پوسٹ ماڈرن مین Post Modern Man


مغرب کا انسان یونانی دیومالا کے نارسیسیس کا بھائی ہے۔ اپنے عکس سے خوش ہے۔ اس کا آئینہ، اس کا دریا زبان ہے۔ دریائے معنی جو اس کی نظروں کے سامنے بہہ رہا ہے، مغرب کے لکھنے والے بڑے اذہان اسی کی نت نئی، پر شکوہ اور خوبصورت تصاویر بنا رہے ہئں اور یہ ذہن محوِ دید ہے۔ حقیقت جس سے کہ نارسیسیس لاتعلق تھا، موجود تو تھی مگر اس کے لئے نہیں۔ نطشے نے دعوی کر دیا کہ خدا مر گیا، ڈی ایچ لارنس نے بتایا انسانی تعلقات کا نظام فنا ہوا اور مارلرو نے دعویٰ کیا کہ انسان مر گیا۔ یہ تمام باتیں اس انسان سے کی جا رہی ہیں جو شیدائی ہے، شیدا ہے اپنے عکس کا۔ جس ے لئے اس کے عکس سے باہر کوئی حقیقت موجود نہیں ہے۔

جس ترتیب سے مغربی ذہن نے ترقی کی ہے وہ کچھ یوں ہے: انسان، تجزیاتی عقل، جذبہ، حسیات، نتاتات و حیوانات، اور غیر نامیاتی مادہ۔ یہ کہنا تھا جناب حسن عسکری صاحب کا، اس میں اگر کسی اور جزو کا اضافہ کیا جا سکتا ہے تو وہ ہے لایعنیت۔ سترھویں صدی تک کا انسان خود اپنے مقدم ہونے پر نازاں تھا، پھر اپنی عقل پر، پھر اپنے احساس پر، پھر احساس کے نادیدہ عناصر پر۔ ان تمام ادوار میں ایک قدرِ مشترک ملتی ہے اور وہ ہے معنویت۔ مگر آج کا آدمی معانی کی مرکزیت کا منکرہے، دریدہ کے زیرِ اثر ہے شاید۔ چونکہ کچھ بھی قابلِ اطمینان نہیں رہا، اس لئے لایعینت خود جستجو کے قابل ایک ہدف بن گئی ہے۔

آج کا ذہن انسان کو نظام کا قیدی ماننے سے انکاری ہےمگر طاقت کو اول و آخر گردانتا ہے۔ نظام جو اس نے بنایا ہے، ایک سہولت نہیں ہے، بلکہ نئی قسم کی قید ہے۔ مسئلہ کچھ گہرا ہے۔ چونکہ ہر چیز تبدیلی کی خوگر ہے اور ناقابلِ تبدیل مرکز کا انکار آج کا اسمِ اعظم ہے، اس لئے سب کی سب حرکت صرف برائے حرکت ہے، بغیر کسی طے شدہ مقصدیت یا معنویت کے تعین کے۔ ماضی میں رائج کسی بھی نظام کو پوری طرح رد کر دیا گیا ہے اور ان مباحث سے یکسر دستبرداری ہی آزادی بن گئی ہے۔ یہ خود میں ایک طرح کا جمود ہے جو پور ی ذہنی فضاء کو بودار مادے سے بھر رہی ہے۔ اعتقادات، عبادات اور اخلاقیات میں سے پہلے دو تو مر گئے ہیں اور تیسرے کو منظم کر لیا گیا ہے۔

معاشرتی قوتوں کا سارا زور مروج الوقت اصالیب کی تخریب اور پھر نئے بت بنانے پر ہے جو موزوں وقت پر توڑے جا سکیں۔ یہ ہے کل مشق۔ مغرب کی لیبارٹری میں انکار کا تجربہ کم و بیش پچھلے پانچ سو سال سے جاری ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس روش کی ناکامیابی کا نیا ڈیٹا دے رہا ہے مگر یہ سائنس دان مصر ہے کہ اس تجربہ گاہ سے نیا انسان پیدا ہو گا اور کثیر تعداد میں ماکیٹ میں سپلائی بھی کیا جا سکے گا۔ اس تمام عمل میں نیا انسان تو نہیں بن پایا مگر اس عمل سے پرانا انسان ضرور مر گیا ہے۔ اب ایک خلاء ہے جس میں آج کا ذہن معلق ہے۔ اس لئے اس اذیت ناک عمل سے پیدا ہونے والی تکلیف سے بچنے کے لئے وافر تعداد میں کھلونے بن چکے ہیں، کاروں، گھروں، دفتروں، میوزیمز کی صورت میں۔ ان عجائب گھروں میں اسی انسان کا ماضی بند ہے جس سے یہ کوئی نامیاتی تعلق شعوری طور پر قبول کرنے سے عاجز ہے مگر اس زیب و نمائش سے یہ نیم خوابیدہ انسان کچھ دیر کو بہل ضرور گیا ہے اور کوئی بڑی چیخ نہیں مار رہا۔ کیا فرمانبراد بچہ پیدا کیا ہے اس سرمایہ دارانہ نظام نے جو کھڑا تو لامتناہی مفاد کے اصول پر ہے مگر نقصان کا تخمینہ ابھی پوری طرح لگانے میں کچھ اور دہائیاں یا صدیاں ضرور لے گا۔

یہ ہے وہ عکس جس کا قیدی آج کا نارسیسیس ہے۔ اب دیکھیں یہ بھی خود اپنی شبیہ کے زیرِ عتاب دم توڑتا ہے یا کبھی آنکھ کھول کر اپنے گرو نواع میں موجود اصول ہائے کثرت و وحدت کو دوبارہ دریافت کر پاتا ہے۔ اس تمام گفتگو کا مقصد کسی پرانے نظام کی بین السطور پذیرائی ہرگز نہیں بلکہ اس رویے کا، اس اصلوب کا، اس ڈسکورس کا مطالعہ ہے جو آج رائج ہے۔ ہو سکتا ہے آنے والا انسان جب ہم گزرے ہوؤں کی باتیں پڑھے تو اسی طرح سے خود کو اس تمام نظامِ دلالت سے دور کرے جیسے آج کا انسان عجائب گھر میں رکھے گزشتہ انسان سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).