کن چیزوں کو بدلیں اور کن چیزوں کو برداشت کریں؟


ہمارے سماج میں غلط اور درست کے پیمانے بہت عجیب ہیں۔ ہمارے ہاں جو کام اکثریت کرے، وہ ہی درست سمجھا جاتا ہےاور ذرا سا ہٹ کے اگر کوئی رویہ ہو تو بہت تعجب کا اظہار ہوتا ہے۔ شاید ایسا سمجھنا کچھ صورتوں میں درست بھی ہےکیونکہ ایک انسان معاشرے سے ہٹ کر جی نہیں سکتا، مگر بعض صورتوں میں ہم ایسی باتوں میں بدلاؤ پر زور دیتے ہیں جو قدرتی ہیں اور کسی کے بس میں نہیں یا پھر ایسی باتیں یا کسی کی شخصیت کے وہ پہلو جن سے شاید کسی دوسرے کو کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔

مثلاً میری ایک ہم جماعت تھی جو بائیں ہاتھ سے لکھتی تھی۔ میں نے اکثر استانیوں اور ہم جماعتوں کو اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے دیکھا۔ کچھ لوگ اس کو باقاعدہ ٹوک دیتے تھے کہ ارے تم بائیں ہاتھ سے کیوں کام کرتی ہو اور بعض اوقات اس کو مجبور کیا جاتا تھا کہ نہیں وہ دائیں ہاتھ سے ہی لکھے۔ بہت کم لوگ شاید یہ بات جانتے تھے کہ کچھ لوگ پیدائشی طور پر بائیں ہاتھ سے زیادہ کام لے سکنے کی قوت رکھتے ہیں اور ان کا بائیاں ہاتھ ان کے اتنے ہی قابو میں ہے جیسے ہمارا دائیاں ہاتھ۔ مگر چونکہ اکثریت دائیں ہاتھ سے ہی لکھتی ہے اس لئے اسے بھی ایسا ہی کہا جاتا تھا۔ یہ وہ صورت تھی جس میں اگر ساری توجہ اس کے بائیں ہاتھ کی لکھائی بہتر بنانے پر دی جاتی تو شاید وہ بہت ہی اچھا لکھ لیتی، میں اس فرق کو ایک قدرتی چیز سمجھتی ہوں اور ایک کمزوری نہیں مگر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں بعض صورتوں میں کسی کی قابلیت یا سٹرینتھ کو سراہنے کی بجائے سارا زور اس کی کمزوری دور کرنے پر دیا جاتا ہے اور اس کمزوری کو ہی ساری توجہ کا مرکز بنا لیا جاتا ہے مگر اس کمزوری کو ایک اختلاف سمجھ کر قبول نہیں کیا جاتا اور کسی تنوع کے ساتھ سمجھوتا نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ معاشرےمیں موجود آئیڈیل نظام سے مطابقت نہیں رکھتا۔
مگر اس کے ساتھ ہی، ایک اس سے بالکل متضاد رویہ جو ہمارے معاشرے میں نظر آتا ہے وہ ان باتوں میں سمجھوتے اور برداشت پر زور دینے میں ہے جو سب نے بنا سوچے سمجھے قبول کی ہوئی ہیں۔

کہتے ہیں کہ جس چیز کا علاج نہ ہو اسے برداشت کرنا چاہیے۔ مگر کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ کونسی چیزیں ایسی ہیں جو شاید واقعی ہی میں لاعلاج ہیں مگر کون سی چیزیں ایسی ہیں جو ہم صرف اس لئے قبول کر کے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ معاشرے نے ہم پر لاگو کہ ہوئی ہیں اور کیونکہ سب انہیں سہہ رہے ہیں۔ ہم صبح سے شام تک نظام کی خرابیاں بس برداشت کر لیتے ہیں۔ کام کرنے بیٹھے بجلی چلی گئی تو بعض اوقات ہم شکائت بھی نہیں کرتے بس برداشت کر لیتے ہیں۔ کوئی بہت تیز رفتار گاڑی چلا کر نکل گیا اور ہم ایکسیڈنٹ سے بال بال بچے تو ہم یہ رویہ بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ مگر ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔ کیا ہم انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر کسی تبدیلی کی کوشش کر سکتے ہیں یا نہیں؟ ہم اکثر چیزوں کو قدرت کا لکھا سمجھ کر بس دوسری دفعہ سوچتے بھی نہیں ان کے بارے میں، مگر کیا قدرت کا ہر فیصلہ اتنا ہی اٹل ہے اور کیا ہر فیصلہ بس اسی بات کا متقاضی ہے کہ اس کے جواب میں ہم بس ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں؟

