جنسی ہراسانی کا مطلب بدل ڈالنے والی عورت


”اس عورت نے محض شہرت پانے کی خاطر ایک شریف آدمی پر غلط الزام لگایا ہے۔ یہ شہرت پانے کے لئے کسی حد تک بھی گر سکتی ہے۔ کہیں یہ اتنی زیادہ جنس زدہ تو نہیں ہے کہ جاگتے میں بھی جنسی خواب دیکھتی ہو؟ کہیں یہ ایک ایسی مریضہ تو نہیں ہے جسے کسی مشہور شخص سے جنسی تعلق کا جنون ہو؟ اگر اس کا الزام درست تھا تو یہ اتنے عرصے کیوں نہیں بولی؟ یہ کیوں ان واقعات کے بعد اس شخص کے ساتھ ساتھ رہی؟ “

یہ کسی تھڑے پر بولے جانے والے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ سب اور اس سے بھی بڑھ کر امریکی سینیٹ میں ایک یونیورسٹی کی خاتون پروفیسر کے بارے میں کہا گیا تھا اور کہنے والے سینیٹر تھے۔

امریکہ میں سپریم کورٹ کے جج تاحیات تعینات ہوتے ہیں۔ سنہ 1991 میں سپریم کورٹ کے ایک جج کی نشست خالی ہوئی تو صدر جارج بش نے سیاہ فام جج کلیرنس تھامس کو نامزد کیا جو نہایت قدامت پرست ہونے کی شہرت رکھتے تھے۔ سپریم کورٹ کے جج کی نامزدگی کے بعد اس کی سینیٹ سے توثیق لازم ہے۔ توثیق کے لئے نام بھیجا گیا۔ ایف بی آئی سے بھی کچھ تحقیقات کرائی گئیں اور امریکی بار ایسوسی ایشن پر بش انتظامیہ نے زبردست دباؤ ڈال کر جج صاحب کا نام اپروو کرایا گیا۔ سب اچھا تھا۔ لگ رہا تھا کہ جج صاحب کی توثیق ہو جائے گی۔

ایسے میں اچانک امریکی پبلک ریڈیو نے ایف بی آئی کی رپورٹ لیک کر دی۔ علم ہوا کہ کلیرنس تھامس کے تحت کام کرنے والی انیتا ہل نامی ایک خاتون وکیل جو اس وقت یونیورسٹی کی پروفیسر ہیں، نے ان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے جسے ایف بی آئی اور سینیٹ نے لفٹ نہیں کرائی۔ انیتا ہل کے علاوہ دو مزید عورتوں نے کلیرنس تھامس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا۔ ان خواتین کا کہنا تھا کہ کلیرنس تھامس نے ان کی موجودگی میں فحش باتیں کیں اور ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے ساتھ ڈیٹ پر جائیں۔

خبر چلتے ہی خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ امریکی کانگریس میں کی سات خواتین اس جلوس میں شامل تھیں جو سینیٹ کی عمارت کی طرف گیا اور اس نے سینیٹ میں انیتا ہل کو سننے کا مطالبہ کیا۔

سینیٹ کی کمیٹی نے انیتا ہل کو بلا لیا۔ اس کمیٹی میں بارہ سفید فام مرد شامل تھے۔ انہوں نے انیتا سے توہین آمیز انداز میں سوالات کیے۔ ایسا معلوم ہونے لگا جیسے الزام انیتا ہل پر لگا ہو۔ انیتا ہل نے بتایا کہ دس برس پہلے جب وہ ایک سرکاری ادارے میں کلیرنس تھامس کے تحت کام کرتی تھیں تو وہ فحش فلموں کے مختلف مناظر ان کو تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔ وہ انیتا کو اپنی جنسی صلاحیتوں کے بارے میں بھی آگاہ کرتے رہتے تھے۔

انیتا سے پوچھا گیا کہ آپ اس سب سے گزر چکی تھیں تو جب کلیرنس تھامس ایک دوسرے محکمے میں گئے تو آپ کیوں اس محکمے میں گئیں؟ انیتا نے جواب دیا کہ اس محکمے کا کام میری دلچسپی کا تھا اور یہ لگتا تھا کہ کلیرنس تھامس اب اپنا طرز عمل تبدیل کر چکے ہیں۔

