شرعی ڈی این اے


اگر معاملہ ریپ کا نہ ہوتا، اگر ریپ قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے احاطے میں نہ ہوا ہوتا، اگر ملزم نہ پکڑے جاتے، اگر مقدمہ چلتے ہوئے پانچ سال نہ ہو گئے ہوتے تو ہم کہتے یہ ایک افسوسناک سانحہ ہے۔

دُنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ریپ کے مقدمے جیتنا اِنتہائی مشکل ہے اور ہماری پولیس اور عدالت تو ریپ کا شکار ہونے والی کسی بھی خاتون کے کردار کو ہی مشکوک سمجھتے ہیں۔ مختاراں مائی کے کیس کو ہی لے لیں، اُنہیں پوری دُنیا میں شہرت اور عزت تو ملی لیکن اپنے ملک میں انصاف نہ ملا۔

لیکن پانچ سال قبل لودھراں سے اپنے خاندان کے ساتھ کراچی آنے والی اٹھارہ سالہ لڑکی کا ریپ جناح کے مزار کے احاطہ میں ہوا۔ یہ انہی جناح کا مزار ہے جہاں پاکستان کا ہر چھوٹا، بڑا، نگراں یا منتخب حکمران پھولوں کی چادر چڑھاتا ہے جہاں پر فوج کی زیر تربیت افسران حفاظتی ڈیوٹی دینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔

ریپ کا شکار ہونے والی اِس لڑکی نے نہ خودکشی کی، نہ اُس کے گھر والوں نے اُسی پر کوئی الزام لگایا۔ پولیس میں رپورٹ درج ہوئی اور شاید جناح کے نام پر پولیس کو بھی غیرت آئی، ایک ملزم پکڑا گیا لڑکی نے اُسے شناخت کیا، دو اور ملزم ڈی این اے کے ٹیسٹ کے بعد پکڑے گئے۔ پانچ سال بعد کراچی کی ایک عدالت نے فیصلہ سُنایا کہ چونکہ کسی نے ریپ ہوتے دیکھا نہیں اور ڈی این اے کا ثبوت قابل قبول نہیں ہے اِس لیے ملزمان کو باعزت بری کیا جاتا ہے۔

اگر ریپ کے مقدموں میں ڈی این اے کی شہادت کے بارے میں ابھی بھی کِسی کو شک تھا تو اِسی ہفتے اسلامی نظریاتی کونسل کے معزز اراکین نے بتا دیا ہے کہ ڈی این اے کی شہادت کو ملزموں کو سزا دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ کونسل میں شامل تمام اراکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، اِس ملک کے معروضی حالات سے واقف ہیں، اُمید ہے فقہ اور حدیث کے ساتھ ساتھ ہائی سکول کی سائنس بھی پڑھی ہو گی۔

یہ بھی جانتے ہوں گے کہ آپ شاختی کارڈ جعلی بنوا سکتے ہیں، کسی اور کے پاسپورٹ پر اپنی تصویر لگا سکتے ہیں، پلاسٹک سرجی سے چہرہ بھی تھوڑا بہت بدل سکتے ہیں، لیکن ابھی تک دریافت ہونے والے انسانی جینیاتی شناخت میں ڈی اے این ہی وہ کوڈ ہے جو کِسی دو اِنسانوں میں مشترک نہیں ہوتا۔
لیکن اسلامی نظریاتی کونسل والے بھی کیا کریں وُہ مذہبی بھی ہیں اور نظریاتی بھی اور ہر ایسی سائنسی ایجاد جو اُن کے رُتبے کو چیلنج کرے اُن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

دور کی بات نہیں ماضی کے کچھ بزرگ علمانے بجلی کو بدعت کہا تھا، ریڈیو کو شیطان کی آواز بتایا تھا، ٹرین جہنم کی سواری تھی اور ٹیلی ویژن اور فلم نے تو ہمارے دین مکمل کو ایسا خطرے میں ڈالا تھا کہ آج تک نہ سنبھل سکا۔
اب ہمارے یہی علما حضرات جاپانی پراڈو پر سفر کرتے ہیں، ان کے محافظوں کے ہاتھوں میں روسی کاشنکوف ہوتی ہے، کان کے ساتھ کوریا کا موبائل فون لگا ہوتا ہے اور ان کے خطبات سننے کے لیے جرمن ٹیکنالوجی سے بنے سپیکر لگائے جاتے ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کے روح رواں مفتی منیب الرحمنٰ چاند تو ننگی آنکھ سے دیکھنے پر مصر ہیں لیکن اس کا اعلان اسی وقت کرتے جب تک سارے چینلوں پر لائیو کوریج شروع ہو جاتی ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کوئی مضائقہ نہیں ہر ٹیکنالوجی کے خلاف مزاحمت ہوتی ہے لیکن پھر چیزیں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ تو پھر یہ کیسے ہوا کہ ڈی این اے ٹیسٹ جس کے ذریعے ریپ جیسے قبیح جرم کا شکار ہونے والی ایک بچی کو انصاف مل سکتا ہے، ہمارے ملک کے چنیدہ علما اس پر متفق ہیں کہ نہیں ہونے دیں گے۔

اِن سے دست بستہ یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ آپ میں سے کچھ نے دل کا بائی پاس آپریشن کرایا ہوگا اور طبی سائنس کی مدد سے دل کی بند شریانوں کو مغربی ٹیکنالوجی کے ذریعے کھلوایا ہوگا۔ وہی طبی سائنس جس کی بدولت ماشاء اللہ آپ طویل عمریں پاتے ہیں کیا وہی سائنس کِسی مجبور اور لاچار کو اِنصاف نہیں دلا سکتی۔

پاکستان میں جب بھی کِسی دینی مسئلے پر بحث چھڑتی ہے تو اکثر علما حضرات کبھی شفقت سے کبھی غصے سے ہمیں سجھاتے ہیں کہ اگر دین کا عِلم حاصل نہیں کیا اس پر بات مت کرو۔ کاش انہیں کوئی بتائے کہ اگر میڈیکل سائنس نہیں پڑھی تو۔ ۔ ۔ ۔
30 مئی 2013


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).