جرابیں، جوتوں کی معروف گرل فرینڈ


جرابیں جسے پیار سے موزے اور ’پاتابے‘ کہہ کر بھی بلایا جاتا ہے جوتوں کی معروف گرل فرینڈ ہے۔ مرغی اور انڈے کی طرح جوتے اور جرابوں کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ کون پہلے آیا تھا۔ تاریخ کے اوراق الٹیں تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ اس کا نام لاطینی زبان سے اخذ کیا گیا ہے۔ یہ آٹھویں صدی قبلِ مسیح میں یونانی استعمال کرتے تھے۔ بہرحال اس ایجاد میں کسی نہ کسی کا ہاتھ تھا، پیر نہیں۔ پہلے پہل اسے چمڑے سے بنایا گیا۔ رومن اداکار اسے اسٹیج پر اداکاری کے دوران پہنتے تھے۔ پاؤں جسم کا وہ عضو ہے جو سب سے زیادہ پسینہ خارج کرتا ہے اور آج کے جراب اس پسینے کو اسی طرح چوس لیتے ہیں جیسے ہمارے سیاست دان غریبوں کا خون چوستے ہیں۔ یہ سردیوں میں پیروں کو گرم رکھتی ہے تاکہ آپ سرگرم رہیں۔ ابتدا میں یہ طبقہ اشرافیہ کی عزت بڑھانے کے کام آتی تھی مگر پھر بھی انھیں جوتوں کے اندر ہی پناہ ملتی تھی۔

جرابیں جوڑی دار ہوتی ہیں۔ جوڑی نہ رہے تو ان کی اہمیت بھی نہیں رہتی۔ ان کے ہاں دائیں اور بائیں والے مل کر کام کرتے ہیں۔ زیادہ دیر جوتے کے اندر پیروں سمیت پڑی رہیں تو بدبو دینے لگتی ہیں۔ یہ محبت سے انسانی قدموں سے لپٹی رہتی ہیں مگر انسان کبھی انھیں محبت سے چومتا نہیں پایا گیا۔ جوتوں کی طرح جرابیں پیروں کو کاٹتی نہیں ہیں۔ آپ اسے جس جوتے میں رکھ دیں، جس پیر پر چڑھالیں، شکوہ نہیں کرتیں۔ ان کا مثالی صبر اور سمجھوتہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ جوتوں کو اپنا مجازی خدا سمجھتی ہیں۔ مسجد سے جوتے سب چراتے ہیں مگر جرابیں کوئی نہیں۔ غریب اسے کہتے ہیں جس کی جرابیں، جوتے اور بنیان پھٹی ہو۔

نائلون کی جرابیں پہلی بار 1938ء میں تیار ہوئی۔ اس سے جرابوں کی عمر اور جوانی میں اضافہ ہوا۔ مرد جرابیں سب سے پہلے اور عورت سب سے آخر میں اتارتی ہے۔ کسی کے گھر جاکر جرابیں اتارنا میزبان کی ’ناک‘ کا امتحان ہوتا ہے۔ ہر جراب جہاں کِھلا ہوتا ہے وہیں سے اپنی ’خوشبو‘ اخذ کرتا ہے۔ اکثر لوگ اس وقت کھلتے ہیں جب وہ جرابیں اتارتے ہیں۔ جوتے جرابوں کا گھر ہوتے ہیں۔ اگر جراب غریب کے جوتے میں پیدا ہوجائے تو پھٹ کر ہی نکلتی ہے۔

