وی آئی پی لاؤنج میں استاد ایک اجنبی!


ماسٹر ندیم کا قد چھ فٹ سے بھی کچھ نکلتا ہوا تھا۔ راولپنڈی کے ایک سرکاری سکول میں ریاضی کے استاد تھے۔ اس سے پہلے بھی دو حج اور دو عمرے کر چکے تھے اور اسی نسبت سے اس گروپ کے امیر مقرر ہوئے تھے۔ ان کے اس گروپ میں اسلام آباد میں اعلٰی عہدے پر فائز ایک سرکاری افسر صاحب بھی شامل تھے جو اپنی والدہ کے ساتھ حج کرنے آئے ہوئے تھے۔ ماسٹر صاحب کی زوجہ محترمہ بھی اس گروپ میں شامل تھیں جو ہر روایتی مشرقی بیوی کی طرح اپنے مجازی خدا کو اپنا ہیرو سمجھتی تھیں، اور سمجھتی بھی کیوں نہ، ابھی کسی فرمائش کا آدھا جملہ ہی ان کے منہ سے نکلتا تھا تو ماسٹر صاحب اسے جھٹ پورا کر دیتے تھے۔ ان کے پاس اپنی بیوی کے ہر مسئلے کا حل تھا۔ باہم مزاج شناسی کا عالم ایسا کہ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے گفتگو کر لیتے تھے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ اسی لئے وہ اکثر ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے پائے جاتے تھے خاص طور پر جب ماسٹر صاحب اپنے تئیں کوئی ’معرکہ‘ سر کر لیتے تھے یا کوئی مسئلہ حل۔ ایسے مواقع پر ماسٹر صاحب کی آنکھوں میں فخرو انبساط اور ان کی زوجہ کی آنکھوں میں ان کے لئے ستائش ہوتی اور وہ اپنی قسمت پر نازاں نظر آتی تھیں۔

کہنے کو تو ماسٹر صاحب گروپ کے امیر تھے پر وہ اپنی رائے کسی پر مسلط نہیں کرتے تھے۔ سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے، ان کے ساتھ ایک سا سلوک روا رکھتے تھے اور انہیں ایک سی ذمہ داریاں سونپا کرتے تھے۔ گروپ کے اراکین ماسٹر صاحب کی امارت کے پیش نظر، ان کی مکمل اطاعت کرتے تھے۔ اور تو اور وہ افسر صاحب بھی ان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھتے تھے۔ اپنی باری پر سامان اٹھاتے تھے، سب کے لئے پانی اور کھانا بھی لایا کرتے تھے، برتن بھی سمیٹتے تھے، اور مختلف مواقع پر لائن میں کھڑے بھی نظر آتے تھے۔ گویا ایک مکمل مساوات تھی جو خدا کے گھر آئے مہمانوں پر ماسٹر صاحب نے نافذ کر رکھی تھی۔ احرام کا ایک سا لباس پہنے، ایک سے کلمات ادا کرتے، ایک ہی کعبے کے گرد طواف کرتے، ایک سی مشقتیں جھیلتے، ایک ہی خدا کی بندگی کرتے کوئی ان میں فرق کرتا بھی تو کیونکر۔ منٰی کا خیمہ ہو یا عرفات کا میدان، مزدلفہ کی رات ہو یا مسجد نبوی کا دالان، وہ سب ایک سا مقام رکھتے تھے اور ایک سا نظر آتے تھے۔ ہاں اگر کسی حوالہ سےکسی کو فوقیت حاصل تھی تو ماسٹر صاحب کو کہ وہ حج جیسی عظیم عبادت میں ایک سطح پر امارت کے رتبے پر فائز تھے۔ انہوں نے اپنی امارت کا حق بھی پوری طرح ادا کیا اور تمام ذمہ داریاں بھرپور انداز میں نبٹائیں۔

