پوتر، تیکوں مسلمان کریساں!


ہم لوگ ملتان میں رہتے تھے لیکن مجھے سرائیکی نہیں آتی تھی۔ سکول میں جتنے دوست تھے، سب اردو بولتے تھے۔ گھر سے باہر جو بھی کام ہوتا اردو میں ہی بہترین معاملہ پٹ جاتا، کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ سرائیکی جب سمجھ آتی ہے تو بولی کیوں نہیں جاتی۔ آٹھویں میں داخلہ ہوا تو سکول بدلنا پڑا۔

اب جو سکول تھا وہ گھر سے تھوڑا دور تھا۔ سائیکل پر جائیے تو بیس پچیس منٹ، ویگن یا بائیک پہ دس پندرہ منٹ لگتے تھے۔ پہلے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا ہوا نہیں تھا۔ پانچویں تک عرفان یا تیمور آ کے گھر سے لے جاتے تھے، یہ کلاس فیلوز تھے۔ کبھی یہ نہ آتے تو حسین بھائی کے ساتھ امی بھیج دیتی تھیں۔

چھٹی سے آٹھویں تک ابا نے ایک رکشے والے سے بات کر لی، چاچا جی صبح آتے اور دوپہر کو کبھی ابا لے لیتے کبھی دونوں بھائی خود واپس آ جاتے۔ یہ نیا والا سکول پچھلے دونوں کی نسبت کافی دور تھا۔ کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ ساتھ والے گھر میں جو لڑکا ہے، یہ بھی ادھر ہی پڑھتا ہے اور اپنی ہی کلاس میں ہے۔

نجف ایک شرمیلا سا بچہ ہوتا تھا۔ امی اس کی حفاظت ایسے کرتیں جیسے پوری دنیا اسے اغوا کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وہ بلا ضرورت باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سکول جانے کے بعد آئیڈیا ہوا کہ اچھا یہ تو وہی ہے، جو گھر کے ساتھ رہتا ہے لیکن کبھی کبھار ہی نظر آتا ہے۔ میں اچھا خاصا شریف لڑکا تھا لیکن نجف کی نسبت ایک دم ٹچا اور آوارہ، یعنی وہ گھر سے باہر کم نکلتا تھا اور یہاں گھر جانے کی فرصت کم ہوتی تھی۔

سکول سے آنے کے بعد ساتھ والی گلی میں ویڈیو گیم کی دکان یا پھر چار گھر چھوڑ کے ایک اور دوست کے یہاں حاضری ہوتی تھی۔ شام کو پھر ٹیوشن کا وقت ہو جاتا تھا، سات آٹھ بجے واپسی ہوتی۔ تو امی نے طے یہ کیا کہ نجف اور حسنین اکٹھے سکول جایا کریں گے، اسی آنے جانے میں دوستی ہو گئی۔

نجف کی امی کو شاید دو تین ماہ آنٹی کہا ہو، بعد میں تاحیات وہ امی ہی رہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ سکول سے واپس آنے کے بعد سارا دن اور رات کو سونے سے گھنٹہ پہلے تک ہم دونوں اکٹھے رہتے۔ گھر ساتھ تھے تو ماں باپ کو ٹینشن نہیں ہوتی تھی۔ یا ادھر ہوں گے یا دونوں اٌدھر ہوں گے۔ پھر ایسے ہو گیا کہ اٌدھر زیادہ ہونے لگ گئے دونوں، کیونکہ امی کو فکر رہتی تھی نجف کی، وہ لاڈلا بھی بہت تھا، تو وہ چاہتی تھیں کہ اسے آنکھوں کے سامنے رکھیں، اس چکر میں فقیر سکول سے آنے کے بعد سارا دن وہیں رہتا تھا۔ ایک دو گھنٹے گھر میں گزارے، دو چار گھنٹے ادھر نکالے، سارا وقت کاٹ لیا۔

امی اردو بولتے ہوئے تکلیف میں رہتی تھیں۔ کوشش کرنا شروع کی اور آہستہ آہستہ ان کے ساتھ سرائیکی میں بولنا شروع کر دیا۔ امی اب کمفرٹ زون میں آ چکی تھیں۔ نجف کی طرح کبھی کبھار ڈانٹ بھی پڑ جاتی لیکن اس کے دوستوں میں حسنین اعلی مرتبے پر فائز ہو چکا تھا۔ امی صرف حسنین پر ہی اعتبار کرتیں اور ہر آڑے وقت میں نجف حسنین سے کہلوا کر ہی امی سے اجازت لیتا تھا۔ رات کو بھی اگر باہر دیر تک رہنا ہوتا تھا تو امی کو گارنٹی چاہئیے ہوتی تھی کہ حسنین ساتھ ہو گا، حسنین تو ویسے ہی گیم پلان کا چیف ہوتا تھا، تو اس طرح دونوں کا وقت اچھا نکل جاتا۔ اب یہاں دو مسئلے تھے۔ ایک تو امی کو سکن ٹائٹ پتلونیں نہیں پسند تھیں اور دوسرے حسنین شیعہ تھا۔