سینیٹ کی کمیٹی نے اور میڈیا نے انیتا ہل کو خوب گندا کیا۔ ان کی کردار کشی کی گئی۔ ایک مشہور تجزیہ کار نے ان کو ”نیم پاگل اور تھوڑی سی آبرو باختہ“ کہا۔ کمیٹی نے خود توثیق کرنے کی بجائے معاملہ پوری سینیٹ کو بھیج دیا۔ انیتا ہل کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو دیکھتے ہوئے وہ ایک خاتون گواہی دینے سے انکاری ہو گئی جس نے کلیرنس تھامس پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا جبکہ دوسری کو سینیٹ نے گواہی کے لئے طلب ہی نہیں کیا۔

کلیرنس تھامس نے الزامات سے بھرپور طریقے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کو ان کی رنگت کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے پرانے زمانے میں سیاہ فام افراد پر کوئی جنسی الزام عائد کرنے کے بعد ہجوم موقع پر ہی مار ڈالتا تھا۔ اب یہ ہجوم انہیں ہائی ٹیک طریقہ استعمال کر کے مار رہا ہے۔

کلیرنس تھامس کے اس دفاع نے رائے عامہ کو ان کے حق میں کر دیا۔ سینیٹ نے ان کی 48 کے مقابلے میں 52 ووٹوں سے توثیق کر دی اور وہ سپریم کورٹ کے جج بن گئے۔ یہ سپریم کورٹ کے کسی جج کے لئے پچھلی ایک صدی میں سب سے کم حمایت تھی۔ عوامی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہ ساری کارروائی قومی ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی جسے لاکھوں افراد نے دیکھا۔

اس وقت تین میں سے ہر دو افراد کلیرنس تھامس کو سچا اور انیتا ہل کو جھوٹا جانتے تھے۔ محض دو برس بعد یہ شرح الٹ گئی اور دو افراد کو انیتا کے الزامات درست لگنے لگے اور کلیرنس ہل کی حمایت کے لئے تین میں سے ایک شخص باقی رہ گیا۔ خواتین کو شدید غصہ تھا کہ سینیٹ میں صرف مرد ان کی قسمت اور ذاتی کردار کا فیصلہ کر رہے ہیں۔

اس معاملے نے امریکہ میں جنسی ہراسانی اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایک بڑی بحث کو جنم دیا۔ جنسی ہراسانی کے معاملے میں عام طور پر کوئی موقعے کا براہ راست گواہ نہیں ہوتا ہے اور عورت اور مرد کے الفاظ کی بنیاد پر ہی معاملے کو دیکھا جاتا ہے۔ اخباروں اور ٹی وی کے علاوہ یہ موضوع گھر گھر میں ڈسکس ہونے لگا۔ سینئیر تجزیہ کاروں اور عوام نے یہ نتیجہ نکالا کہ انیتا ہل کے ان الزامات کے نتیجے میں عورتیں ہمیشہ کے لئے دب گئی ہیں اور اب کوئی عورت کسی مرد پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانے کی ہمت نہیں کرے گی۔

مگر اس کا الٹ ہوا۔ اس بحث کے بعد اگلا برس تاریخ میں ”عورتوں کا سال“ کہلایا۔ پہلے سینیٹ میں صرف دو عورتیں تھیں مگر اب چار مزید خواتین منتخب ہو گئیں۔ کانگریس میں عوتوں کی تعداد 28 سے بڑھ کر 47 ہو گئی۔ خواتین نے بہتر قانونی تحفظ کا مطالبہ کیا۔

وفاقی محکمہ برائے مساوی ملازمتی مواقع جات، جہاں کلیرنس تھامس اور پروفیسر انیتا ہل ملازم تھے، میں جنسی ہراسانی کی شکایات 1991 سے 1998 تک دگنی رپورٹ ہوئیں اور سات ہزار سے بڑھ کر پندرہ ہزار ہو گئیں۔ خواتین کے تحفظ کے لئے نئی قانون سازی کی گئی۔ ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کو بھی خواتین کے تحفظ کے لئے اقدامات کرنے پڑے۔

