چئیرمین ماؤ کو مزدوروں سے دور رہنا پسند تھا


چیئرمین ماؤزے تنگ کے ذاتی معالج ژی لی اپنی یاداشتوں  Private Life of Chairman Maoمطبوعہ 1996 کے صفحہ 128 پر لکھتے ہیں…

جب میں نے ماؤ کے ساتھ سفر کرنا شروع کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ ماؤزے تنگ کے لیے کس قدر وسیع انتظامات کیے جاتے تھے اور وسائل کا زیاں کیسے ہوتا تھا۔

یہ بات طے شدہ تھی کہ چئیرمین ماؤ کی حفاظت اور صحت سب سے پہلی ترجیح ہے۔ ان کے آرام اور خوشنودی کے لیے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ ماؤ کے لیے حفاظتی انتظامات کا بندوبست نہایت پیچیدہ ہے لیکن بیجنگ میں رہتے ہوئے یہ سب کچھ روز مرہ زندگی کا حصہ تھا چنانچہ اس پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ مگر جب ہم نے اکٹھے سفر کیا تو مجھ پر اس بھنگڑ خانے کی حقیقت واضح ہوئی۔

چئیرمین ماؤ کم و بیش ہر وقت سفر میں رہتے تھے۔ بیجنگ تو وہ کبھی کبھار آتے تھے اور اسے شمالی دارالحکومت جیسے تحقیر آمیز نام سے یاد کرتے تھے۔ دراصل چئیرمین ماؤ جنوبی چین میں پیدا ہوئے تھے اور وہ ادھر کے رہن سہن میں اس قدر پختہ ہو چکے تھے کہ انہیں بیجنگ میں رہنا ناگوار گزرتا تھا۔ شنگھائی، کیٹین اور ووہان ان کے پسندیدہ شہر تھے۔ چئیرمین مہینوں سفر میں رہتے تھے۔ دارلحکومت تو وہ یوم مئی اور یوم انقلاب جیسے ضروری مواقع پر آتے تھے۔ کبھی کبھار انہیں غیر ملکی مہمانوں سے ملنے کے لیے بیجنگ آنا پڑتا تھا۔

سفر کرنے کی ترنگ بیٹھے بٹھائے چئیرمین میں جاگتی تھی۔ مثال کے طور پہ صبح سویرے انہیں خیال آیا کہ ھانگ یو شہر چلنا چاہئیے۔ دن ڈھلے تک قافلہ حالت سفر میں ہوتا تھا۔ ہم ان کے ساتھ سفر کرتے تھے لیکن ہمیں ان کی حتمی منزل کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ چئیرمین اپنے سفر اور اس کے مقصد کے بارے میں ہر طرح سے آگاہ ہوتے تھے لیکن ہمیں عام طور پہ ایک رات پہلے اطلاع دی جاتی تھی۔ سیکیورٹی کا عملہ خوف زدہ ہوتا تھا کہ چئیرمین کی بیجنگ سے باہر جانے کی خبر غلط ہاتھوں میں نہ چلی جائے۔ ایسا شاذ ہی ہوا کہ ہمیں تیاری کے لیے ایک یا دو روز دئیے گئے ہوں۔

عام طور پہ چئیرمین اپنی ذاتی ریل گاڑی میں سفر کرتے تھے۔ یہ ٹرین ہر طرح کے ساز و سامان سے آراستہ تھی۔ اس میں کل گیارہ بوگیاں تھیں۔ اس گاڑی کو بیجنگ کے مرکزی ریلوے اسٹیشن سے بہت دور ایک شیڈ میں کھڑا کیا جاتا تھا تاکہ چئیرمین کی آمدورفت مکمل طور پر خفیہ رکھی جا سکے۔

چئیرمین ماؤ اور ان کی اہلیہ ژیان کنگ کے لیے ایک الگ بوگی مختص تھی مگر ژیان کنگ نے ہمارے ساتھ محض ایک دفعہ سفر کیا تھا۔ ایک اور بوگی ان کے باورچی خانے اور طعام گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ چئیرمین کی بوگیاں نہایت پرتعیش تھیں، وہاں بہت بڑا سا ایک لکڑی کا پلنگ رکھا ہوتا تھا۔ زیادہ تر جگہ چئیرمین کی کتابوں نے گھیری ہوتی تھی، چئیرمین بلاشبہ علم دوست تھے۔

اس ٹرین کی چار بوگیوں میں چئیرمین کے ذاتی محافظ سوار ہوتے تھے۔ ان میں مرکزی چھاؤنی سے تعلق رکھنے والے سپاہی بھی تھے۔ گاڑی کی دیکھ بھال کرنے والا عملہ بھی تھا۔ سرکاری فوٹو گرافر اور نہایت قریبی مددگار بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ ایک باورچی ہمہ وقت ساتھ سفر کرتا تھا۔ ایک بوگی ہر قسم کے ہنگامی طبی ساز و سامان سے لیس تھی اور ایک بوگی مکمل طور پہ خالی ہوتی تھی۔

چیئرمین ماؤ مداح خواتین کے جھرمٹ میں

مجھے اس ٹرین میں ایک ہی تکلیف تھی۔ یہ ائیر کنڈیشنڈ ٹرین نہیں تھی۔ گرمیوں میں سفر کرنا عذاب ہو جاتا تھا۔ پھر ساٹھ کی دہائی میں چئرمین کے لیے مشرقی جرمنی سے ایک نئی گاڑی لائی گئی جس میں تمام ممکنہ سہولیات میسر تھیں۔ مغربی انداز میں دھیمی روشنی کا انتظام موجود تھا۔ ہر طرح کے جدید آلات نصب تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ گاڑی مکمل ائیر کنڈیشنڈ تھی۔ اس گاڑی میں چئیرمین ماؤ کے محافظ اعلی، خصوصی مددگار اور میرے (یعنی ذاتی معالج) کے لیے تین الگ نجی بوگیاں لگائی گئی تھیں۔ روزمرہ کے نشست و برخواست کے لیے ایک مشترکہ بوگی ہمارے لیے الگ سے مخصوص تھی۔ ہمارے ذاتی کمرے بہت کشادہ اور آرام دہ تھے۔ یہاں پر ہمارے لیے پلنگ میز اور واش بیسن موجود تھے۔ ٹھنڈے گرم پانی کی سہولت بھی میسر تھی۔

