شادی کی خواہش عورت کے لیے بے شرمی اور مرد کی ضرورت کیوں؟


شادی کی خواہش اور ضرورت جتنی مرد کو ہو سکتی ہے عورت کو کیوں نہیں؟ ہمارے معاشرے کے کچھ گھرانوں میں ایک ورکنگ لیڈی کی شادی کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیا جا تا ہے۔ اس کے لیے آئے رشتوں میں کیڑے نکالے جاتے ہیں۔ کبھی لڑکے کی تعلیم اور کبھی اس کی نوکری اور کبھی ذاتی گھر نہ ہونا اور کبھی آمدنی کم ہو نے کا بہانہ بنایا جا تا ہے۔ کبھی یہ کہہ کر رشتہ مسترد کر دیا جا تا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی نوکری کا لالچ ہے۔ یہ سب فیصلے لڑکی کے وارث اکیلے ہی کرتے ہیں اور لڑکی سے پوچھنے اور اس سے رائے لینے کی ذحمت نہیں کی جاتی۔

اس لڑکی کی ساری خود مختاری اور آزادانہ فیصلے گھر میں قدم رکھتے ہی قید ہو جا تے ہیں۔ دوسری طرف اس کی چھوٹی بہنوں کی شادی میں ایسی احتیاط کا مظاہرہ نہیں کیا جا تا۔ اس کے بھا ئی آزادانہ اپنی شادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ حنا میری کولیگ تھی۔ میں اکثر اس سے کہتی کہ اب اسے شادی کر لینی چاہیے تو ایک دن وہ پھٹ پڑی۔ اس نے بتایا کہ وہ خود شادی کرنا چا ہتی ہے لیکن اس کی شادی میں گھر والے دلچسپی نہیں لیتے۔ اس نے ایک بار کھل کر اپنے گھر والوں سے کہہ دیا کہ اس بار اس کے لیے جو رشتہ آیا ہے وہ اسے مناسب سمجھتی ہے تو کہا گیا کہ وہ اس کے بڑے ہیں۔ آفس اور شادی کے معاملات چلانے میں زمین آسمان کا فرق ہو تا ہے۔ اس لیے وہ چپ رہے۔

ایک سال بعد اس نے اپنی فطری حیا کو بالائے طاق رکھ کر اپنی ماں کو اعتماد میں لیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ گھر بسانا چا ہتی ہے تو کہا گیا کہ وہ بے شرم ہے۔ اپنی شادی کی بات خود اپنے منہ سے کرتے ہوئے کیا اسے شرم نہیں آتی؟ ایک بار اس نے اپنی سہیلی کے ذریعے اپنے والدین کو سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے اس کے آگے اپنے معاشی حالات کا اس بری طرح رونا رویا کہ سہیلی خود اسے سمجھانے لگی کہ کچھ دن صبر کر لو۔ جا نتی ہو نا تمہارے بعد اس گھر کے خرچے کیسے پو رے ہوں گے۔ تمہا رے ابا بیما ر ہیں۔ چھوٹا بھا ئی یونی ورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔ کیسے گزارا ہو گا تمہارے بعد۔۔۔۔؟

ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ آفس کا ایک کلرک اس سے شادی کرنا چا ہتا ہے۔ میں حیران رہ گئی۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ تمہارا ماتحت ہے، پہلے سے شادی شدہ ہے، اور پھر تمہارے فرقے سے تعلق بھی نہیں رکھتا۔ تمہارے گھر میں تو کو ئی اس رشتے کو قبول نہیں کرے گا۔ کہنے لگی۔ گھر والوں کی طرف سے مجھے اپنی شادی کی کوئی امید نہیں۔ میں صرف تمہیں بتا رہی ہوں اور گھر والوں کو شادی کے بعد بتا دوں گی ۔

میں نے اس سے کہا کہ وہ گھر والوں سے کم از کم با ت تو کرے۔ اس پر اس نے جو کہا، میں سن کر لاجواب ہو گئی۔

ان سے بات کر کے میں ایک بار پھر اپنی شرم و حیا اور عزت کو زیرِ عتاب نہیں لا نا چا ہتی۔اس رشتے میں تو یوں بھی سو نقص ہیں۔ اس لیے ان سے اجازت ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اگر میں نے شادی نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ میرے قدم نہ ڈگمگا جائیں۔ میں اس راستے پر نہیں چلنا چاہتی جہاں میں خود سے بھی نظریں نہ ملا سکوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرے گھر والوں کو سوچ کر اطمینان ہو گا کہ ان کی بیٹی شادی کے بعد بھی رخصت نہیں ہو گی۔ تب وہ میری اس نافرمانی کو معاف کر دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).