کیا سندھ میں بہن کا کوئی مان نہیں؟


سندھی زمین سے جڑے روایت پسند لوگ ہیں، ان کی فطرت میں عورتوں کی عزت رچی بسی ہے، یہ زمین زادے ابھی تک اُس سادے دور میں جی رہے ہیں کہ جب کسی کو ماں، بہن یا بیٹی بول دیا جائے تو پورا پورا مان دیا بھی جاتا ہے مگر سندھ کے اکثر دانش وروں کا ماننا ہے کہ وہ دور لد گیا، اگر سندھی زبانی کلامی کسی کو ماں یا بہن کا رتبہ دے بھی دیں تو اس کا پاس رکھنا ایک جرم ہے

دانش وران کے مطابق اس روایت سے بغاوت کے آغاز کی جڑیں 2013 کے عام انتخابات میں سندھیوں کی ادی فریال تالپور کی ایک ویڈیو سے شروع ہوتی ہیں، جس میں وہ شہداد کوٹ کے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتی ہیں کہ کان کھول کر سن لو ایک ہی نعرہ ہے بھٹو کا۔ سارے تماشے بند ہونے چاہیں، اس تقریر کا پس منظر پیپلزپارٹی کی مقامی قیادت میں آپس کے اختلافات تھے، کارکن ایک دوسرے کے راہنماؤں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے تو فریال تالپور نے ڈپٹ کر کہا کہ نعرہ صرف بھٹو کا ہے

ہم سب کی ادی نور الہدی شاہ نے اپنے مضمون میں سندھیوں کی ادی کی ڈانٹ کو رعونت اور دھونس سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فریال تالپور کی ویڈیو میں واہ واہ بھی سنائی دے رہی ہے، میں نے تقریب میں موجود ایک صاحب سے جب معاملہ دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ دانش وروں کی تنقید کے بعد جیالوں کے علم میں آیا کہ ادی کائنات کا سنگین ترین جرم کرچکی ہیں، جیالوں نے تو ڈانٹ کو ایک بہن کی سرزنش سمجھ کر اتنا سیریس لیا کہ اختلافات بھلا کر پیپلزپارٹی سندھ میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئی

گو ادی نورالہدی شاہ نے سندھ کی بیٹی ہوکر سندھ میں بہن کی عزت کی روایتوں کو قریب قریب ڈھکوسلا لکھ دیا ہے کہ ادی کہو مگر ایک ادی جب اپنے ادی ہونے کا اظہار کرے تو اسے دھونس قرار دے دو مگر میں ایک اردو بولنے والے سندھی ہونے کی حیثیت میں اسے نہیں مانتا اور ادی نورالہدی شاہ کو ماں کا رتبہ جو دیا ہوا ہے، اس پر ان کا پورا استحقاق تسلیم کرتا ہوں، وہ مجھے اس گستاخی پر ڈانٹ بھی سکتی ہیں، میں اسے دھونس اور دھمکی نہیں سمجھوں گا، دانش ورانہ اپروچ سے قطع نظر سندھ میں عورتوں کی عزت کا یہ عالم ہے کہ یہاں ایک رسم میڑمنتھ کی ہے جس میں اگر قاتل کے گھر کی عورتیں قرآن لے کر مقتول کے گھر معافی کے لئے پہنچ جائیں تو متاثرہ فرد کو بھی عورتوں کو مان دینا ہوتا ہے اور یہ صرف فرضی قصے کہانیاں نہیں ہیں، سندھ میں آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے

فریال تالپور خیرپور کی مسلم ریاست کی بہو ہیں، جب دانش وروں کی بھرپور محنت کے بعد بے نظیر بھٹو کے سب اپنے ساتھ چھوڑگئے تھے تو 1997 میں بے نظیر بھٹو نے فریال تالپور سے کہا کہ وہ سیاست میں آٗئیں، 2010 میں جب آصف زرداری کے قتل کی منصوبہ بندی ہوچکی تھی تو انہوں نے ایک وصیت لکھی تھی کہ ان کی جان کو شدید خطرات ہیں، بلاول کی تعلیم مکمل ہونے سے قبل اگر انہیں کچھ ہوگیا تو فریال تالپور کو جانشین تصور کیا جائے، فریال تالپور کا حساب بے نظیر بھٹو کے بچوں کے ذمے نہیں بلکہ یہ سوال بے نظیر بھٹو کی گردن پر ہے کہ کیوں وہ انہیں سیاست میں لائیں اور کیوں اپنی زندگی میں دوبار ضلع ناظم بنایا، دانش ور آصف زرداری اور فریال تالپور کو آؤٹ سائیڈرز قرار تو دیتے ہیں مگر سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرا یہ پوچھنا شاید جائز ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور دوسری صورت ہے تو بتادیں، بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اگر ان دونوں شخصیات کے کردار کو قتل کرکے سائیڈ پر لگا دیا جائے تو پھر پیپلزپارٹی کا مستقبل وہی ہے جس کا منظر نامہ وسعت اللہ خان نے یہ کہہ کر کھینچا کہ پیپلزپارٹی ایک بند کمرے میں قید ہوگئی ہے، وہ الگ بات ہے کہ وسعت اللہ خان کے نزدیک یہ بند کمرہ پورا ایک صوبہ ہے جسے سندھ کہتے ہیں

استاد محترم وسعت اللہ خان صاحب نے فریال تالپور کی ویڈیو کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پیپلزپارٹی کیا تھی اور کیا ہوگئی، وسعت اللہ صاحب بھی تو جوان سے ادھیڑعمر ہوگئے تو پیپلزپارٹی بھی 50 سال میں اپنے مرکزی لیڈرشپ کے مسلسل قتل کے بعد وہی ہوگئی جس کی خواہش سندھ کے سارے دانش ور مسلسل کرتے رہے ہیں، سوال یہ نہیں ہے کہ پیپلزپارٹی کیا سے کیا ہوگئی، سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا ہوگیا ہے تو وسعت اللہ خان کی فکر کو اب کون پارلیمان میں اٹھائے گا، نقصان تو وسعت اللہ خان صاحب کا ہوگیا ہے

پیپلزپارٹی نے اپنے ووٹرز کی توقعات کا خون کیا ہے، یہ پارٹی ذوالفقارعلی بھٹو کے وژن پر عمل تو درکنار اس کے متضاد چل رہی ہے، وہ خواب جو ہزاروں دیوانوں نے اپنی قربیانیوں سے بوئے تھے، پیپلزپارٹی ان کی فصل کو پروان نہ چڑھاسکی، تعبیر نہ دینے پر پیپلزپارٹی میری بھی مجرم ہے اور میں اسے معاف نہیں کرسکتا مگر اس ناراضی کی آڑ میں سندھ کی روایات کو نشانہ بنانا نامناسب ہے، اگر فریال تالپور ادی نہیں ہیں تو انہیں اس طرح سرزنش کا کوئی حق نہیں اور اگر وہ ادی ہیں تو اب اس کا مان رکھنا سندھ کی روایت ہے اور اس حق پر کسی کا قلم سیاہی نہیں پھیرسکتا، یہ معاملہ سیاسی نہیں بلکہ سماجی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).