جنگ اور امن کے موضوع پر سعادت حسن منٹو کی ایک نایاب تحریر


بین الاقوامی سیاست اتنی پیچ دار اور اُلجھی ہوئی ہے کہ اس کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِن بھول بھلّیو ں میں اِنسان گُم ہو کر رہ جاتا ہے۔

تحدیدِ اسلحہ کے متعلق آپ نے بیسیوں مرتبہ اخباروں میں پڑھا لکھا ہو گا مگر سچ کہئے کہ آپ نے اِس کے متعلق کیا سمجھا؟ لیکن میں آپ کی عقل و دانش کا امتحان لینا نہیں چاہتا۔ میں نے اِس کے متعلق جو کچھ سمجھا ہے، وہ نہایت سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اِس طور پر کہ بچے کو بھی غلط فہمی نہ ہو سکے۔ فرض کر لیجئے کہ آ پ اور میں ذرا کم سمجھ والے واقع ہوئے ہیں۔ میرے پاس تکیہ ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ تکیہ میں آپ کے سر پر دے ماروں۔ آپ کے پاس ایک انڈہ ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ اسے میرے سر پر پھوڑ دیں گویا تکیہ اور انڈہ ہمارے اسلحہ ہیں۔ امن قائم رکھنے کی خاطر ہم آپس میں سمجھوتہ کرنے کے لیے تحدیدِ اسلحہ کی ایک مجلس منعقد کرتے ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ آپ اپنے لیے ایک تکیہ رکھنے کے حقوق حاصل کریں گے اور میں ایک انڈہ رکھنے کا حق طلب کروں گا۔ گویا ہم دونوں کے پاس ایک دوسرے کو برابر کا ضر رپہنچانے کا سامان ہو گا۔ ہم دونوں میں سے کسی کو حق نہیں ہو گا کہ دوسرے کے مشورے کے بغیر اپنے ہتھیاروں میں اضافہ کر کے باہمی امن کو خطرے میں ڈالے۔ اب کچھ دیر کے بعد میں آپ کی توجہ اِس امر کی طرف مبذول کراتا ہوں کہ آپ کے پاس ایک قلم تراش ہے جو وقت پر مہلک ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ سن کر آپ میری توجہ اِس اَمر کی طرف مبذول کراتے ہیں کہ میری ملکیت میں ایک کلہاڑی ہے جس سے میں ایک ہی ضرب سے گردن اُڑا سکتا ہوں۔ اِس پر ہمارے دلوں میں دفعتاً جذبہ امن پسندی کروٹ لیتا ہے اور میں جھٹ سے ایک قلم تراش خرید لیتا ہوں اور آپ اوّلین فرصت میں کلہاڑی لے آتے ہیں۔ اب حالات بین الاقوامی سیاسیات کی طرح ترقی پذیر ہو جاتے ہیں اور ایک روز میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میرے ہتھیاروں کے جواب میں آپ کے پاس بھی اس قسم کے ہتھیار موجود ہیں اِس لیے مجھے بازار سے پستول خریدنے میں کوئی دیر نہ کرنی چاہیے۔ بات باون تولے پاﺅ رتی کی ہے۔ جب میں پستول خرید لاتا ہوں تو آپ پستول کے ساتھ ساتھ ایک چمکیلی تلوار بھی لے آتے ہیں۔ اب فطری طور پر میں بھی تلوار خرید لاتا ہوں اور ساتھ ساتھ تحدیدِ اسلحہ کے جذبے کے ماتحت ایک مشین گن بھی گاڑی پر لدوا کر لے آتا ہوں۔ تو سمجھ لیجئے کہ اب امن و امان قائم ہونے میں کوئی دیر نہیں، آپ دوڑ کر بہترین اسلحہ ساز کے یہاں سے ایک عمدہ قسم کا تباہ کن ٹینک لے آتے ہیں اور لگے ہاتھوں ایک بڑا سا بم بھی خرید لیتے ہیں۔ جس سے میرے گھر کی چھت بھک سے اُڑائی جا سکتی ہے۔

خاکسار بھی آپ کی دیکھا دیکھی دو ایک گولے گھر میں ڈال لیتا ہے اور بطور حفظِ ماتقدم گیس بنانے والوں کو چند سلنڈر زہریلی گیس تیار کرنے کی فرمائش بھی کر ڈالتا ہے۔ اِس گیس سے آپ کے بال بچوں کا رنگ پیلا پڑ سکتا ہے اور آپ کے چہرے پر سوکھے ہوئے بینگن کی طرح جھریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اِس پر آپ اس قسم کی گیس تلاش کر لیتے ہیں جو میرے سر، میری ٹانگوں اور میرے بازوﺅں کو سرے سے غائب ہی کر دے۔ پھر آپ احتیاطاً ایک بم بار طیارہ بھی اپنے گھر میں لے آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کچھ اس طرح غیر مسلح ہو جاتے ہیں کہ ہمارے درمیان جنگ کا خیال ہی نہیں کیا جا سکتا۔ تھوڑے دنوں کے بعد ہم ایک دوسرے کو بالکل فنا کر دیتے ہیں۔ مگر یہ تباہی اتفاقی ہو گی۔ اِس کا کچھ خیال نہیں کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).