جرابوں میں نسلی اور رنگی امتیاز عروج پر ہے۔ اس کی تین ذاتیں بے حد مشہور ہیں۔ کاٹن، اونی اور نائلون۔ جراب ہر رنگ میں رنگ جاتی ہے۔ اسے بچے سے لے کر بوڑھے تک استعمال کرتے ہیں۔ انسان جب بہت بچہ ہو یا بہت بوڑھا، اسے جرابیں دوسرے پہناتے ہیں۔ نئے جوتے کو جراب نہ ملے تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ جرابیں ہر سائز میں دستیاب ہیں۔ کچھ لوگ اسے ٹخنے تک پہنتے ہیں اور کچھ پنڈلیوں تک۔ جرابوں کی پہنچ زیادہ سے زیادہ گھٹنوں تک ہوتی ہے۔ کسی جراب نے کبھی سر پر بیٹھنا پسند نہیں کیا کیونکہ وہ جانتی ہے انسان سرپھرا ہے۔ جرابیں جوتوں کی طرح کسی کو کچلتی نہیں ہیں۔ وہ پیر کی آبرو اور حجاب ہیں۔

اگر کوئی ایک جراب پہن کر گھومے تو اسے دیوانہ سمجھا جاتا ہے۔ جراب چپلوں کے ساتھ شاذونادر ہی استعمال ہوتی ہے۔ اسے جوتوں کی خلوت میں زندگی گذارنا پسند ہے۔ اس کی ایک ہی سہیلی ہے، پیر کے پنجے۔ ان پانچ انگلیوں کے ساتھ ہی جرابیں پوری زندگی گذار دیتی ہے۔ انسان اور جانور میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ جانور جوتے اور جرابیں نہیں پہنتے اور اس پر جرابوں کو بھی خوشی ہے۔

میلی آنکھ اور میلی جرابیں کوئی پسند نہیں کرتا۔ گھر میں سب سے زیادہ شور و غوغا اس بات پر ہوتا ہے کہ ’میری جرابیں کہاں ہیں؟ ‘ بیوی منہ سے، محبوبہ سینے سے اور جرابیں پیر سے لگانے کے لئے ہیں۔ میرے لئے دو چیزیں کراہیت کا سامان ہیں، میلی جرابیں اور مرا ہوا چوہا۔ پیر میں جرابیں اور ہاتھ میں کیمرا نہ ہو تو سفر کا آدھا لطف جاتا رہتا ہے۔ مجھے پانچ جوڑے کپڑے، تین جوڑیاں جرابوں کی دے دو، میں ساری دنیا گھوم لوں گا اور اپنی جوڑی خود بنالوں گا۔ تنگ جرابیں چڑھانا اور کڑوی دوا پینا ایک جیسے کام ہیں۔ کچھ خوبصورتی کپڑوں اور جرابوں سے مبرٌا ہوتی ہیں۔ وہ مرد کیا جو جرابیں نہ پہنے اور خرٌاٹے نہ لے۔ دنیا میں ایک جوڑی ایسی ہے جس سے میں نہیں جلتا اور وہ ہے جرابوں کی جوڑی۔ مجھے گھر میں آرام بیوی سے اور باہر جرابوں سے ملا۔ اپنی زندگی سے جرابوں کو بے دخل کرنا آسان نہیں، ان جیسا تلوے چاٹنے والا اور کوئی نہیں۔

مشرقی لوگ فرصت میں پاجامہ ادھیڑ کر سیتے ہیں اور مغربی فرصت میں جرابیں دھوتے ہیں، یہی وجہ ہے ٹرمپ کو ریٹائرمنٹ لائف پسند نہیں۔ مغرب میں گلوکاروں نے جرابوں پر بھی گانے گائے ہیں، ان کے نزدیک محبوبہ اور جراب کا درجہ ایک ہی ہے۔ میرے پاس گندی جرابوں کا اچھا استعمال یہ ہے کہ جو گندی زبان استعمال کرے اس کے منہ میں ٹھونس دی جائے۔ منیر نیازی اکثر دیر کردیا کرتے تھے کیونکہ ان کی جرابیں جگہ پر نہیں ملتی تھیں۔ اکثر لوگ نئی جگہ پر اس لئے نہیں سو پاتے کیونکہ وہ اپنے بیڈ کے نیچے رکھے جرابوں کی ’خوشبو‘ کے عادی ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).