 حج خدا کے فضل و کرم سے اپنے اختتام کو پہنچا تو وطن کو واپسی شروع ہوئی۔ اتفاق سے ماسٹر ندیم اور افسر صاحب ایک ہی فلائٹ سے لوٹے۔ طیارے سے اترے تو ایک بس سب مسافروں کو ایئر پورٹ کی مرکزی عمارت میں لے جانے کو تیار کھڑی تھی۔ ماسٹر صاحب ابھی اس کی طرف بڑھ ہی رہے تھے کہ انہیں افسرصاحب کی آواز آئی جو انہیں دوسری طرف بلا رہے تھے۔ وہاں ایک فلائنگ کوچ موجود تھی جس میں ایک پروٹوکول والا خاص مہمانوں کو بڑے احترام سے بٹھا رہا تھا۔ مذہبی امور کے وزیر اپنی فیملی سمیت اگلی نشستوں پر براجمان ہو چکے تھے۔ ایک جنرل صاحب اپنی بیوی کے ہمراہ بیٹھ رہے تھے۔ پروٹوکول والے نےافسر صاحب کو بھی خوش آمدید کہا البتہ ماسٹر صاحب کو سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا کہ ایسا کوئی نام اس کی لسٹ میں شامل نہیں تھا۔ اسے شش وپنج میں دیکھ کر افسر صاحب نے اسے بتایا یہ میرے ساتھ ہیں۔ ماسٹر صاحب اپنی زوجہ کے ہمراہ کوچ کے عقبی حصے میں بیٹھ گئے۔ کوچ سیدھی وی آئی پی لاؤنج میں پہنچی۔ ماسٹر صاحب کو اور ان کی زوجہ کو پھر گیٹ پر روک لیا گیا کہ آپ کون اور کہاں۔ ماسٹر صاحب نے خاصی خجالت محسوس کی، خاص طور پر اپنی زوجہ کی موجودگی کے سبب۔ اتنے میں افسر صاحب ان کی کمی محسوس کر کے واپس لوٹ آئے اور ان میاں بیوی کواپنے ساتھ اندر لے گئے۔

وی آئی پی لاؤنج میں ایک اور ہی دنیا آباد تھی۔ آپ، جناب، سر اور صاحب سے کم تو کوئی کسی کو مخاطب ہی نہیں کر رہا تھا۔ جج، جرنیل، وزیر، مشیر، سیاستدان، سرکاری افسران، غرض ہر طرح کے وی آئی پی وہاں موجود تھے اور عزت پا رہے تھے۔ مہمانوں کو صوفوں پر بٹھا کر چائے کافی سے تواضع کی جا رہی تھی۔ ماسٹر صاحب کو ایسا لگنے لگا کہ گویا وہ کسی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہوں۔ لوگ انہیں یکسر نظر انداز کر دیتے تھے۔ وہ تو بھلا ہوافسر صاحب کا جو ہر موقع پر کہہ دیتے تھے کہ یہ میرے ساتھ ہیں ورنہ ماسٹر صاحب کو تو کسی نے چائے بھی نہ پوچھنی تھی۔ حج کا امیر اپنے وطن پہنچتے ہی غریب ہو چکا تھا۔

ہر محکمے کے اپنے پروٹوکول والے آئے ہوئے تھے اور بھاگ بھاگ کر اپنے مہمانوں کی کاغذی کارروائیاں پوری کر رہے تھے۔ افسر صاحب کے محکمے کا پروٹوکول والا اپنے صاحب کی اور ماسٹر صاحب کی پرچیاں لے کر سامان لینے چلا گیا۔ چائے پینے تک ٹرالیوں پر لدا ان کا سامان بھی آ گیا۔ امیگریشن کے مراحل بھی منٹوں میں نبٹ گئے۔ یہ سب کچھ ماسٹر صاحب کے لئے بہت غیر متوقع تھا۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انہیں اس طرح سے وی آئی پی لاؤنج کی سہولت میسر آجائے گی ورنہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلےتو ان کا خیال تھا کہ حج کے رش کے باعث تمام مراحل میں بہت دیر لگے گی اور وہ فارغ ہو کر ہی اپنے گھر والوں کو فون کریں گے۔

وی آئی پی لاؤنج سے باہر نکلے تو بڑی بڑی گاڑیاں لائنوں میں لگی ہوئی تھیں۔ خودافسر صاحب کو لینے کے لئے بھی دو گاڑیاں موجود تھیں کہ ایک میں ان کا سامان رکھا جانا تھا اور ایک میں انہوں نے خود اپنی والدہ کے ہمراہ بیٹھنا تھا۔ وہ ماسٹر صاحب سے انتہائی اخلاق سے گویا ہوئے کہ میں آپ کو گھر تک چھوڑ آتا ہوں۔ ماسٹر صاحب نے انہیں ٹال دیا کہ ان کے گھر والے انہیں لینے آئے ہوئے ہوں گے۔ افسرصاحب کی گاڑی روانہ ہوئی تو ماسٹر صاحب نے دور افق پر ٹیکسی کے انتظار میں نظر گاڑ دی کہ وی آئی پی لاؤنج میں تو ٹیکسی بھی نہیں ہوتی۔ آج تو نہ جانے کیوں وہ اپنی زوجہ سے بھی نظریں چرا رہے تھے۔ وہ ساڑھے چھ فٹ کا استاد اندر ہی اندر اس وقت اپنے آپ کو ایک بونا محسوس کر رہا تھا۔ انہوں نے کن انکھیوں سے اپنی زوجہ کی طرف دیکھاجو خود بھی دانستہ کسی دوسری طرف دیکھ رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر البتہ ایک عجیب طرح کی اداسی طاری تھی جو چغلی کر رہی تھی کہ ان کے دل کا ہیرو درحقیقت اس معاشرے کا زیرو تھا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).