شاداں۔۔۔ منٹو افسانے سے مسواک نہیں کرتا تھا (1)


خان بہادر محمد اسلم خان کے گھرمیں خوشیاں کھیلتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اورصحیح معنوں میں کھیلتی تھی۔ ان کی دو لڑکیاں تھیں۔ ایک لڑکا۔ اگر بڑی لڑکی کی عمرتیرہ برس کی ہوگی تو چھوٹی کی یہی گیارہ ساڑھے گیارہ۔ اور جو لڑکا تھا گو سب سے چھوٹا مگر قد کاٹھ کے لحاظ سے وہ اپنی بڑی بہنوں کے برابر معلوم ہوتا تھا۔

تینوں کی عمر جیسا کہ ظاہر ہے اس دور سے گزررہی تھی جب کہ ہر آس پاس کی چیز کھلونا معلوم ہوتی ہے۔ حادثے بھی یوں آتے ہیں، جیسے ربڑ کے اڑتے ہوئے غبارے۔ ان سے بھی کھیلنے کو چاہتا ہے۔

خان بہادر محمد اسلم کا گھر خوشیوں کا گھر تھا۔۔۔۔۔۔ اس میں سب سے بڑی تین خوشیاں، اس کی اولاد تھیں۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب۔ یہ تینوں اسکول جاتے تھے جیسے کھیل کے میدان میں جاتے ہیں۔ ہنسی خوشی جاتے تھے۔ ہنسی خوشی واپس آتے تھے اور امتحان یوں پاس کرتے تھے جیسے کھیل میں کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جائے۔ کبھی فریدہ فرسٹ آتی تھی، کبھی نجیب اور کبھی سعیدہ۔

خان بہادر محمد اسلم بچوں سے مطمئن، ریٹائرڈ زندگی بسر کررہے تھے انھوں نے محکمہ زراعت میں بتیس برس نوکری کی تھی۔ معمولی عہدہ سے بڑھتے بڑھتے وہ بلند ترین مقام پر پہنچ گئے۔ اس دوران میں انھوں نے بڑی محنت کی تھی، دن رات دفتری کام کیے تھے۔۔۔۔۔۔ اب وہ سستا رہے تھے۔ اپنے کمرے میں کتابیں لے کر پڑے رہتے اور ان کے مطالعے میں مصروف رہتے۔ فریدہ، سعیدہ اور نجیب کبھی کبھی ماں کا کوئی پیغام لے کر آتے تو وہ اس کا جواب بھجوا دیتے۔

ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے اپنا بستر وہیں اپنے کمرے میں لگا لیا تھا۔ دن کی طرح ان کی رات بھی یہیں گزرتی تھی۔۔۔۔۔۔ دنیا کے جھگڑے ٹنٹنوں سے بالکل الگ۔ کبھی کبھی ان کی بیوی جو ادھیڑ عمر کی عورت تھی ان کے پاس آجاتی اور چاہتی کہ وہ اس سے دو گھڑی باتیں کریں مگر وہ جلد ہی اسے کسی بہانے سے ٹال دیتے۔ یہ بہانہ عام طور پر فریدہ اور سعیدہ کے جہیز کے متعلق ہوتا’’جاؤ، یہ عمر چونچلے بگھارنے کی نہیں۔۔۔۔۔۔ گھر میں دو جوان بیٹیاں ہیں، ان کے دان دہیج کی فکر کرو۔۔۔۔۔۔ سونا دن بدن مہنگا ہورہاہے۔ دس بیس تولے خرید کر کیوں نہیں رکھ لیتیں۔۔۔۔۔۔ وقت آئے گا تو پھر چیخو گی کہ ہائے اللہ ، خالی زیوروں پر اتنا روپیہ اٹھ رہا ہے۔‘‘

یا پھر وہ کبھی اس سے یہ کہتے۔’’فرخندہ خانم۔۔۔۔۔۔ میری جان ہم بڈھے ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔۔تمہیں اب میری فکر اور مجھے تمہاری فکر ایک بچے کی طرح کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔میری ساری پگڑیاں لیرلیر ہو چکی ہیں مگر تمہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ ململ کے دو تھان ہی منگوالو۔۔۔۔۔۔ دو نہیں چار۔۔۔۔۔۔ تمہارے اور بچیوں کے دوپٹے بھی بن جائیں گے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم کیا چاہتی ہو؟۔۔۔۔۔۔ اور ہاں وہ میری مسواکیں ختم ہوگئی ہیں۔‘‘

فرخندہ، خان بہادر کے پلنگ پر بیٹھ جاتی اور بڑے پیار سے کہتی۔’’ساری دنیا برش استعمال کرتی ہے۔ آپ ابھی تک پرانی لکیر کے فقیر بنے ہیں۔‘‘

