علمائے کلام سٹرنگ تھیوری کو کلمہ کیسے پڑھائیں گے؟


ایک مذہبی طبقہ با ر بار باور کراتا ہے کہ ہمارے مذہب میں موسیقی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مثال کے طور پر اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ سنے جانے والے عالمِ دین باقاعدہ کئی گلوکاروں، رقاصوں اور موسیقاروں کو ان کے فن سے توبہ کرا چکے ہیں اور چند روز قبل ان کے ماننے والوں نے پاکستان کے کسی شہر کے چوک میں آلاتِ موسیقی کو سرعام جلا کر ان عالمِ دین کی نظر میں اپنے لئے جنت میں ان گنت محلات بنوا چکے ہیں۔ ۔

دوسری طرف دورِ جدید سے علم الکلام کے ماہرین علمائے اسلام کے ہاں ایک روایت رہی ہے کہ جو سائنسی نظریہ منظر عامِ پر آیا وہ اسے اپنے مذہبی کتب سے ثابت کرنے لگے کہ دیکھیں ڈیڑھ ہزار پہلے اس نظریے کے اشارے ہماری کتب میں ملتے ہیں۔ علم الکلام کے ان ماہرین کی ایسی تحقیق (جن میں نتیجہ پہلے اخذ کیا جاتا ہے اور تحقیق بعد میں ہوتی ہے ) آج بھی اس قدر عام ہیں کہ آج بھی پڑھے لکھے لوگ اپنے عقائد کو سائنسی قرار دینے کے لئے ان کا حوالہ دیتے ہیں۔

اس وقت جب دنیا میں سٹرنگ تھیوری کا چرچا ہے تو علم الکلام کا کوئی ماہر یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کہ اس نظریے کے اشارے بھی ہمارے مذہبی کتب سے لئے گئے ہیں۔ تاہم یہ بات ہمارے اس عالم دین کے لئے خطرہ ضرور ہو سکتی ہے کہ اگر کسی علم الکلام کے ماہر نے مقدس کتابوں کی مدد سے سٹرنگ تھیوری کو کلمہ پڑھا دیا تو ہمارے عالم اور ان کے ماننے والوں کو کہیں موسیقی کے اصولوں پر چلتی اس کائنات سے باہر چھلانگ نہ لگانی پڑ جائے۔

ایسی کائنات میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے کیونکہ سٹرنگ تھیوری کی آنکھ سے ہم جس کائنات اور دنیا کو دیکھ رہے ہیں وہ بے جان مادے کا ڈھیر اور آوارہ گرد سیاروں کا صحرا نہیں بلکہ سانس لیتا آفاقی ترنم ہے۔ ایک دھن ہے۔ ایک نغمہ ہے۔ ایک ترانہ ہے۔ کائنات کی موجودہ تصویر ایک سریلی کائنات کی تصویر ہے۔ جس میں ہر مظہر مرتعش ہے اور اس کا انحصار ارتعاش vibrations  کی فی سیکنڈ تعداد پر ہے۔ اس دھن میں زیادہ تر دھیما سر لگا ہے۔ کائنات انتہاوں سے بچتی ہے۔ دھیما سر کائنات میں توازن اور ترنم قائم رکھتا ہے۔

اس کائنات کا ساز سنیں تو لگتا ہے ہمارے نغموں کی بنیاد بننے والے ساتوں کے ساتوں سر کائنات کی ازلی دھن سے کشید کئے گئے ہیں۔ ان سات سرو ں میں پانچواں سر دو تین، چوتھا سر تین چار کے ماترے سے لگا ہے اور یہی سُر کائنات کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ جوہر میں الیکٹرانز کی رفتار کا تناسب 12 سے 6 اور 4 سے 3 ہے۔ علم ِ موسیقی اور جمالیات کے ماہرین اسے مترنم اور کومل سُروں کا سنگم کہتے ہیں۔ کائنات کی مدھر دھن انہی سُروں سے ترتیب دی گئی ہے۔

کوانٹم فزکس کی تصویر کو غور سے دیکھیں تو لگتا ہے کہ کائنات، قلب انسانی، حیات اور کائنات میں موجود چھوٹے سے چھوٹا ذرہ آفاقی تال پر دھمال ڈال رہا ہے۔

ناچتی، گاتی اور گنگناتی کائنات کی یہ تصویر سائنس نے آج دیکھی ہے لیکن انسان نے اسے موسیقی کے اسرار و رموز کی مدد سے نہ جانے کب سے بے نقاب کر رکھا تھا۔ کیونکہ حقیقت اورجمالیاتی شعور ہم جنس ہیں۔ حقیقت حسن ہے اور شعور عشق۔ ذوقِ جمال کی جمالیاتی زقند یہ راز آلات سے پہلے پا سکتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ موسیقی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے علما کے برعکس کچھ صوفی سر اور آواز کو حقیقت کشائی کا بلند ترین وسیلہ قرار دیتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر مغرب کو تصوف سے روشناس کرانے والے صوفی بزرگ حضرت عنایت خان ؒ اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں۔

جو کوئی موسیقی کا علم رکھتا ہے وہ اس کائنات کے گہرے رازوں سے واقف ہے۔ میری موسیقی میری فکر ہے اور میری فکر میرا جذبہ۔ میں حقیقت کے سمندر میں جتنا گہرا ڈوبتا ہوں۔ اتنی ہی خوبصورت دھنوں کے موتی لے کر ابھرتا ہوں۔ میری موسیقی دوسروں کو محظوظ اور مسحور کرنے سے قبل مجھے وجد میں لے آتی ہے۔ موسیقی کا مول دنیا کی دولت نہیں چکا سکتی۔ ”

