نہیں۔ بس میڈیا میں یہ ثابت کرنا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد اور ہندوستان کے 40,000 علما ئے کرام کانگریس کے حامی نہیں تھے۔ اکھنڈ بھارت کے حامی نہیں تھے بلکہ محمد علی جناح کے دست راست اور مسلم لیگ کے ہمنوا تھے۔ جو لوگ اپنی خدمات پیش کرنا چاہیں وہ اپنی پیش کشوں کی تفصیل مطلوبہ معاوضہ کی مکمل معلومات کے ساتھ ذیل پتے پر روانہ کریں۔ 2018ء کے الیکشن سے تین ماہ پہلے تک پیش کشوں پر غور کیا جائے گا۔ پتہ یہ ہے ٹھیکہ دارانِ اسلام، کُرسی ہاﺅس، قرارداد مقاصد روڈ، اسلام اباد، پاکستان ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).