خان بہادر کے لہجے میں نرمی آجاتی۔’’ نہیں فرخندہ جان۔۔۔۔۔۔ یہ برش اورٹوتھ پیسٹ سب واہیات چیزیں ہیں۔‘‘

فرخندہ کے ادھیڑ چہرے پر لکیروں کی کوڑیاں اور مولیاں سی بکھر جاتیں۔۔۔۔۔۔ مگر صرف ایک لحظے کے لیے خان بہادر اس کی طرف دیکھتے اور باہر صحن میں بچوں کی کھیل کود کا شور و غل سنتے ہوئے کہتے’’فرخندہ۔۔۔۔۔۔ تو کل ململ کے تھان آجائیں۔۔۔۔۔۔ اور لٹھے کے بھی۔‘‘ لیکن فوراً ہی معلوم نہیں کیوں ان کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ جاتی اور وہ فرخندہ کو منع کردیتے۔’’نہیں نہیں، لٹھا منگوانے کی ابھی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔!‘‘

باہر صحن میں بچے کھیل کود میں مصروف ہوتے۔ سہ پہر کو شاداں عموماً ان کے ساتھ ہوتی۔ یہ گو نئی نئی آئی تھی۔ لیکن ان میں فوراً ہی گھل مل گئی تھی۔ سعیدہ اور فریدہ تو اس کے انتظار میں رہتی تھیں کہ وہ کب آئے اور سب مل کر’’لکن میٹی‘‘ یا کِھدو‘‘کھیلیں۔

شاداں کے ماں باپ عیسائی تھے۔ مگر جب سے شاداں خان بہادر کے گھر میں داخل ہوئی تھی۔ فریدہ کی ماں نے اس کا اصلی نام بدل کر شاداں رکھ دیا تھا۔ اس لیے کہ وہ بڑی ہنس مکھ لڑکی تھی اور اس کی بچیاں اس سے پیار کرنے لگی تھیں۔

شاداں صبح سویرے آتی تو فریدہ، سعیدہ اور نجیب اسکول جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے۔ وہ اس سے باتیں کرنا چاہتے مگر ماں ان سے کہتی ’’بچو جلدی کرو۔۔۔۔۔۔ اسکول کا وقت ہورہا ہے۔‘‘

اور بچے جلدی جلدی تیاری سے فارغ ہو کر شاداں کو سلام کہتے ہوئے اسکول چلے جاتے۔

سہ پہر کے قریب شاداں جلدی جلدی محلے کے دوسرے کاموں سے فارغ ہو کرآجاتی اور فریدہ، سعیدہ اور نجیب کھیل میں مشغول ہو جاتے اور اتنا شور مچتا کہ بعض اوقات خان بہادر کو اپنے کمرے سے نوکر کے ذریعے سے کہلوانا پڑتا کہ شور ذرا کم کیا جائے۔۔۔۔۔۔یہ حکم سن کر شاداں سہم کر الگ ہو جاتی، مگر سعیدہ اور فریدہ اس سے کہتیں’’کوئی بات نہیں شاداں۔۔۔۔۔۔ ہم اس سے بھی زیادہ شور مچائیں تو وہ اب کچھ نہیں کہیں گے۔ ایک سے زیادہ بار وہ کوئی بات نہیں کہا کرتے۔‘‘

اور کھیل پھر شروع ہو جاتا۔کبھی لکن میٹی، کبھی کِھدو اور کبھی لوڈو۔

لوڈو، شاداں کو بہت پسند تھی، اس لیے کہ یہ کھیل اس کے لیے نیا تھا۔ چنانچہ جب سے نجیب لوڈو لایا تھا، شاداں اسی کھیل پر مصر ہوتی۔ مگر فریدہ، سعیدہ اور نجیب تینوں کو یہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس میں کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ بس وہ جو’’چٹو‘‘ سا ہوتا ہے، اس میں پانسہ ہلاتے اور پھینکتے رہو اور اپنی گوٹیں آگے پیچھے کرتے رہو۔

شاداں کھلی کھلی رنگت کی درمیانے قد کی لڑکی تھی۔ اس کی عمر فریدہ جتنی ہوگی مگر اس میں جوانی زیادہ نمایاں تھی۔۔۔۔۔۔ جیسے خود جوانی نے اپنی شوخیوں پر لال پنسل کے نشان لگا دیے ہیں۔۔۔۔۔۔ محض شرارت کے لیے۔ ورنہ فریدہ اور سعیدہ میں وہ تمام رنگ، وہ تمام لکیریں، وہ تمام قوسیں موجود تھیں جو اس عمر کی لڑکیوں میں ہوتی ہیں۔ لیکن فریدہ، سعیدہ اور شاداں جب پاس کھڑی ہوتیں تو شاداں کی جوانی زیر لب کچھ گنگناتی معلوم ہوتی۔