سکن ٹائیٹ کا تو جیسے تیسے فیشن ختم ہوا، سٹریٹ جینز آ گئی بات ختم، شیعہ ہونے کا حل کیا ہو۔ امی جب موڈ میں ہوتیں تو وہ کہتیں، “حسنین پوتر، تیکوں میں مسلمان کر کے چھڑیساں” (حسنین بیٹا، تجھے میں مسلمان کر کے چھوڑوں گی)، پھر بات ہنسی مذاق میں ٹل جاتی۔ نجف والے اہل دیوبند تھے لیکن پورے گھر میں سب کے نام ایسے تھے جیسے ہارڈ لائنر شیعہ ہوں۔ ابا حیدر زمان، چاچا شیر زمان، خود یہ نجف خان، امی اور آپی کے ناموں سے بھی ایسا ہی لگتا تھا۔

جیسے تیسے دن گزر رہے تھے۔ امی نماز پر بہت زور دیتی تھیں۔ جب تک نجف قابو میں تھا تو فجر کے وقت بھی سردی گرمی اسے اٹھاتی تھیں۔ خود انہیں بند کمروں میں گھٹن ہوتی تھی اس لیے گرمیوں میں رات کو صحن اور سردیوں میں برآمدہ انہیں پسند ہوتا تھا۔ پہلی اذان پر جاگ جاتیں اور ساتھ ہی نجف خان کو بھی اندر جا کے جگا دیا کرتیں۔ باقی چار نمازیں اسے زبردستی مسجد بھیج کر پڑھواتیں۔ جب ہر وقت کا ساتھ ہو گیا تو شرما شرمی مجھے بھی اس کے ساتھ جانا پڑتا۔ ادھر گھر میں سب خوش تھے کہ لو بھئی حسنین محلے کی مسجد میں جا کر نماز پڑھتا ہے اور وہاں امی کو بھی تسلی تھی کہ خدا نے چاہا تو “مسلمان” ہو جائے گا۔

ہمارے یہاں ایک شق یہ ہے کہ سجدہ اس چیز پر ہو سکتا ہے جو پاک ہو اور قدرتی حالت میں ہو جیسے مٹی کی سجدہ گاہ، لکڑی کا ٹکڑا یا پھر کسی درخت کا پتّہ۔ تو ادھر محلے کی مسجد میں چٹائیاں ہی ہوتی تھیں، شروع کی صف چھوڑ کے باقی سب وہی کھجور کے پتوں والی صفیں بچھی ہوتیں۔ کہیں بھی کھڑے ہو کر نماز ہو جاتی۔ باقی سب نے ہاتھ باندھے ہوتے، اپنے ہاتھ کھلے ہوتے، وہ لوگ دائیں بائیں گردن گھماتے، اپنے ہاتھ تین مرتبہ اللہ و اکبر کر دیتے۔ کسی کو پریشانی نہیں تھی، مولانا صاحب نے بھی کبھی نہیں کہا کہ بیٹا ہاتھ باندھ لو، محلے دار بھی آرام سے ساتھ کھڑے رہتے، ہاں کبھی کوئی نیا بندہ آتا تو وہ حیرت سے دیکھتا تھا کہ یہ کیا سین چل رہا ہے۔

تو نماز قائم ہو چکی تھی، نجف جب بھی ساتھ ہوتا، باجماعت ہوتی ورنہ جب یاد آتا گھر میں پڑھ لی جاتی۔ ایک بار نجف کے یہاں ہی نماز کا وقت ہو گیا، امی نے کہا کہ جماعت کا وقت نکل گیا ہو گا یہیں پڑھ لو۔ نجف فوراً کھڑا ہو گیا، فقیر نے بھی ایک پتہ توڑا اور جانماز بچھا لی۔ نجف کہتا ہے اس دن امی بہت مایوس ہوئی تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ نجف کے ساتھ محلے کی مسجد جاتے جاتے حسنین خود ہی رائٹ ٹریک پہ آ جائے گا۔