بیس برس گزر جاتے ہیں۔ یہ 9 اکتوبر 2010 کی صبح ساڑھے سات بجے کا وقت ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز جج کلیرنس تھامس کی بیگم مسز ورجینیا تھامس اپنا فون اٹھاتی ہیں اور پروفیسر انیتا ہل کی وائس میل پر ایک پیغام چھوڑتی ہیں۔

”صبح بخیر انیتا ہل۔ میں جنی تھامس ہوں۔ میں ان ائیر ویوز اور برسوں کی کہر کو چیر کر تم تک پہنچنا چاہتی تھی تاکہ تمہیں ایک بات پر غور کرنے کا کہوں۔ میں تمہیں معافی مانگنے پر غور کرنے کا کہوں گی اور مکمل وضاحت چاہوں گی کہ تم نے میرے شوہر کے ساتھ وہ سب کیوں کیا جو تم نے کیا۔ اس پر کچھ سوچو۔ (میں) یقینی طور پر دعا کروں گی اور امید کروں گی اور ایک دن تم یہ سمجھنے میں ہماری مدد کرو گی کہ تم نے ایسا کیوں کیا تھا۔ اوکے؟ تمہارے لئے ایک اچھے دن کی خواہاں“۔

یوں کلیرنس تھامس کی بیگم نے بیس برس بعد وہ معاملہ دوبارہ اچھال دیا جو وقت کی گرد میں دفن ہو چکا تھا۔ ورجینیا تھامس نے میڈیا کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ”اتنے برسوں کے بعد میں نے یہ امید کرتے ہوئے کہ اس کی طرف ایک زیتون کی شاخ بڑھائی تھی ہم اس واقعے کے اثر سے نکل جائیں جو برسوں پہلے پیش آیا تھا“۔ اس فون کال کے پبلک ہونے کے بعد دوبارہ بحث چھڑ گئی۔ مگر اس مرتبہ کلیرنس تھامس کی ایک سابقہ گرل فرینڈ لیلین میکوین، جو اب ایک ریٹائرڈ جج تھیں سامنے آئیں اور کہا کہ وہ کلیرنس تھامس کے ساتھ 1979 سے لے کر 1980 کی دہائی کے وسط تک ڈیٹ پر جاتی رہی تھیں اور ”کلیرنس واقعی نہ صرف وہ کرنے کا اہل تھا جو انیتا ہل نے کہا کہ اس نے کیا، بلکہ یہ اس کے اس زمانے کے ذاتی طرز زندگی کے عین مطابق تھا“۔

اس معاملے پر فلم اور ڈرامے بھی بنے اور کتابیں بھی لکھی گئیں مگر امریکی سپریم کورٹ کی توہین نہیں ہوئی۔ دنیا بھر پر اس کے اثرات گہرے ہوئے۔ خواتین اس کے بعد اتنا حوصلہ پا گئیں کہ طاقتور مردوں کے خلاف بھی بات کرنے لگیں کہ وہ ان کو جنسی ہراسانی کا شکار بناتے رہے ہیں۔ عوام اور قانون ساز اس معاملے سے پہلے یہ سمجھتے تھے کہ جنسی ہراسانی صرف دست درازی یا ریپ کو ہی کہا جاتا ہے۔ انیتا ہل کی جد و جہد کے بعد یہ مانا جانے لگا کہ جنسی ہراسانی الفاظ اور ان چاہی غیر ضروری توجہ سے بھی ہوتی ہے۔

کلیرنس تھامس آج بھی امریکی سپریم کورٹ کے جج ہیں۔ ان کے سر پر انیتا ہل کے الزامات کا تاریک سایہ آج بھی موجود ہے۔ 1991 میں آبرو باختہ اور نیم پاگل کہلانے والی انیتا ہل کو آج دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی محسن کے طور پر جانا جاتا ہے جن کی جرات کے باعث آج کروڑوں خواتین قانونی تحفظ حاصل کر چکی ہیں۔ پاکستان پر بھی انیتا ہل کا سایہ پڑ چکا ہے اور 2012 میں دفاتر میں خواتین کے جنسی ہراسانی سے تحفظ کے لئے قانون سازی کی جا چکی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar