لاہور کی ایک فراموش کردہ چوبرجی


اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ”کیا لاہور کی چوبرجی ایک ہے؟ “ میرا سوال آپ کو اتنا ہی مضحکہ خیز لگے گا اگر میں پوچھوں کہ ”کیا لاہور میں شالیمار باغ دو ہیں؟ “ انھیں بھی جو اس شہر صد صفات سے اپنی سات پشتوں کی پیدایشی وابستگی کو وجہ افتخار مانتے ہیں؛ پھر میں کس شمار میں! اب تو ٹی وی کو زیادہ دیکھنے والا، (بی وی کے مقابلے میں جو شادی کے بعد ہمہ وقت نظر آتی تھی) سوال کر سکتا ہے کہ وہی ناں، جس کو اورنج ٹرین سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا؟ بلا شبہہ وہی!

عمر کی نصف صدی سے زیادہ میں نے جوتے چٹخانے میں گنوائی، اور حساب کیے بغیر بتاسکتا ہوں، کہ یا مجھے ملکہ کہسار مری کا حسن بلاتا رہا، یا شہر خوباں لاہور۔ بیس سال سے میری بیٹی چوبرجی پر رہتی ہے تو آتے جاتے میں نے بھی وہی ایک چوبرجی دیکھی، جو 1947ء میں بھی دیکھی تھی، لیکن شوق آوارگی نے اس بار پہلی کے قریب ہی دوسری چوبرجی بھی دریافت کرلی۔ جانی پہچانی چوبرجی سے بے پناہ ٹریفک کے شور دھوئیں اور گرد و غبار میں، سیدھے ملتان روڈ کی طرف جائیں تو پہلا چوک ”سمن آباد موڑ“ ہے۔ یہاں سے سیدھے ”چوک یتیم خانہ“ کی طرف سڑک جاتی ہے، ایک دو فرلانگ پر بائیں جانب پرانی آبادی کی تنگ گلیاں ہیں۔ یہاں، یعنی بڑی چوبرجی کی چھوٹی بہن تک رسائی کے لیے میں اپنے نواسے سلیمان کے ساتھ موٹر سائکل ہی پر جاسکا تھا۔ آپ کو یہاں‌ پہنچنے کے لیے مقامی لوگوں سے مدد لینا ہوگی۔ یہیں اسی آبادی میں ایسے تین مینار اور ہیں جو میں نے نہیں دیکھے۔ حقیقت تو کوئی مورخ ہی بتاسکتا ہے۔ قرائن سے لگتا ہے کہ شہنشاہ اورنگ زیب نے 1659ء میں اس جگہ کا انتخاب اپنی عزیز بیٹی زیب النسا کا مزار بنانے کے لیے کیا، اور ابتدا میں چار مینار اس جگہ کے چار کونوں پرکھڑے کیے۔ زیب النسا کا مزار اس کے وسط میں ہے، لیکن اب مینار تک کی جگہ آبادی ہے اور ایک مینار سے دوسرا نظر ہی نہیں آتا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ پس جو تھا نہیں ہے، جو ہے نہ ہوگا۔ شاید میرے قیاس کے گھوڑے دشتِ امکان میں دوڑ رہے ہوں۔

زمانے کا یہی چلن جو ہوا، پردہ نشین دخترِ مشرق سڑک ہر جلوہ نما ہوئی؛ سیاست اور دین سڑک پر آگئے؛ استاد اور مسیحا سڑک پر آ گئے؛ نام اس سے بھی پہلے سڑک پرآ گئے تھے۔ آئی آئی چندری گر روڈ، پاکستان کا کمرشل ہب ہے۔ زیب انسا اسٹریٹ کراچی کی جگمگاتی جدید ترین فیشن کی شاہ راہ؛ اب کون یاد رکھے اور کیوں کہ یہ تمیزالدین اور نشتر کون تھے! یہاں تو جدھر جاؤ پتا نہیں کس کس کا نام لکھا دکھائی دیتا ہے، اورایسا ہر شہر میں ہے۔ لاہور کی ایک ٹریفک جام والی سڑک پر لکھا تھا، وارث میر انڈر پاس؛ اپنے خضرِ راہ سے پوچھا، کہ یہ کون تھا؛ تو جواب ملا ”نہیں معلوم۔ “ کہا، ”یہ جیو والے حامد میر کا باپ تھا“، تواس نے چونک کے کہا ”اچھا؟ “