میں نے جسمانی تشدد اور نفسیاتی تشدد کے بارے میں اپنے خیالات کسی سے شئیرکیے تو وہ خاتون کہنے لگیں کہ ہاں میں بھی بہت زیادہ تنگ ہوئی، میں سسرال والوں کے نفسیاتی تشدد کی وجہ سے ہسپتال تک پہنچ گئی، مگر میں اس رویے کہ بارے میں کیا کر سکتی ہوں۔ مجھے بہر طور اسے برداشت کرنا ہے، زندگی کا کیا ہے، جیسے تیسے کٹ جائے گی۔ وہ خاتون اس حق میں بھی نہیں تھیں کہ وہ اپنی صورتحال کا جائزہ لے کر کوئی حل یا نتیجہ نکالنے کی کوشش کریں۔ ان کے نزدیک ایک حالات جو انہیں مل چکے ہیں وہ ہر گز بھی بدل نہیں سکتے کیونکہ معاشرےکی سوچ کی رو سے سسرال میں جو بھی حالات مل جائیں، انہیں برداشت کرنا ہی درست سمجھا جاتا ہے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ کسی تکلیف کی وجہ سے میں ہسپتال میں تھی تو پین کلر کے انجیکشن لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا زیادہ تکلیف تو نہیں، میں نے کہا ابھی تو برداشت کی حد میں ہے، انہوں نے کہا برداشت نہیں کرنا اگر تکلیف ہو تو فورا بتائیں کہ میں آپ کو درد رفع کرنے کا انجیکشن دے دوں گا، یہ آپ کی اس تکلیف کا حل ہو گا اور میں جو اس گمان میں تھی کہ شاید میں تکلیف برداشت کر کے ایک بہت عظیم کارنامہ انجام دے رہی ہوں، ایک دم حیران رہ گئی کہ ہاں بھئی اس تکلیف کو صرف انجیکشن لگا کر ختم کیا جا سکتا تھا۔
برداشت کا بھی ایک پیمانہ ہوتا ہے اور قوت ارادی کو استعمال کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر ہم ناروا زیادتیوں کو برداشت کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں گے تو ہمارے پاس مثبت کام کرنے کی نہ تو توانائی بچے گی اور نہ ہی وقت رہے گا۔

بات یہ ہے کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی ترجیحات کا درست تعین کرنے کی ضرورت ہے ہم آدھا وقت اپنی معاشرے کے مطابق طے کی جانے والی کمزوریاں دور کرنے پر دھیان دیتے ہیں اور آدھا وقت حالات کی سختیاں برداشت کرنے کی طرف، ہم ان چیزوں کو بدلنے کو کوشش کرتے ہیں جن کو اگر نہ بدلا جائے اور ان کی بجائے اپنی اصل صلاحیت پر تمام توجہ مرکوز کی جائے تو ہمیں زیادہ فائدہ ہو اور ان چیزوں کو برداشت کرنے میں اپنی تمام توانائی خرچ کر دیتے ہیں جن کو بس بدل لینا ہی مسئلے کا حل ہے۔

حالانکہ یہ طے کرنا بھی آسان ہے کہ کس چیز پر توانائی ضائع کرنا فضول ہے اور کن حالات سے فورا کنارہ کش ہو جانا بہتر ہے یا ان پر اپنی توانائیاں صرف کر کے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا سیدھا پیمانہ تو ہر انسان کے اپنے پاس ہے اور اس کے لئے سب سے پہلے تو اس بات پر یقین ہونا ضروری ہے کہ اپنی پوری استعدادکار کو استعمال کرتے ہوئے ایک اچھی زندگی گزارنا ہر اور خوشی اور سکون کی زندگی جینا انسان کا حق ہے۔ جو چیز واقعی ہی میں اس سکون کی راہ میں رکاوٹ ہے اس سے اسی حد تک دوری اختیار کرنا چاہیے۔ صرف اس لئے برداشت نہیں کرنا چاہیےکہ یہ معاشرے کا چلن ہے تو اس کے مطابق ہی چلا جائے اور وہ ماحول یا شخصیت کا وہ پہلو جو انسان کے اپنے لئے سکون کا باعث ہے اور کسی کو تکلیف بھی نہیں دے رہا، اسے محض معاشرے کے ڈر سے بدلنے کی ضرورت نہیں۔

مریم نسیم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مریم نسیم

مریم نسیم ایک خاتون خانہ ہونے کے ساتھ ساتھ فری لانس خاکہ نگار اور اینیمیٹر ہیں۔ مریم سے رابطہ اس ای میل ایڈریس پر کیا جا سکتا ہے maryam@maryamnasim.com

maryam-nasim has 65 posts and counting.See all posts by maryam-nasim