ربوہ ریلوے سٹیشن کا گراؤنڈ زیرو اور 1974


جے اے رحیم ، بھٹو کے قریبی دوست اور پیپلز پارٹی کے اولین بانیوں میں سے ایک نمایاں شخصیت تھے۔ طبیعت کے تیز واقع ہوئے تھے اور بائیں بازو کی سیاست کو ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔ بھٹو کا عروج تھا۔ کابینہ کا اجلاس طلب کیا مگر نوے منٹ گزر گئے اور بھٹو صاحب تشریف نہ لائے۔ جے اے رحیم نے بہت انتظار کے بعد جلال میں آ کر بھٹو کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ کہنے لگے کہ ربوہ ریلوے اسٹیشن کا واقعہ بھٹو نے خود کروایا تھا تاکہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا سکے۔ بھٹو کو خبر ہوئی تو جے اے رحیم کے گھر سیکیورٹی افسر بھیج کر ان کی برطرفی کی اطلاع دی اور کہا جاتا ہے کہ ان کی پٹائی بھی کروائی۔ اس کے بعد جے اے رحیم بجھے بجھے رہنے لگے اور بھٹو کی شفقت کے لوٹنے کے بعد بھی ان کا دل صاف نہ ہوا۔ اسی عالم میں ان کا انتقال ہوا۔

ربوہ ریلوے سٹیشن واقعہ وہ ‘گراؤنڈ زیرو‘ ہے جس کو بنیاد بنا کر بھٹو حکومت نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ نشتر میڈیکل کالچ کے لڑکوں نے ایک تفریحی دورہ کے دوران ربوہ ٹرین رکنے پر ہلڑ بازی کی۔ صمدانی کمیشن رپورٹ گم ہو گئی ورنہ معلوم ہو جاتا کہ فساد کا آغاز ریل گاڑی کے ڈبوں سے ہوا یا پھر پلیٹ فارم سے۔ نشتر کالج کے چند طلباء کو خفیف چوٹیں آئیں۔ لیکن واقعہ کی شام لائلپور کے اخبارات نے کشت و خون کی وہ داستان سنائی کہ پڑھنے والوں کے دل دہل گئے۔ زبانیں کاٹنے اور مثلہ کرنے کے مناظر کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ربوہ سے آئی ٹرین ابھی پلیٹ فارم پر لگی ہی تھی کہ اخباروں کے ضمیمے شائع ہو گئے۔ اس واقعہ کے مضروبوں اور ‘شہیدوں‘ کا پھر کچھ پتہ نہیں چلا۔ لیکن ملک بھر میں احمدی مخالف تحریک کا آغاز ہوا۔ درجنوں احمدی قتل ہوئے، ہزاروں بے گھر کئے گئے اور معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ نے سارے ملک کے احمدیوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ چند ماہ بعد ہی اسمبلی کی کارروائی کے بعد احمدی غیرمسلم قرار پائے اور بھٹو نے اس کارنامے کا تمغہ اپنے سینے پر سجا لیا۔

مجھے جے اے رحیم کے ان الفاظ کی سچائی پر شک تھا کہ شائد غصے میں جو منہ میں آیا کہہ گئے۔ لیکن اس پر مزید مطالعہ اور تحقیق کی تو ان کے الزام میں سچائی معلوم ہوتی ہے۔

جماعت احمدیہ ہر سال مجلس شوریٰ منعقد کرتی ہے۔ سن تہتر میں عام شوریٰ ہوئی اور اس کے چند ماہ بعد خلیفہ ثالث مرزا ناصر احمد صاحب نے ایک ہنگامی مجلس شورٰی بلوائی۔ اس میں خطاب کے دوران انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف ہونے والی ایک سازش کا ذکر کیا جو پیپلز پارٹی کے چند اراکین اور دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے مابین بنی جا رہی تھی۔ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ چند سازشی عناصر ربوہ میں موجود منافقین کی مدد سے جماعت احمدیہ پر کاری ضرب لگانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

فروری چوہتر میں بھٹو نے اسلامی کانفرنس کی میزبانی کی۔ اس کانفرنس کے شرکاء کو احمدی مخالف لٹریچر پہنچانے کی خاص کوششیں ہوئیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن، بھٹو کے دست راست رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ بھٹو اس وقت تک احمدی مخالف عناصر کے کرتوتوں کو ناپسند کرتے تھے لیکن وہ بے بس تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کو یقین تھا کہ ان عناصر کے تانے بانے سعودی فرمانروا شاہ فیصل اور ان کے منظور نظر رابطہ عالم اسلامی سے ملتے تھے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ شاہ فیصل اور بھٹو کے عالمی لیڈرشپ کے عزائم مشترکہ ہونے کی شرط احمدیوں کی بیخ کنی رکھا گیا تھا۔ بھٹو نے یہاں سودا کر لیا اور پارلیمنٹ کو آلہ کار بنا کر یہ فیصلہ کر ڈالا۔