چناں چہ جب میں نے شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی زیب النسا کے 358 سال پرانے مدفن کو تلاش کرلیا، تو خیال چند لمحوں کے لیے مجھے اتنا ہی پیچھے لےگیا؛ مگر مجھے پھر اکیسویں صدی کا غیر جذباتی کیمرا بدست بلاگر بننے میں، دیر نہ لگی جس کے لیے یہ ایک چونکانے والا موضوع تھا۔ عبرت اب کون پکڑے!؟ دیکھیے، ان چار تصویروں کو؛ پہلی سمن آباد موڑ سے دائیں جانب ”نواں کوٹ“ کی تنگ گلیوں میں پھنسی اورنگ زیب عالم گیر کی لاڈلی بیٹی، شہزادی، شاعرہ زیب النسا مخفی کی آخری آرام گاہ ہے۔ پھر باہر لگا کتبہ؛ قبر اور تعمیر نو کا منظر اور عقبی حصہ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ لاہور کی دوسری چوبرجی کا احوال اسی کے بیان کا حرف اول تھا۔ (مدیر: احمد اقبال لاہور کی معروف چوبرجی نہیں، ایک اور قدرے گم نام چوبرجی سے متعارف کرورہے ہیں) باپ کی تاریخ میں شہرت کا دو طرفہ آئنہ ہے۔ ایک رخ میں وہ اکبر اعظم کے بعد انچاس سال حکومت کرنے والا دوسرا حکمران نظر آتا ہے، تھا؛ جو نماز روزے کا اتنا پابند اور پابند شرع تھا کہ گزارے کے لیے قرآن کی کتابت کرتا تھا اور ٹوپیاں سیتا تھا؛ شاعری اور موسیقی وغیرہ کو لہولعب اور گناہ کبیرہ شمار کرتا تھا۔ پلٹ کر آئنے کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ”اس نے کوئی نماز نہیں چھوڑی اور کسی بھائی کو نہیں چھوڑا“۔

انجینیئر باد شاہ؛ باغ اور محل بنوانے والا، اور تاج محل کے معمار کو قلعہ آگرہ کے برج میں ڈالا، کہ اب یہاں سے دیکھا کر اپنے ساتویں عجوبے کو۔ سب سے بڑے بھائی دارا شکوہ کا سر کاٹا اور طشت میں سجا کے (اسیر باپ کو) تحفہ بھیجا۔ دوسرے بھائی کی آنکھوں میں دہکتی گرم سلائی پھیری، تیسرے کو ہاتھی کے پاوں میں ڈالا؛ وغیرہ۔ آپ جس رخ سے چاہیں آئنہ دیکھیں!

باپ کی لاڈلی بیٹی نے تین سال میں قرآن حفظ کیا، عربی فارسی پر عبور رکھتی تھی؛ ادب اور فلسفے کا مطالعہ وسیع تھا؛ مخفی تخلص کے ساتھ شاعری کرتی رہی؛ اس کا دیوان بہت ضخیم ہے، جو ایران سے شایع ہوا۔ شاید یہاں کسی لائبریری میں ہو۔ کہتے ہیں وہ بہت حسین تھی، لیکن اس کی شادی نہ ہو سکی اور پینتالیس سال کی عمر میں وہ چل بسی۔ ایک کہانی اس سے منسوب ہے کہ وہ کسی شاعر کے عشق میں مبتلا تھی۔ ایک دن مخبروں نے اورنگ زیب کو اطلاع دی، کہ وہ شہزادی کے محل میں موجود ہے۔ اچانک اورنگ زیب کے آنے کی اطلاع پر زینب نے اسے پانی کی ایک دیگ میں چھپادیا۔ اورنگ زیب کو مخبری پر بھروسا تھا، اس نے تاڑ لیا کہ بیٹی اپنے محبوب کو کہاں چھپا سکتی ہے۔ وہ کچھ دیر بیٹھا باتیں کرتا رہا، پھر بولا کہ کچھ نہانے کا موڈ ہے، اس دیگ میں پانی گرم کراؤ۔ دیگ کے نیچے آگ روشن کر دی گئی۔ کہتے ہیں اس وقت زیب النسا نے یہ شعرپڑھا:
افشائے رازمن مکن اے اشک زینہار
دردم بہ پیش محرم و بیگانہ روشن است
(ایسا نہ ہو، کہ آنسو میرا راز افشا کر دے۔ میرے درد کا اپنے بیگانوں کو پتا ہے )

