قرارداد مقاصد: کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا تو نے


\"adnan

محترم عامر خاکوانی صاحب نے اس عاجز کے مضمون ’آئین تو زندوں کے لیے ہوا کرتا ہے‘ پر ایک جوابی مضمون بعنوان ’کچھ قرارداد مقاصد کے دفاع میں‘ رقم کیا ہے۔ حضرت پہلی بات تو یہ، کہ خاکسار نے قرارداد مقاصد پر اس مضمون میں کوئی حملہ نہیں کیا تھا، اس لیے مطمئین ہو کر شمشیر برہنہ کو واپس نیام میں ڈال لیں۔ خاکسار نے صرف قرارداد مقاصد کی ان شقوں کی دستور کی روشنی میں وضاحت کی تھی، جن کو جوش جذبات یا کسی دوسرے ولولے کی وجہ سے دائیں بازو کے وہ حضرات، جو خود کو اسلامسٹ کہلانے پر مصر ہیں، نظرانداز کرتے ہیں۔

سب سے پہلے تو خاکوانی صاحب کا موقف درج کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ’آئین کی بعض بنیادی نوعیت کی چیزوں کے تقدس کا اس لئے خیال رکھا جاتا ہے کہ ان پر اتفاق رائے ہونے میں برسوں بلکہ کبھی عشروں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ قومی اتفاق رائے کے ساتھ طے شدہ ان اصولوں کو وہی پارلیمنٹ چھیڑے، جو اس کا واضح مینڈیٹ لے کر آئی ہو‘۔

اب دیکھتے ہیں قرارداد مقاصد کی ایک اہم شق کو، جو کہ خاکوانی صاحب کے درج کیے ہوئے ترجمے میں ان الفاظ میں رقم ہے کہ ’جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں، مساوات، حیثیت و مواقع، قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت سازی کی آزادی شامل ہوگی‘۔

اس مختصر شق میں بنیادی حقوق کی تفصیلی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ کیا ہیں، اور اس تفصیل کو جاننے کے لیے ہمیں دستور پاکستان کے دوسرے حصے ’بنیادی حقوق اور پالیسی کے اصول‘ کا پہلا باب دیکھنا پڑتا ہے جس کا عنوان ہے ’بنیادی حقوق‘۔ اس میں درج دستور پاکستان کی شق نمبر بیس کی ذیلی شق اے کہتی ہے کہ یہ کسی بھی اکثریتی یا اقلیتی شہری کا بنیادی حق ہے کہ

‘ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اقرار کر سکے، اس پر عمل کر سکے، اور اس کی تبلیغ کر سکے‘۔

یہ بات ذہن میں رہے کہ آئین پاکستان کی 1974 کی ترمیم کے تحت احمدی حضرات ایک غیر مسلم اقلیت ہیں۔ کیا قرار داد مقاصد کے حکم کے تحت، آپ احمدیوں، ہندوؤں، مسیحیوں، یہودیوں، پارسیوں وغیرہ وغیرہ کو پاکستان میں آزادانہ تبلیغ کا حق دینے کی حمایت کرتے ہیں؟ خدانخواستہ کسی مسلمان نے ان غیر مسلموں کی اس تبلیغ سے متاثر ہو کر ترکِ اسلام کر دیا تو پھر اس کا وبال کس کے سر ہو گا؟ یا پھر آپ اس جگہ پر توقف کر کے سوچیں گے اور قرارداد مقاصد یا دستور کی ان شقوں کو خلاف اسلام قرار دے کر ان کو تبدیل کرنے کی حمایت کریں گے۔ لیکن آپ تو کہتے ہیں کہ ’آئین کی بعض بنیادی نوعیت کی چیزوں کے تقدس کا اس لئے خیال رکھا جاتا ہے کہ ان پر اتفاق رائے ہونے میں برسوں بلکہ کبھی عشروں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ قومی اتفاق رائے کے ساتھ طے شدہ ان اصولوں کو وہی پارلیمنٹ چھیڑے، جو اس کا واضح مینڈیٹ لے کر آئی ہو‘۔

