کراچی کا نام تبدیل کرنے کی آخر ضرورت کیا ہے؟


سندھ کے وزیر ثقافت سردار شاہ صاحب نے کہا ہے کہ کراچی کا نام تبدیل کرکے کلاچی کرنے کے لئے سندھ اسمبلی میں قرارداد لائیں گے۔ یہ بات انہوں نے کراچی میں جاری تین روزہ سندھ لٹریچر فیسٹول میں تقریر کرتے ہوئے کہی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ، بیٹھے بٹھائے یہ بات ان کے ذہن میں آئی کہاں سے؟

کیوں کہ سندھ کے کسی بھی مکتب فکر کی طرف سے ایسا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
نہ کسی سیاسی پارٹی نے مطالبہ کیا ہے، نہ کسی این جی او نے، نہ کسی دانشور نے اس پر کوئی مضمون لکھا ہے، نہ کسی صحافی نے۔ نہ کسی محفل میں یہ بات زیر بحث آئی ہے، نہ کسی مذاکرے میں، حتہ کہ شاہ صاحب نے جس فیسٹول میں یہ اعلان کیا اس میں بھی ایسا کوئی مطالبہ نھیں کیا گیا۔

اس لئے، سندھ کے سنجیدہ حلقوں نے سردار شاہ صاحب کی اس بات کو بے وقت کی راگنی قرار دیتے ہوئے، اسے سندھی اور اردو آبادی میں خواہ مخواہ کا نیا نفاق پیدا کرنے اور اس تضاد سے آئندہ الیکشن میں فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اور ایسا ہوا بھی ہے۔ ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کا اس معاملے پر فورا رد عمل سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کسی طرف سے کسی نے بھی ایسا مطالبہ نہیں کیا کہ کراچی کا نام تبدیل کیا جائے۔ پھر نہ جانے کیوں یہ شوشا چھوڑا گیا ہے؟

ڈاکٹر فاروق ستار نے مزید کہا ہے کہ کراچی میں لسانیت کی بنیاد پر جھگڑے ہوتے رہے ہیں اور ہم ان جھگڑوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ اگر کلاچی نام رکھنا ہی ہے تو کراچی کے کسی علاقے کا رکھا جائے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کی یہ تجویز انتہائی معقول ہے۔

واقعی اگر کلاچی نام رکھنا اتنا ہی ضروری ہے تو کراچی کے ضلعوں کے نام ایسٹ، ساؤتھ، سینٹرل میں سے کسی پر بھی یہ نام رکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ضلع ملیر پہلے ہی رکھا ہوا ہے۔ ورنہ مچھر کالونی، بھینس کالونی جیسے ناموں کا آپریشن کیا جائے تو بہتر ہے۔ واضع رہے کہ کراچی میں مائی کلاچی نام ایک پُل پر پہلے سے ہی موجود ہے۔

ویسے بھی کلاچی نام سے سندھیوں کی کوئی مستند جذباتی وابستگی کی تفصیل سامنے نہیں آتی۔ نہ یہ سندھ کے کسی ہیرو کا نام ہے اور نہ ہی اس شہر کا نام کلاچی سے بدل کر کراچی کرنے میں ہندوستان سے آنے والوں کا ہاتھ ہے۔

سب سے بڑی بات کہ کراچی کا نام بدل کر واپس کلاچی کرنا ہوتا تو، سندھ اسیمبلی، 1936 میں بمبئی پریزیڈنسی سے جدا ہونے کے بعد 1947 تک کافی خود مختار تھی۔ شیخ عبدالمجید سندھی، عبدلالستار پیرزادہ، خان بھادرالھ بخش سومرو، سائیں جی ایم سید، ڈیئل مل دولترام، محسنِ کراچی جمشید نسروانجی، جینو بائی غلام علی علانا، مس جیٹھی سپاہ ملانی، میراں محمد شاھ، خان بھادر محمد ایوب کھڑو، ہاشم گذدر، رستم جی سدھوا، سرغلام حسین ہدایت اللہ، امین کھوسو، مسٹر جے فراسر جیسے لوگ اس وقت سندھ اسیمبلی کے کنگ میکر تھے۔ اور پیرحسام الدین راشدی جیسے تاریخدان تو رہتے ئی سائیں جی ایم سید کے گھر میں تھے۔ اگر کراچی کا نام کلاچی رکھنا اتنا ضروری ہوتا تو یہ سب لوگ کردیتے۔ ان کو کوئی روکنے والا بھی نھیں تھا۔ مگر اس پورے دور میں ایسی کوئی تجویز تک نہیں آئی۔

اپنے وطن کے لفظ کی تاریخ سے محبت ایک قدرتی امر ہے۔ مگر کراچی بھی کوئی نیا نام نھیں ہے۔ 1742 کے ڈچ دستاویزات میں اس جگہ کے لئے استعمال کیا گیا لفظ کراچی ہی ہے۔ ان دستاویزات ایک ڈچ مرچنٹ جہاز کو پیش آنے کی جگہ کا ذکر کرکے بتایا گیا کے کہ یہ حادثہ کراچی کے نزدیک ہوا ہے۔
ایک روایت یہ ہے کہ یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اِس کا نام کلاچی پڑ گیا۔

دوسری روایت یہ ہے کہ، مورڑو، جس نے خونی مگرمچھ سے اپنے بھائیوں کا بدلہ لیا تھا اور مگرمچھ کو اپنی بہادری اور ذہانت سے مار کر گاؤں کے ماہی گیروں کو محفوظ کیا تھا، اس کی ماں کا نام مائی کلاچی تھا۔
بحرحال، سندھ کے وزیر ثقافت سردار شاہ صاحب نام کی تبدیلی کا معاملہ سندھ اسمبلی میں لانے کا اعلان کرنے کے بجائے اس بات کو تجویز کے طور پہ رکھتے تو بھتر ہوتا

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).