اب محرم آیا تو دسویں کو ہلکی سی زنجیر زنی کی اور گھر آ کے باقی معمولات میں مشغول ہو گیا۔ اتفاق سے جس وقت نجف ملنے آیا اس وقت میں قمیص اتارے بیٹھک کے صوفے پر اوندھا لیٹا تھا۔ یہ چیز اس کے لیے شدید کلچرل شاک بلکہ غصے کا باعث تھی۔ ابے تجھے درد نہیں ہوا کیا؟ کہا نہیں یار نہیں ہوتا، بلکہ فقیر بزرگانہ انداز میں اسے ماتم کی افادیت پہ لیکچر دینے لگا۔ کہنے لگا، اچھا نہیں ہوتا؟ یہ کہہ کر اٹھا اور کمر پہ جہاں جہاں زخم تھے وہاں دو تین جگہ زور سے نوچ لیا اور کہنے لگا چل اب تجھے زیادہ ثواب ہو گا، بڑا ٹائیٹ درد ہوا! لیکن یہ اس کی محبت اور غصے کا بوائلنگ پوائنٹ تھا۔

اگلے محرم تک نجف کی انکوائیریاں بہت بڑھ گئیں۔ یار ماتم کیوں کرتے ہو، وہ فلاں بات سنی ہے شیعوں کے بارے میں، وہ کیا ایسا ہی ہے؟ تم لوگ مجلسوں میں کیسے رو لیتے ہو؟ جینوئینلی تو بندہ ایسے نہیں رو سکتا، زنجیروں کا ماتم کرتے ہوئے  واقعی درد نہیں ہوتا، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ شام غریباں کی مجلس میں کیا ہوتا ہے؟ تمہارے مولویوں کی داڑھی اکثر ہلکی کیوں ہوتی ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

شروع میں تو لاجک سے بحث ہوتی تھی کہ جتنی دلیل اور تاویلیں اس ضمن میں دستیاب تھیں وہ کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں، بلکہ روز بروز ان میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ ایک دن نجف سے کہا کہ یار بات سن، تو چلتا کیوں نہیں ہے؟ پہلے تو وہ مانتا ہی نہیں تھا، پھر اسے طعنے دئیے کہ دیکھ میں کب سے تیرے ساتھ نماز پڑھنے جاتا ہوں، تو کیا ایک دن بھی نہیں جائے گا؟ وہ مان گیا، ہم لوگ شاہ گردیز کے امام باڑے پہنچ گئے۔ وہ بہت دیر ادھر ادھر گھومتا رہا، مجلس شروع ہوئی تو ہم لوگ بیٹھ گئے۔ وہ آدھی مجلس چھوڑ کر بھاگ آیا کہ امی اب تک تلاش شروع کروا چکی ہوں گی۔

اس کے بعد نجف کے سوال کم ہو گئے، وہ ذہنی طور پہ شاید یہ حقیقت سمجھ چکا تھا کہ یار جہاں اتنے بہت سے ہیں تو ان میں سے ایک یہ بھی ہے، چلتا ہے، کوئی نہیں۔ کبھی کبھار وہ مجلس سننے ساتھ بھی جانے لگا، لیکن ہر مجلس کے بعد جب اس کے سوالوں کی چک چک شروع ہوتی تو اپنا بھی ایک لیول پر آ کے تھریش ہولڈ ختم ہو جاتا۔

 پھر یہ معاہدہ ہو گیا کہ ہم لوگ مذہبی بحث کے چکر میں کبھی نہیں پڑیں گے۔ وہ دن ساری زندگی کا سب سے اہم دن تھا۔ اس دن کے بعد ایک بار تو نجف چھ سے دس محرم تک میرے ساتھ پشاور بھی گیا، قصہ خوانی کی مجلسیں، جلوس، امام باڑے دیکھے، سبیلیں دیکھیں، عَلَم دیکھے، مطلب فل ٹائم محرم منایا لیکن چپ شاہ کے روزے کے ساتھ۔ ہم لوگ دنیا جہان کی باتیں کرتے تھے کبھی کبھار کوئی ضمنی چیز عقیدے کی بھی آ جاتی لیکن دماغ ٹھنڈے رہتے تھے۔ ہم لوگ اپنی دوستی اپنے عقیدوں کے ساتھ قبول کرنا سیکھ چکے تھے۔

وہ دن اہم دن یوں تھا کہ تب کے بعد آہستہ آہستہ یہ رئیلائز ہوتا گیا کہ ساری دنیا نہ وہاں پیدا ہوئی ہے جہاں حسنین جمال پیدا ہوا تھا اور نہ وہاں پیدا ہوئی ہے جہاں نجف خان ہوا تھا۔ اگر وہ دونوں اپنے اماں باوا کے عقیدوں پر جی سکتے ہیں تو سائمن، نند لال اور ہریندر سنگھ کو بھی حق حاصل ہے کہ جو چاہے بہتر سمجھیں اور اس میں اپنی عمریں گزار دیں۔

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain