ایک بے روزگار دن


کمرے میں لگی گھڑی کے مطابق صبح کے گیارہ بج رہے ہیں اور میرے لیپ ٹاپ پر آرکیسٹرا بج رہا ہے، ایک جاب ختم ہوگئی ہے اور دل چاہ رہا ہے کہ نئی نوکری کی تلاش سے قبل ذرا کچھ دن توقف رکھا جائے، لہذا کل کی معاشی فکر کو ایک طرف رکھ کر فلم دیکھی جا رہی ہے۔

روم سے باہر گرمی شدہ ٹمپریچر اور سڑک پر دوڑتے بغیر سائلنسر والے رکشوں کا شور بھی پورے جوبن پر ہے اور یوں آرکیسٹرا کی دھنوں کا والیم ذرا بڑھا دیا ہے تاکہ محظوظ ہونے میں کوئی کسر نہ رہے۔

ایک فرینچ لیڈی بڑے سے ہال کے اندر بھاری مگر سریلی آواز میں رومانوی گیت گا رہی ہے اور سامعین اس کی آواز میں محو ہیں۔ میوزک اچھا ہے۔
مجھے دن کے اوقات میں گیارہ بجے والی ان سوئیوں سے جڑی مزید کوئی تین اور باتیں بھی یاد آرہی ہیں۔

ایک وہ جب سکول کے دنوں میں ریاضی سے چڑ تھی اور عمومًا کوشش کی جاتی کہ گیارہ بجے کلاس شروع ہونے سے قبل کسی نہ کسی طرح سکول آفس کا چوری چھپے ایک چکر ضرور لگا لیا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ پرنسپل صاحب آفس میں موجود ہیں یا نہیں۔

اگر موجود ہیں تو ریاضی کی کلاس پڑھیں وگرنہ سکول کے چھتیس کمروں میں سے کسی ایک کے کونے میں خاموشی سے جا کر بیٹھ جائیں اور گیارہ سے آگے سوئیاں گزرنے کا انتظار کریں۔

دوسرا وہ دور جب کام کی فائلیں دفتر کے ٹیبل پر ہوتیں اور فون کی گھنٹیاں کانوں میں کھڑک رہی ہوتیں، تب اپنے ایک لاڈلے کولیگ کی تعریفیں کر کے اسے چائے منگوانے کا کہا جاتا تاکہ ان فائلوں اور گھنٹیوں سے نمٹنے سے پہلے ایک اچھا سٹاٹر مل جائے۔
یوں پندرہ منٹ خوب آرام سے چائے نوش کرنے کے بعد روزمرہ کے کاموں پر مغز خرچ کیا جاتا۔

تیسرا دن گیارہ بجے کا وہ وقت جب کبھی سکول یا آفس سے چھٹی کی یا اتوار کا دن آیا تو صبح کی نیند سے خوب سیر ہونے کے بعد بغیر منہ دھوئے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر میوزک سے لطف اندوز ہوتے ہوئے چائے کی چسکیاں لی۔

خیر آج کا دن بھی سکول کی ریاضی اور آفس کی ان جھنجھٹوں سے کہیں پاک تھا اور کرنے کو کچھ نہیں تھا سوائے آرام کے، لہذا اسی چائے کے ساتھ ایک فرینچ کم انڈین مووی دیکھ کر دن گزارا جا رہا ہے۔

ہال میں بیٹھا ہوا ہیرو کل شب ہونے والے بریک اپ کی خوشی میں ایک ٹھنڈی بیئر پی رہا ہے۔ یہ ماڈرن ریلیشن شپ کا دور ہے۔ اس انڈین ہیرو کو بریک اپ کے بعد پیرس میں رہتے ہوئے پرانی فلموں والے ہیرو جیسا دھچکا نہیں لگا بلکہ اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور وہ اسٹیج پر فرینچ ڈانسرز کے تھرکتے جسموں کو بڑے ذوق سے دیکھ رہا ہے۔

مووری اچھی لگی، لیکن ایک تین گھنٹے کی فلم آپ کو زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے ہی محظوظ کر سکتی ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
تو فلم کے بعد کا ٹائم بے چینی میں ہے کہ مہینے کے آئندہ دنوں کے اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے، نئی جاب کب ملے گی، کوئی نئی نوکری ڈھونڈی جائے، وغیرہ وغیرہ
اخبارات کنگھال مارے اور نوکری کے اشتہارات بانٹنے والی تمام ویب سائٹس پر سی وی اپلوڈ کر دی گئی۔ اتنے میں دوپہر کے کھانے کی آواز آئی۔
کھانے میں آج وہی سالن بنا ہے جو سخت ناپسند ہے لیکن گھر والوں کا صاف بیان ہے کہ کھانا ہے تو کھاؤ ورنہ کما کر لاؤ اور ہمیں بھی کھلاؤ۔

ایک دم غصے میں آکر کھانا ایک طرف کیا اور جیب ٹٹولی لیکن پھر وہ جس طرح کبھی، کبھی آفس میں پرنسپل کی موجودگی کی وجہ سے مایوس ہوکر ریاضی کو برداشت کرنا پڑتا تھا، بالکل اسی طرح گھر میں بنے ظہرانے کو تناول کیا۔

کھانے کے بعد وہی مشہور گفتگو: آگے کیا سوچا؟ جاب کا کہیں کچھ پتا کیا؟ گھر کے حالات بہت خراب ہیں، تم نہیں کرو گے تو کون کرے گا، تمھیں ہی کچھ کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ
سوالوں کی اس یکطرفہ نشست کے بعد دوبارہ کمرے کا رخ کیا اور ایک بار پھر ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے ڈھلتی شام میں جگجیت کی زبانی گلزار کو سنا۔

اس دوران کمرے میں لیز چپس اور تلسی کے بکھرے ہوئے چند خالی پیکٹ پڑے ہیں اور یوں یہ دن ڈھلنے کے قریب ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید دن ختم ہونے یا رات بیاں ہونے میں ابھی کچھ باقی ہے لیکن شاید نہیں!
رات کے کھانے اور باتوں میں کچھ بھی دوپہر سے مختلف نہیں ہے لہذا آج جلد سونے کی تیاری ہے، ہو سکتا ہے کل یہ گیارہ نہ بجیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).