کہتے ہیں کہ محبت کے امتحان سے گزرنے والے نے، اس کا مفہوم جان لیا؛ پانی کھولتا رہا، لیکن اس کی آہ سنائی نہ دی۔ اورنگ زیب کی اس شقاوت کی سند یہ شعر نہ سمجھا جائے۔ یہ کویؑ تاریخی روایت نہیں۔ پوری نظم یوں ہے:
از شعلہ ہائے آہ مرا خانہ روشن است
روشن مکن چراغ کہ کاشانہ روشن است
نازم بہ فیض بادہ کہ شبہائے تیرہ دل
دلہا زا عکس ساغر و پیمانہ روشن است
تا آفتاب حسن بہ عام طلوع کرد
مخفی چراغ عاقل و دیوانہ روشن است
آخری شعر آپ پڑھ چکے۔ نمونہ کلام کے طور پر ایک اور شعر بھی ہے:
مخفی بقدر طاعت ما گر عطا دہند
در روز حشر رحمت پروردگار چیست؟
(اے مخفی، اگر ہمیں ہماری اطاعت کے مطابق مل جاتا ہے، تو روز محشر خدا کی رحمت کے معنی کیا ہیں؟ )

اگرچہ موضوع یہ نہیں، لیکن فارسی شاعری پر نورجہاں کو بھی عبور تھا اور جو شعراس کی لوح مزار پر درج ہے، اسی کا بتایا جاتا ہے۔ ایک موقع پر اس نے بھی ایک شعر سے جہانگیر کی مدد کی تھی۔ روایت ہے کہ جہانگیر نے شطرنج کی بازی میں، اپنی ملکہ نورجہاں کو داؤ پر لگا دیا تھا۔ شکست کے آثار نظر آنے لگے تو جہانگیر سخت مضطرب ہوا۔ اس وقت نورجہاں نے پردے کے پیچھے سے بساط پرنظر ڈال کے ایک شعر پڑھا:
شاہا دو رخ بدہ وہ دل آرام را مدہ
فیل وپیادہ پیش کن و اسپ کشت و مات
(شہنشاہ، اپنے دو رخ دے، محبت نہ دے؛ پھر فیل اور پیادے کو آ گے بڑھا؛ گھوڑے کو مار اور مات دے)
جہانگیر نے اس کی بات سمجھی اور بازی جیت گیا۔ تاریخی طور پر اس روایت کو بھی سند حاصل نہیں۔

حکومت نے زیب انسا کے مرقد کی تعمیر نو کا کام شروع کیا ہے، جو شاید دو سال جاری رہے گا۔ میں نے ٹھیکے دار کی منت سماجت اور اندر جاکے تصویر نہ اتارنے کی شرط پر داخلے کی اجازت لی تھی۔ اللہ معاف کرے!

احمد اقبال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد اقبال

احمد اقبال 45 سال سے کہانیاں لکھ رہے ہیں موروثی طور شاعر بھی ہیں مزاحیہ کہانیوں کا ایک مجموعہ شائع ہو کے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکا ہے سرگزشت زیر ترتیب ہے. معاشیات میں ایم اے کیا مگر سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ملکی تاریخ کے چشم دید گواہ بھی ہیں.

ahmad-iqbal has 32 posts and counting.See all posts by ahmad-iqbal