موسیقی اپنے ہونے کی دلیل خود آپ ہے۔ حقیقت کی طرح موسیقی بھی وجود رکھنے کے لئے وجود کی بھی محتاج نہیں۔ یہ شعور اور ہمارے ذوقِ جمال سے مخاطب ہوتی ہے کیونکہ یہ خود شعور اور حسن کا حصہ ہے۔ حسن جب سنائی دینے لگے تو موسیقی بن جاتا ہے۔ دکھائی دینے لگے تو رنگ ہو جاتا ہے۔ موسیقی کی زبان میں حسن و شعور اپنے ہونے کی گواہی خود دیتا ہے۔

 حضرت عنایت خان ؒ فرماتے ہیں۔

” موسیقی اور رنگ حقیقت میں ایک ہیں۔ رنگ سُر اور سُر رنگ ہے۔ جب موسیقی رنگوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے تو دکھائی دینے لگتی ہے۔ جب رنگ موسیقی کا روپ دھارتا تو سنائی دینے لگتا ہے’’۔

ہم رنگوں اور موسیقی کا تجربہ فطرت کے حسن میں کرتے ہیں۔ دیکھیں ! پرندے گا رہے ہیں۔ ناچ رہے ہیں۔ پتوں کی سرسراہٹ میں ترنم ہے۔ موسیقی ہے۔ توازن ہے۔ حسن ہے۔ آفاقی ساز مسلسل بج رہا ہے اور درخت جھوم رہے ہیں۔ کیف و مستی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فطرت کثافتوں سے پاک ہے۔ ہمیں مختلف رنگوں کا ترنم ”سنا ئی” صاف دے رہا ہے اور ہر زردہ تھیا تھیا ناچ رہا ہے۔ اپنے اندر کی آواز سنیں۔ ہمارے حواس ہم پر ہم آہنگی اور توازن کا راز فاش کر رہے ہیں۔

 حضرت عنایت خان ؒ  کہتے ہیں :

”موسیقی کائنات کی ہم آہنگی کا مختصر پیمانہ ہے۔ کائنات کی ساری لطافتوں کو صرف موسیقی کے ترازو میں ہی تولا جا سکتا ہے۔ کائنات کا سُریلا پن زندگی کا دوسرا نام ہے۔ اور موسیقی ترتیب دے والی اور ذوق رکھنے والی نابغۂ روزگار ہستیاں دراصل حقیقت کی تلاش مطلق ہم آہنگی کی تلاش کے روپ میں کرتی ہیں ’’۔

کوانٹم فزکس ہمیں یہی بتا رہی ہے۔ مادہ ”ہونے” کے لئے اپنا رجحان یا امکان ظاہر کرتا ہے۔ اور یہ ہر سطح پر مخصوص مقداروں کے ساتھ منسلک رہتا ہے جو لہروں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ یہ لہریں اُن ریاضیاتی اشکال کی مانند ہیں جو گٹار کے تانت، سُر یا موجی طول کو ظاہر کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔

عصری طبیعات کائنات کو موسیقی کا مجازی ظہور قرار دے رہی ہے۔ اس کے نزدیک کائنات کی بنیادی اکائی ستار کے تنے ہوئے تار کی مانند ہے جس پر کوئی مشاق موسیقار مسلسل اپنی انگلی چلا رہا ہے۔ کائناتی ستار کے یہ تار ایک پروٹان سے سو بلین گنا چھوٹے ہیں ! تمام بنیادی قوتیں، فطرت کے تمام ذرات قدرت کے اس ستار کی باریک تاروں سے پیدا ہونے والی موسیقی کے ارتعاش ، یعنی vibrations کے سوا کچھ نہیں۔

حضرت عنایت خانؒ کہتے ہیں۔

 انسان کائنات کا حصہ بلکہ صغریٰ ہے۔ ایک چھوٹی کائنات۔ بڑی کائنات کی طرح سانس لیتی کائنات۔ انسان کی نبض اور دل کی دھڑکن کائنات کے ترنم سے ہم آہنگ بھی بھی ہوسکتے ہیں اور بے ربط بھی۔ یاد رہے کہ انسان کی دھڑکن کا مذہب ترنم اور سانس کا ردھم ہے۔ اُس کی صحت اور بیماری، اُس کی خوشی اور غم۔ ۔ اُس کی زندگی میں ردھم یا اس کی عدم موجودگی کا پتہ دیتا ہے ”۔

اس کا مطب ہے انسان کی خوشی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ زندگی کے بنیادی سُروں سے ہم آہنگ ہے۔ اور اُس کا غم اس با ت کا ثبوت ہے کہ یہ سُر اس سے روٹھ گیا ہے۔ اب وہ کائنات کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل رہا۔ کیونکہ کائنات ایک نغمہ ہے۔ ایک ترانہ ہے۔ کائنات میں ہر فرد ایک سُر ایک ساز ہے۔ انسان کو خوشی اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ کائنات کے اس نغمے کو سب کے ساتھ مل کر گاتا ہے۔ جب اس کی تال کائنات کے ذرے ذرے کی تال سے مل جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).