بابا، لڈو اور بھڑ


گرمیوں کے دن آ جاتے اور یوں آجاتے کہ ان کے آنے کا پتہ بھی نہ چلتا۔ دوپہریں لمبی اور گرم ہو جاتیں۔ گلیاں سنسان اور آنگن ویران ہو جاتے۔ لوگ کمروں میں، دالانوں میں، چھپروں کے نیچے جہاں سایہ میسر آتا گھس جاتے اور لمبی دوپہروں میں لمبی تان کے سو جاتے۔ سکول سے چھٹی ہوتی، گھر پہنچ کے نچلا بیٹھنا کہاں بس میں ہوتا۔ یہ بستہ دھرا، وہ دو نوالے روٹی کے نگلے اور یہ جا وہ جا گھر سے باہر دوڑ لگا دی اماں آوازیں دیتی رہ جاتیں اور وہ ہمارے کان ہی کیا ہوئے جو اس موقع پہ کچھ سننے کو تیار ہوں۔

بغل میں حویلی تھی جو سمجھیں باڑے اور اصطبل کا کام دیتی۔ ایک ڈیوڑھی تھی جس کی دو محراب نما دو فٹ کی نانک شاہی اینٹوں کی ڈاٹیں تھیں۔ ایک گلی کی طرف اور ایک صحن کی جانب۔ آگے اینٹ روڑے کا صحن تھا جس میں تین چار کھرلیاں دھری تھیں۔ پربت کی طرف جو دیوار تھی اس کے ساتھ ناند بنی ہوئی تھی جس سے متصل ایک نلکہ تھا۔ ناند پہ گھوڑوں اور بھینسوں کو پانی پلایا جاتا تھا۔ صحن کی دوسری طرف ایک برآمدہ اور اس سے ملحقہ ایک کمرہ تھا جس میں توڑی یا چارہ رکھا جاتا۔

حویلی کے سامنے ہماری چوپال تھی۔ دو ستون اور ان دو ستونوں سے ٹنگے دو لکڑی کے بہت بڑے بڑے کواڑ۔ یہ چوپال کا داخلی دروازہ تھا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ ہو چکا تھا چوپال کو بنے۔ عرصہ ہوا کواڑوں کے اعصاب جواب دے چکے تھے نیچے سے ایک ایک فٹ مٹی میں دھنس چکے تھے۔ نہ کھلتے تھے نہ بند ہوتے تھے کوئی آئے کوئی جائے انہیں اس سے کو غرض نہیں تھی۔ حویلی اور چوپال میں کھیلتے ہوئے گرم دوپہروں کے گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا۔

چوپال میں چار کمرے تھےدو بائیں ہاتھ دو سامنے۔ دونوں کے آگے برآمدے تھے۔ بائیں برآمدے کے گول ستون تھے کوئی دو فٹ قطر کے اوپر سفید سیمنٹ کا لیپ تھا۔ ستونوں کے اوپر سیمنٹ کی جالی کے چوکھٹے سے بنے ہوئے تھے۔ جس میں چڑیوں کبوتروں نے گھونسلے بنا رکھے تھے۔ ایک کمرے میں کئی زمانوں کا کاٹھ کباڑ رکھا تھا اس کے دروازے پر ہر وقت ایک زنگ آلود تالا پڑا رہتا۔ دوسرے کمرے میں ایک رانگلا نواری پلنگ تھا جس پہ حقہ گڑگڑاتے ہوئے بابا خیال محمد چوکیدار ساری دوپہر کچھ کھانستے کچھ اونگھتے گزار دیتا۔ لوگوں نے اس کا نام بگاڑ کر خیالو کردیا تھا۔

گرم دوپہر میں گاؤں کی گلیوں میں بھڑیں بہت نکل آتیں۔ بابو لوہار، اختر موچی، شادا تیلی اور میں بھڑوں کو پکڑتے ان کے ڈنک نکالتے اور ٹانگوں کے ساتھ دھاگے باندھ کر انہیں اڑائے اڑائے پھرتے۔ کبھی گلی ڈنڈا کھیل رہے ہیں تو کبھی گڈی چیرا۔ کبھی لڈو چل رہی ہے تو کبھی چھپن چھپائی۔ انہی کھیلوں سے وہ گرم دوپہروں کے دن گل و گلزار تھے۔ ایک دن لڈو کا موڈ بنا۔ لڈو ہم نواری پلنگ پہ کھیلتے تھے۔ بابا خیال محمد پلنگ پہ مردوں سے شرط باندھے سو رہا تھا اور خراٹوں کے عجیب وغریب راگ اگل رہا تھا۔ کافی دیر تک منڈلی اس کے جاگنے کا انتظار کرتی رہی۔ پراس کا تو شاید منکر نکیر سے کافی لمبا مکالمہ چل رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ کبھی نہ اٹھنے کے لیے آج اس نے سونے کی ٹھان لی ہے۔

ادھر ہماری منڈلی کا اضطراب بڑھنے لگا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پلنگ کا قبضہ چھڑائیں بھی تو کیسے چھڑائیں۔ بلآخر بابو لوہار کے شیطانی دماغ میں پتہ نہیں کیا فتور گھسا کہ اس نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی، تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس نے پروں کی طرف سے زندہ سلامت بھڑ پکڑ رکھی تھی اور اس کا ڈنک بھی نہیں نکالا تھا۔ بابو نے بابے خیال محمد کی دھوتی کا پلو اٹھایا اور بھڑ دونوں ٹانگوں کے درمیان چھوڑ دی۔ اب پتہ نہیں بھڑ نے کن کن مقامات مخصوصہ پر کس کس طرح سے جا کاٹا کہ بابے کی نیند ایک دم ٹوٹ گئی بابا یک دم چیختے ہوئے پلنگ پہ اچھل پڑا۔ دھوتی جھاڑتے ہوئے یوں اٹھا جیسے ایک دم کرنٹ لگا ہو۔ جیسے ہی اس کی نظر ہماری قہقہے لگاتی ٹولی پر پڑی۔ مغلظات کے ایک طوفان کا رخ ہمارے طرف ہو گیا۔ بھڑ سے تنگ آ کر بابے نے دھوتی وہیں اتار پھینکی اور ڈانگ اٹھا کر ہمارے پیچھے دوڑا۔ ہم آگے آگے اور وہ پیچھےپیچھے، عجب تماشا سا لگ گیا۔ ہم وہاں سے یوں دم دبا کر بھاگے کہ بعد میں کتنی ہی گرم دوپہروں میں ہمیں پھر چوپال میں گھسنے کی ہمت نہ ہوسکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).