بڑے شہر والے مہمان نواز نہیں ہوتے


چندو نے شکوہ کیا کہ تم بڑے شہروں میں رہنے والے لوگ مہمان نواز نہیں ہوتے۔ مہمانوں کو وقت نہیں دیتے، ان کی پوری طرح خدمت نہیں کرتے۔ جبکہ تم لوگ کبھی کسی گاؤں چلے جاؤ تو تمھیں اندازہ ہوگا کہ وہاں جو لوگ تمھیں جانتے بھی نہیں وہ بھی تمھاری مہمان نوازی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

چندو کی بات پر میں اور کیا کہتا سرتسلیم خم کیا۔ اس کا شکوہ بجا تھا۔ پھر میں نےعرض کیا کہ یارا ایک بات بتاؤ۔ کسی گاؤں کی آبادی کتنی ہوتی ہوگی؟ وہ بولا چند سو۔ یا چند ہزار۔

میں نے کہا کہ یہ بتاؤکہ کسی چند سو کی آبادی میں ایک مہمان کے بجائے دس مہمان وارد ہوجائیں۔ اور پھر یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگے۔ اور ساتھ ساتھ مہمانوں کی تعداد میں بھی ہر روز اضافہ ہونے لگے تو اس گاؤں کی مہمان نوازی کی حِس پر کیا اثر پڑے گا؟
چندو بولا کہ، گاؤں والے پھر بھی حتی الامکان کوشش کریں گے کہ مہمانوں کی جتنی خدمت ہوسکے کریں۔

میں نے عرض کی کہ، اگر روزانہ درجنوں مہمان گاؤں آنے لگیں اور ساتھ ہی وہاں مستقل سکونت بھی اختیار کرنے لگیں تو کیا پھربھی گاؤں والے ان کی ویسی ہی مہمان نوازی کریں گے؟
اس سوال پر وہ سٹپٹا گیا۔ کہنے لگا کہ پھر تو ان کی مہمان نوازی ممکن نہ ہوسکے گی، البتہ پڑوسیوں کا رشتہ ضرور قائم ہوجائے گا۔

اس بات پر میں نے عرض کیا کہ بڑے شہر اس گاؤں سے بھی زیادہ مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ کراچی اور لاہور کی ہی مثال لے لیجیے۔ ان شہروں میں ہر ماہ ہزاروں نئے مہمان وارد ہوتے ہیں۔ مہمانوں کی شکلیں اورنسلیں اس قدر عام ہوچکی ہیں کہ یہ اندازہ لگانا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ کون نووارد ہے اور کون پہلے سے یہاں رہ رہا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو واقعی یہاں نو وارد ہوتا بھی ہوگا تو وہ بے چارہ دل میں یہی سوچ رہا ہوتا ہوگا کہ اسے دیکھ کر کسی نے کوئی نوٹس ہی نہیں لیا۔

بڑے شہروں کے اپنے مسائل اور رویے ہوتے ہیں۔ ان رویوں کو کوئی نام دینے سے پہلے شہر اور شہر والوں کے حالات اور مسائل سے آگاہی ہونا بہت ضروری ہے۔

بے چارے بڑے شہروں والے لوگ، شہر کے لائف اسٹائل اور ضرورتوں کی دوڑ سے ہی باہر ہی نہیں نکل پاتے۔ ایسے میں یہ لوگ اجنبی مہمان تو دور کی بات، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی وہ سلوک نہیں کرپاتے جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ لوگ بس اپنی روز مرہ کی ضرورتیں اور اپنے مسائل کے حل میں ہی لگے رہتے ہیں۔ چندو نے اس بات سے اتفاق کیا، کیونکہ وہ خود بھی طویل عرصے سے شہر میں ہی رہ رہا تھا۔

شہر روز روز بڑے سے بڑے ہوتے جارہے ہیں، ، شہروں کا پھیلاؤ روکنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی۔ حالانکہ چودہ سو برس پہلے ہی نبی پاکؐ نے بھی اس مسئلے کا حل بتا دیا تھا۔ کہ شہر جب بڑے ہونے لگیں تو نئے شہر بسا دیا کرو۔

کراچی جیسا شہر اب اپنے اندر سینکڑوں چھوٹے شہر سموئے ہوئے ہے۔ دو سو سے زائد تھانے ہیں۔ ہرتھانے کی حدود میں چارسے پانچ لاکھ لوگ آباد ہیں۔ پشاور شہرسے زیادہ کے پی کے کے لوگ کراچی میں بستے ہیں۔ بہاولپور اور ملتان سے زیادہ سرائیکی کراچی کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہی تناسب ملک کے دیگرعلاقوں سے کراچی میں آکر بسنے والوں کا بھی ہے۔

کراچی میں تھوڑی جگہ میں ایک جم غفیر قیام پذیر ہو چکا ہے۔ مہمان اور میزبان کی شناخت ہی باقی نہیں رہی۔ ایسے میں اب نہ مہمان نوازی باقی بچی ہے۔ اور نہ ہی میزبان پر مہربانی۔ شہر ہے کہ جلسہ گاہ کی طرح بھرتا ہی جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).