قصہ ایک فرینڈ ریکوئیسٹ کا


یہ اس وقت کا ذکر ہے جب ہم سوشل میڈیا کے استعمال سے زیادہ واقف نہ تھے ۔ جاننے والے احباب کا یہاں پر سخت قحط تھا، سو بور ہونے کے سوا سوشل میڈیا کا دوسرا کوئی مقصد سمجھ نہیں آتا تھا۔ انہی دنوں ایک اسائنمنٹ کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ کچھ ہم اناڑی، کچھ موضوع حساس، کسی نے بھی تعاون نہ کیا۔مایوسی کے عالم میں واپسی کا جب دل میں مصمم ارادہ کرلیا تو ایک آئی ٹی افیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کا وعدہ لیتے ہوئے مطلوبہ معلومات فراہم کیں۔ مزید کسی تعاون کیلئے موبائل نمبروں کا تبادلہ ہوا اور ہم خوشی خوشی دفتر واپس لوٹ آئے۔

چند روز بعد فیس بک پر “فرینڈز سجیسشن” میں ایک شناسا چہرہ دکھائی دیا۔ ذہن پر زور دیا تو یاد آگیا کہ یہ وہی بھلامانس ہے جس نے کچھ روز قبل ہماری مدد کی تھی۔مارک زکربرگ کی تخلیق کردہ اجنبیوں سے بھری اس دنیا میں وہ آفیسر ہمیں بے حد اپنا اپنا محسوس ہوا، سو جھٹ اسے فرینڈ ریکوئیسٹ بھیج دی، جو چند گھنٹوں بعد ہی قبول کرلی گئی۔

اب سوچتی ہوں کہ شکر  ہے یہ واقعہ چند برس قبل رونما ہوا تھا، اگر آج کل پیش آیا ہوتا تو کیا معلوم ایک سرکاری افسر کو ہراساں کرنے کے جرم میں ہم بھی اپنی نوکری سے برخاست کئے جاچکے ہوتے۔

آسکر ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹرشرمین عبید چنائے نے جب تیزاب سے جلائی گئی خواتین پر ڈاکیومینٹری بنائی اور انہیں  ہم وطنوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے ایک جگہ تبصرہ کیا تھا کہ آئینہ دکھانے پر برا مان لینا باعث حیرت ہے، اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ رستے زخموں کے علاج کے بجائے انہیں صاف ستھری ڈریسنگ میں چھپانا پاکستانیوں کی قومی عادت ہے لیکن حالیہ چند دنوں میں جو صورتحال سامنے آئی ہے، وہ بھی کسی طور ہماری قومی عادت سے کم نہیں۔

ایک ایسا ملک جہاں ابھی تک جنسی ہراساں کرنے والی کی شناخت ظاہر کرنے کیلئے ہی سماج میں آمادگی موجود نہ ہو اور جہاں خواتین عزت بچانے کیلئے ظلم برداشت کرنے کو ترجیح  دیتی ہوں ، وہاں محض ایک فرینڈ ریکوئیسٹ بھیج دینے پر اس قدر بڑا طوفان کھڑا کردینا یقیناً بہت بڑا مذاق ہے۔

ڈاکٹر کا رویہ نوکری کے لیئے مروجہ اصولوں کے خلاف تو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن یہ ہراسمنٹ کے زمرے میں کہاں سے آتا ہے، یہ امر سمجھ سے باہر ہے۔یہ فرینڈ ریکوئیسٹ ہراسمنٹ بھی قرار دیا جاسکتی تھی، بشرطیکہ ڈاکٹر اس ریکوئیسٹ کو قبول نہ کئے جانے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دے رہا ہوتا، یا کسی دوسرے طریقے سے بلیک میل کر رہا ہوتا۔ (واضح رہے کہ شرمین نے اپنے ٹوئٹس میں ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے، ورنہ یقیناً صورتحال اس کے برعکس ہوتی)۔

نجانے کیوں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہراسمنٹ کے  موضوع پر کام کرتے کرتے شرمین اس موضوع میں اس حد تک الجھ گئی ہیں کہ اب ان کیلئے عمومی رویئے اور جنسی ہراسگی  میں تفریق مشکل ہورہی ہے۔ شائد انہیں اور ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا کا مقصد ہی “سوشلائزنگ” ہے۔ اگر  آپ اس میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے بھی خود کو غیر سوشل رکھنا چاہتے ہیں تو برائے مہربانی اپنی سیٹنگز بھی اسی موڈ پر رکھیئے تاکہ کوئی آپکو فرینڈ ریکوئسٹ بھیج کے جنسی ہراسگی کا مرتکب نہ ہونے پائے۔

اس معاملے پر شرمین کے حامیوں کی اولین دلیل یہ ہوتی ہے کہ فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجنا ایک معمولی فعل ہے لیکن ان چھوٹی چھوٹی حرکتوں کو نظر انداز کرنے سے ہی ہم دراصل مردوں کو پیش قدمی کیلئے اکساتے ہیں۔ خدارا اس لفظ کو مذاق مت بننے دیجیئے کیا آپ کسی کو محض اس بنیاد پر سزا دیں گے کہ وہ مستقبل میں جرم کا مرتکب ہوسکتا تھا؟

دوسری جانب اب سوشل میڈیا پر شرمین کی ٹائم لائن پر جو طوفان بدتمیز بپا ہے، وہ کسی صورت بھی ہراسگی سے کم نہیں ہے۔ پاکستانی خواتین کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرتے کرتے شرمین اس بار کچھ چوک گئیں ہیں اور ایک ایسے موضوع کو چھیڑ بیٹھی ہیں جس کے بارے میں آگہی کا سفر ابھی طے ہونا باقی ہے۔

ملیحہ ہاشمی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ملیحہ ہاشمی

ملیحہ ہاشمی ایک ہاؤس وائف ہیں جو کل وقتی صحافتی ذمہ داریوں کی منزل سے گزرنے کر بعد اب جزوقتی صحافت سے وابستہ ہیں۔ خارجی حالات پر جو محسوس کرتی ہیں اسے سامنے لانے پر خود کو مجبور سمجھتی ہیں، اس لئے گاہے گاہے لکھنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

maliha-hashmi has 21 posts and counting.See all posts by maliha-hashmi