چئیرمین جس راستے پہ سفر کرتے تھے وہاں حیران کن حفاظتی اقدامات کیے جاتے۔ پورے روٹ پہ ٹریفک روک دی جاتی۔ ملک بھر میں سفر کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔ کئی دفعہ تو معمول کی آمدورفت ہفتے بھر کے لیے طے شدہ روٹین سے ہٹ جاتی۔

ریلوے اسٹیشن پر مسافر لشٹم پشٹم سفر کرتے ہیں، ہر طرح کے ٹھیلے والے اپنا سامان بیچنے آتے ہیں، انقلابی چین کے عظیم رہنما چئیرمین ماؤ سفر کرتے تو اسٹیشن کو ان تمام خباثتوں سے پاک کر دیا جاتا تھا۔ طے شدہ فاصلے پر متعین چاق و چوبند سنتری بندوقیں تھامے اٹین شن کھڑے نظر آتے۔ ایسا لگتا جیسے ہم کسی بھوت نگر سے گزر رہے ہیں۔ میں نے اور عملے کے کچھ دوسرے ارکان نے چیئرمین ماؤ کی سیکورٹی کے انچارج کو بتایا کہ جہاں سے چیئرمین ماؤ گزرتے ہیں، ریلوے اسٹیشن پر مسافر نظر آتا ہے اور نہ ٹھیلے والا۔ اجاڑ اسٹیشنوں پر چھایا اجاڑ پن آنکھوں پر گراں گزرتا ہے۔ وانگ ڈانگ ژنگ کے لئے کیا مشکل تھا۔ اس نے ٹھیلے والوں کے کپڑے پہنا کر سنتری کھڑے کر دیے۔

چیئرمین ماؤ مصنف کے ہمراہ

چیئرمین ماؤ کی ٹرین جس صوبے سے گزرتی، قائد انقلاب کی حفاظت وہاں کی صوبائی قیادت کی براہ راست ذمہ داری ہوتی تھی۔ ہر صوبہ اپنی حدود سے گزرنے کے لئے خصوصی ڈرائیور اور انجن فراہم کرتا تھا۔ صوبے کی حدود شروع ہوتے ہی سیکورٹی کا صوبائی انچارج ٹرین پر سوار ہو جاتا اور اگلا صوبہ شروع ہونے تک ٹرین پر رہتا تھا۔ اس کے بعد، متعلقہ صوبے کا سیکورٹی ڈائریکٹر اس کی جگہ سنبھالتا۔ بیجنگ سے سوار ہونے والے محافظ ٹرین رکتے ہی بندوقیں سونت کر چھلانگیں لگاتے اور پورے علاقے کو نشانے پر لے لیتے۔ صوبے کے سیکورٹی بیورو سے بھی چیئرمین ماؤ کے روٹ کی حفاظت کے لئے دستے منگوائے جاتے تھے۔ ہر پچاس گز کے فاصلے پر محافطوں کا دستہ پوزیشنی سنبھالے موجود ہوتا تھا۔

مجھے ایک دفعہ بیجنگ اور ماژولی کے درمیانی ریلوے ٹریک کے ڈائریکٹر سیکورٹی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ماژولی کا قصبہ منچوریا میں چین اور سوویت یونین کے درمیانی سرحد پر واقع تھا۔ جنوری 1950ء میں چیئرمین ماؤ کی دورہ روس سے واپسی کے موقع پر اسے پہرہ دینا پڑا تھا۔ سخت سردی میں ریلوے لائن کے دونوں طرف سینکڑوں میل تک سپاہی اور جتھے دار متعین کئے گئے تھے۔ ڈائریکٹر نے مجھے بتایا کہ خود اسے کڑاکے کی سردی میں دو ہفتے تک ایک خندق میں بیٹھنا پڑا تھا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ ریل گاڑی میں کوئی اعلیٰ عہدے دار گزر رہا تھا۔ کئی برس بعد اسے پتا چلا کہ جنوری 1950 میں اسے جس گاڑی کی حفاظت کرتے ہوئے مصیبت کاٹنا پڑی تھی، اس میں چیئرمین ماؤ سفر کر رہے تھے۔

چیئرمین ماؤ سفر کرتے تھے تو ان کی ٹرین کسی شیڈول کے ماتحت نہیں ہوتی تھی۔ کیونکہ چیئرمین ماؤ کی نیند کے دوران ٹرین روک دی جاتی تھی۔ چیئرمین کے سونے اور جاگنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں تھا۔ چنانچہ ٹرین کی آمد و رفت بھی کسی ٹائم ٹیبل کی پابند نہیں تھی۔ چیئرمین ماؤ سو رہے ہوتے تو ٹرین کو قریبی فوجی ایئر پورٹ، ریلاوے یارڈ یا کارخانے کی چار دیواری میں پہنچا دیا جاتا تھا۔ اس طرح حفاظتی بندوبست میں آسانی رہتی تھی۔ انقلاب چین کے عظیم قائد کی آمد سے پہلے کارخانے مزدوروں سے خالی کرا لئے جاتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).