کھلی کھلی رنگت۔ پریشان بال اور دھڑکتا ہوا دوپٹہ جو کس کر اس نے اپنے سینے اور کمرکے اردگرد باندھا ہوتا۔ ایسی ناک، جس کے نتھنے گویا ہوا میں انجانی خوشبو میں ڈھونڈنے کے لیے کانپ رہے ہیں۔ کان ایسے جو ذرا سی آہٹ پر چونک کر سننے کے لیے تیار ہوں۔

چہرے کے خد وخال میں کوئی خوبی نہیں تھی۔ اگر کوئی عیب گننے لگتا تو بڑی آسانی سے گن سکتا تھا، صرف اسی صورت میں اگر اس کا چہرہ اس کے جسم سے الگ کرکے رکھ دیا جاتا۔ مگر ایسا کیا جانا ناممکن تھا، اس لیے کہ اس کے چہرے اور اس کے بقایا جسم کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جس طرح چولی علیحدہ کرنے پر جسم کے آثار اس میں باقی رہ جاتے ہیں، اسی طرح اس کے چہرے پر بھی رہ جاتے اور اس کو پھر اس کی سالمیت ہی میں دیکھنا پڑتا۔

شاداں بے حد پھرتیلی تھی۔ صبح آتی اور یوں منٹا مٹنی میں اپنا کام ختم کرکے یہ جا وہ جا۔ سہ پہر کو آتی۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھیل کود میں مصروف رہتی۔ جب خان بہادر کی بیوی آخری بار چلا کر کہتی۔’’شاداں، اب خدا کے لیے کام تو کرو۔‘‘ تو وہ وہیں کھیل بند کرکے اپنے کام میں مشغول ہو جاتی۔ ٹوکرہ اٹھاتی اور دو دو زینے ایک جست میں طے کرتی کوٹھے پر پہنچ جاتی۔ وہاں سے فارغ ہو کر دھڑ دھڑ دھڑ نیچے اترتی اور صحن میں جھاڑو شروع کردیتی۔

اس کے ہاتھ میں پھرتی اور صفائی دونوں چیزیں تھیں۔ خان بہادر اور اس کی بیوی فرخندہ کو صفائی کا بہت خیال تھا، لیکن مجال ہے جو شاداں نے کبھی ان کو شکایت کا موقع دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے کھیل کود پر معترض نہیں ہوتے تھے۔ یوں بھی وہ اس کو پیار کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ روشن خیال تھے، اس لیے چھوت چھات ان کے نزدیک بالکل فضول تھی۔

شروع شروع میں تو خان بہادر کی بیوی نے اتنی اجازت دی تھی کہ لکن میٹی میں اگر کوئی شاداں کو چھوئے تو لکڑی استعمال کرے اور اگر وہ چھوئے تو بھی لکڑی کا کوئی ٹکڑا استعمال کرے، لیکن کچھ دیر کے بعد یہ شرط ہٹا دی گئی اور شاداں سے کہا گیا کہ وہ آتے ہی صابن سے اپنا ہاتھ منہ دھو لیا کرے۔

جب شاداں کی ماں کمانے کے لیے آتی تھی تو خان بہادر اپنے کمرے کی کسی چیز سے اس کو چھونے نہیں دیتے تھے، مگر شاداں کو اجازت تھی کہ وہ صفائی کے وقت چیزوں کی جھاڑ پونچھ بھی کرسکتی ہے۔

صبح سب سے پہلے شاداں، خان بہادر کے کمرے کی صفائی کرتی تھی۔ وہ اخبار پڑھنے میں مشغول ہوتے۔ شاداں ہاتھ میں برش لیے آتی تو ان سے کہتی’’خان بہادر صاحب۔۔۔۔۔۔ ذرا برآمدے میں چلے جائیے!‘‘

خان بہادر اخبارسے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھتے شاداں فوراً ان کے پلنگ کے نیچے سے ان کے سلیپر اٹھا کر ان کو پہنا دیتی اور وہ برآمدے میں چلے جاتے۔

جب کمرے کی صفائی اور جھاڑ پونچھ ہو جاتی تو شاداں دروازے کی دہلیز کے پاس ہی سے کمر میں ذرا سا جھانکنے کا خم پیدا کرکے خان بہادر کو پکارتی’’آجائیے خان بہادر صاحب۔‘‘

خان بہادر صاحب اخبار اور سلیپر کھڑکھڑاتے اندر آجاتے۔۔۔۔۔۔ اور شاداں دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتی۔

مزید پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).