ربوہ کا واقعہ ہونے سے ایک ماہ قبل پاکستانی سیکرٹری اوقاف سعودیہ عرب میں رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد پر دستخط کر آئے کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس منصوبے کے لئے تمام سامان مہیا ہو چکے تھے بس ایک چنگاری کی ضرورت تھی جو ربوہ میں بھڑکائی گئی۔

ملتان سے تفریحی دورہ پر آنے والے گروپ کی روانگی کا وقت اور ریل گاڑی بدلی گئی تاکہ ربوہ کا سٹاپ سفر میں شامل کیا جائے۔ پھر طالبات اور ان کے والدین کو اس سفر پر جانے سے منع کر دیا گیا۔ 22 مئی کو ربوہ سٹیشن پر ریل رکی تو ان طلباء نے خوب مغلظات بکے اور سٹیشن پر موجود لوگوں کو طیش دلانے اور دلازاری کی بھرپور کوشش کی۔ اس روز کچھ نہ ہوا۔ لیکن جاتے جاتے ان طلباء نے 29 مئی کو واپسی پر مزید ہنگامے کا وعدہ کیا۔ واپسی پر جھگڑا ہوا اور چند طلباء زخمی ہوئے۔ سپیکر قومی اسمبلی صاحبزادہ فاروق علی نے ایک موقع پر سوال اٹھایا کہ کیا ان طلباء کو کسی اور راستے واپس نہیں لایا جا سکتا تھا۔ لازم تھا کہ وہ پھر ربوہ رکیں؟ اس کا جواب کسی سے بن نہیں پڑا۔ بھٹو نے حنیف رامےوزیر اعلیٰ پنجاب کو الزام دیا اور ان کی نیت پر شبہ ظاہر کیا۔

بھٹو اس کے بعد بیرونی ہاتھ، بیرونی ہاتھ کہتے رہے۔ انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ بیرونی ہاتھ ان کے کرمفرماؤں کے ہی ہیں جو خود بھی اسلامی خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں اور پاکستان کے شعلہ بیان، امریکہ دوست اور مقبول وزیر اعظم کو اپنا دست راست بنانا چاہتے ہیں۔

جسٹس صمدانی ایک انصاف پسند انسان تھے۔ ان کے ٹریبیونل کے حالات جو اس وقت کے اخبارات نے پیش کئے انہیں پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے ۔ ہمارے ملک کی سیاسی اور مذہبی لیڈرشپ کے جھوٹ اور پراگندہ خیالی صاف عیاں ہو جاتی ہے۔ اخباروں کہ شہ سرخیاں کچھ ایسی تھیں کہ قادیانی جرنیل بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے یہ سازش کر رہے ہیں اور یہ واقعہ احمدیوں نے خود کروایا ہے کیونکہ وہ بیرونی طاقتوں کے آلہ کار ہیں اور پاکستا ن کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ربوہ اسٹیشن پر کربلا کا نقشہ کھینچنے والوں کی حقیقت تب آشکار ہوئی جب جسٹس صمدانی نے اخباروں میں وضاحتی بیان جاری کیا کہ اس واقعہ میں کوئی شدید زخمی نہیں ہوا اور نہ ہی اعضاء کاٹے جانے اور ایسی دوسری ہولناک افواہوں کی کوئی حقیقت ہے۔ کمیشن کی رپورٹ حکومت پنجاب اور بھٹو صاحب کو پیش کر دی گئی۔ چونکہ اس میں حکومت کی مرضی کے نتایج اخذ نہیں کئے گئے تھے، وہ دن اور آج کا دن، رپورٹ منظر عام سے غائب ہے۔ کہتے ہیں کہ گم ہو گئی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے سب بڑے شہروں میں احمدیوں پر ظلم وستم کی نئی داستانیں رقم ہو رہی تھیں۔ بلوائی احمدیوں کو گھروں سے نکال نکال کر قتل کر رہے تھے۔ لیکن نہ ہی اخبارات نے کوئی خبر شائع کی، اور نہ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اس پر ایک لفظ ہی بولا گیا۔

احمد رضا قصوری بھٹو مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے ، وہ بھی اس کو حکومتی سازش قرار دے رہے تھے۔ بھٹو نے اس موضوع پر اسمبلی میں پہلی تقریر کی تو یہی لگتا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کو اس فتویٰ تکفیر کے لئے استعمال کرنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ یہاں احمد رضا قصوری نے بھٹو کو انگیخت کرنے کے لئے نکتہ اعتراض اٹھایا۔ بھٹو ابل پڑے اور قصوری کو برا بھلا کہا۔ ان کے یہی الفاظ مقدمہ قتل میں بطور ثبوت پیش ہوئے جس کے نتیجہ میں انہیں تختہ دار پر ٹانگ دیا گیا۔

بھٹو نے جس روز ملک کو مذہبی شدت پسندوں کے حوالے کرنے کا گناہ کیا، اسی روز انہوں نے اپنے انجام کی بنیاد بھی ڈال دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).