تو پھر تو مجبوری ہے، ان شقوں کو چھیڑنا تو ناممکن ہے، سو یہ تمام اقلیتی حضرات اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کو آزاد ہیں اور حکومت کو ان کی تبلیغی جماعتوں کو آئینی و قانونی و انتظامی تحفظ دینا پڑے گا خواہ اس کی وجہ سے دفاع پاکستان کونسل یا عالمی ختم نبوت کونسل کتنے ہی احتجاج کیوں نہ کریں۔

آپ کے حکم کے مطابق ہم کھل کر یا کھلے بغیر قرارداد مقاصد میں ترمیم کی کوشش کرتے ہی نہیں ہیں بلکہ ایسے ہی شکست تسلیم کر لیتے ہیں اور ہم آپ کا حکم مان لیتے ہیں کہ ’قرارداد مقاصد کو ٹھوس زمینی حقیقت مان کر چند برسوں کے لئے بیٹھ جائیں اورپھر نئے، زیادہ بڑے سوالات پر توجہ مرکوز کی جائے۔ وہ کام کچھ کم اہم نہیں ہے‘۔

لیکن حسب معمول اس عاجز کو ایک چیز کنفیوز کیے ہوئے ہے۔ قوم کا سنہ تہتر کے دستور پر تقریباً مکمل اتفاق تھا کہ 128 میں سے 125 اراکین اسمبلی نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ ان میں لبرل حضرات بھی تھے اور مولانا حضرات بھی۔ صرف تین لوگوں نے دستخط نہیں کیے تھے اور وہ تھے نیپ کے بلوچ رہنما خیر بخش مری، پاکستان پیپلزپارٹی کے باغی رکن احمدرضا قصوری اور میرعلی احمد تالپور۔

اتنے متفقہ، اور طے شدہ آئین پر بار بار دوبارہ غور کیوں کیا گیا تھا اور ان تینتالیس برس میں ایسا کیا ہوا ہے کہ اب تئیسویں آئینی ترمیم کا غلغلہ سننے میں آ رہا ہے؟ غالباً زندہ قوموں کے لیے کچھ بھی طے شدہ نہیں ہوتا ہے اور وہ حالات و واقعات کے مطابق اپنی غلطیوں کو درست کرتی رہتی ہیں اور مستقبل کو دیکھ کر راہ عمل بناتی رہتی ہیں۔

اس عاجز کو اس بات کی بھی سمجھ نہیں آئی ہے کہ قرارداد مقاصد کا دہشت گردی سے تعلق کس طرح جوڑا گیا ہے؟ کیا اس وقت ملک میں ہونے والی دہشت گردی کا باعث اقلیتی شہری ہیں؟ کیا مسیحی شہری خودکش دھماکوں میں پھٹ رہے ہیں؟ کیا احمدی اس وقت ملکی تنصیبات پر حملے کر رہے ہیں؟ کیا ہندو قتل عام کرتے پھر رہے ہیں؟ اقلیتی شہری تو چپ چاپ ترک وطن کر رہے ہیں اور یہ دہشت گردی کرنے والے تو غالباً مسلمان شہری ہیں۔ اس عاجز نے اپنے مضمون میں تو مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی پر بحث ہی نہیں کی ہے اور محض یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ کیا کتاب آئین بھی الہامی کتابوں کی مانند قرار پانے لگی ہے کہ اس میں کسی نقطے کی تبدیلی بھی گناہ عظیم ہے؟

جہاں تک قرارداد مقاصد کے طے شدہ اور ناقابل ترمیم ہونے کا عقیدہ ہے، تو ہمارے بہت سے بھائیوں کو یہ جان کر انتہائی افسوس، حیرت اور صدمہ ہو سکتا ہے کہ اپریل سنہ 2010 میں کی جانے والی اٹھارہویں آئینی ترمیم میں اس مقدس دستاویز کو بھی چھیڑا گیا ہے اور اس میں اقلیتوں کی آزادی کے بارے میں ایک لفظ گھسیڑ دیا گیا ہے۔ اور مزید صدمے کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو آئینی قرار دے دیا ہے۔

اس ملک کے دستور میں تو کوئی نکتہ بھی مقدس اور روز قیامت تک کے لیے طے شدہ نہیں رہا ہے۔ شاید یہ زندوں کا ملک ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments