جنوبی ایشیائی عورتیں رسوائی کے ڈر سے بریسٹ کینسر چھپاتی ہیں


بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ کینسر کے مرض میں مبتلا جنوبی ایشیائی پس منظر والی متعدد برطانوی خواتین اس مرض کو چھپا کر رکھتی ہیں کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اس بیماری کے ساتھ رسوائی کا عنصر وابستہ ہے۔ ایک خاتون نے اس ڈر سے کیموتھیراپی خود ہی تنہا برادشت کی کہ نہ جانے اس کے خاندان کا ردِ عمل کیا ہو گا اور وہ خود سے یہ سوال کرنے لگیں کہ شاید خدا انھیں کسی گناہ کی سزا دے رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ خواتین مدد حاصل کرنے میں بہت دیر کر کے موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں حالانکہ یہ اموات روکی جا سکتی ہیں۔ ایک عورت نے علاج میں اتنی دیر کر دی کہ ان کی چھاتی گل سڑ گئی اور بعد میں وہ کینسر پھیل جانے کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔

پروینا پٹیل نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ان کی عمر 36 برس تھی تو انہوں نے اپنی چھاتی میں ایک گلٹی محسوس کی۔ ان کی پرورش ایک ایسے انڈین ماحول میں ہوئی تھی جہاں اس بیماری کے بارے میں بات کرنا بھی شرمناک تصور کیا جاتا تھا۔ جب ان کے مرض کی تشخیص ہوئی تو انھوں نے اسے چھپانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے کہا: ‘میں نے سوچا کہ اگر لوگوں کو پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے تو وہ سمجھیں گے یہ گویا سزائے موت ہے۔’ وہ پریشان تھیں کہ لوگ کہیں گے کہ انھوں نے ‘بری زندگی’ گزاری ہے اور خدا انھیں سزا دے رہا ہے۔ پروینا پٹیل نے علاج کے دوران اپنی بیماری چھپائے رکھی اور کہا کہ وہ کیموتھیراپی کے ‘تاریک دنوں’ کے دوران ‘بےحد تنہا’ تھیں۔

پوجا سینی برطانوی طبی ادارے این ایچ ایس سے وابستہ تحقیق کار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس معاملے نے انھیں بہت حیران کیا ہے۔ ‘بعض عورتیں تو علاج تک نہیں کرواتیں کہ اگر دورانِ علاج ان کے بال گر گئے تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔’ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ مسئلہ کس حد تک پھیلا ہوا ہے تاہم 2014 میں ایک تحقیق کے دوران این ایچ ایس کو پتہ چلا تھا کہ 15 سے 64 برس کی ایسی ایشیائی خواتین جن کو تین سال سے کینسر کا مرض لاحق تھا ان کی بچنے کی شرح دوسری عورتوں کے مقابلے میں خاصی کم تھی۔ پوجا سینی کی تحقیق کے مطابق خاندان میں مردوں اور دوسرے بزرگوں کا اثر اس مسئلے کا سبب بن رہا ہے۔

پروینا پٹیل کہتی ہیں کہ خواتین سمیئر ٹیسٹ یعنی رحم کے لعاب کا معائنہ کروانے سے بھی ہچکچاتی ہیں کیوں کہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کی ’پاکیزگی‘ پر شک کیا جائے۔ اب پروینا کی کیموتھیراپی ہو گئی ہے اور انھیں افاقہ ہو رہا ہے۔ پروینا پٹیل کی دوران علاج اپنے شوہر سے طلاق ہوگئی تھی۔ اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ وہ ثقافتی توقعات تھیں کہ ایک بیوی کو کیسا ہونا چاہیے۔ بعض ماہرین کو تشویش ہے کہ خواتین غیر ضروری طور پر تکالیف جھیل رہی ہیں۔

مدھو اگروال گذشتہ 30 برس سے کینسر سپورٹ مینیجر کے طور پر کام کر رہی ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ ایشیائی خواتین بلاوجہ مر رہی ہیں اور کوئی وجہ نہیں کہ انہیں درست علاج کے ذریعے نہ بچایا جا سکے۔ ‘چھاتی کا وقت پر معائنہ نہ کروانے سے، جلد معائنہ نہ کروانے سے بیماری پھیل جاتی ہے اور پھر اس کا علاج مشکل ہو جاتا ہے۔ پھر شرحِ اموات بڑھ جاتی ہے اور اس کے ساتھ رسوائی کا عنصر وابستہ ہے کہ اگر آپ کینسر میں مبتلا ہوئے تو مر جائیں گے۔’

ایک اور متاثرہ خاتون ثمینہ حسین کہتی ہیں کہ ان کے خاندان نے ان سے کہا کہ وہ اپنا کینسر چھپانے کے لیے حجاب استعمال کریں۔

پبلک ہیلتھ انگلینڈ کی سکریننگ ڈائریکٹر این میکی کہتی ہیں کہ جب سینی کی تحقیق شائع ہو گی تو اس کی سفارشات کو لاگو کرنے پر غور کیا جائے گا۔ ‘ہمیں امید ہے کہ اس سے جنوبی ایشیائی خواتین کی زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی۔’

(عنبر حق)

نامور آسٹریلوی باؤلر گلین میکگرا بریسٹ کینسر کے لئے آگہی مہم کے دوران۔ گلین میک گرا کی پہلی اہلیہ کا انتقال بریسٹ کینسر سے ہوا تھا.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp