اوشو۔ مسرت کا التباس


تاریخ میں بڑی جنگوں اور خشک سالیوں یا دیگر آفات نے جب انسانی وجود کو خطرے سے دوچار کیا تو اکثر انسانوں نے مذہب یا دروں بینی کے فلسفہ میں پناہ لی (اگرچہ اسے ایک قانون بنا کر پیش نہیں کیا جا سکتا)۔ یوں اس نے معروضی حالات کی بدصورتی یا ناگواری سے تعلق توڑنے کی خاطر اپنی ذات میں فرار ہونا چاہا۔ پہلی اور بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد زیادہ تر یورپ میں یہی صورت حال تھی۔ فرائیڈ اور سارتر کی انسانی وجود کی گہرائیوں میں اترنے کی سعی اور انسانی لاشعور کی زیارت اسی عمل کا حصہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ برصغیر اور مشرق (اگر اس اصطلاح سے جغرافیائی مشرق کی بجائے ملتے جلتے مذہبی رجحانات پر مائل خطہ مراد لی جائے) میں یہ طرز عمل قدیم دور سے ہی جاری ہے۔ کچھ محققین نے اسے موسمی حالات کا نتیجہ قرار دیا تو کسی نے خلقی یاسیت پسندی اور بے عملی کا مظہر۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس رجحان کی وجہ کیا وہی ہے یا تھی جو اوپر بیان کی گئی: یعنی بیرونی حالات سے تعلق توڑنا۔ مگر اتنا یقینی ہے کہ مشرق میں تحصیلِ ذات اور مراقبہ کے ذریعے نجات یا الوہی درجوں تک پہنچنے کی روایت ہر گز نئی نہیں۔

سرمایہ داری کی پابندیِ وقت سرمایہ داری کے باعث منتشر ہوتے ہوئے سماجی و خاندانی نظام اور سرمایہ داری کے نتیجہ میں خود سے بیگانہ ہو چکے افراد کو روحانیت اور الوہیت کی باتیں اپنی طرف آسانی سے راغب کر لیتی ہیں۔ چاہے ان کا تعلق بالائی مراعات یافتہ طبقے سے ہو یا روحانی و مادی طور پر معلق درمیانے طبقے سے۔ ان کی روحانی ضرورت خود ہی ”پہنچے ہوئے“ یا الوہی افراد کو تخلیق کر لیتی ہے۔ چنانچہ کلر تھراپی، ریکی، یوگا وغیرہ جیسی شفا بخش نام نہاد سائنسیں یورپ میں مقبول ہوئیں لیکن ان کا اصل وطن چین ہندوستان وغیرہ سے ہی تھا۔ ان ممالک کے یہ ”عوام“ جن لوگوں کے ذریعہ یورپ اور مغربی دنیا تک گئے۔ ان میں گرو رجنیش کا نام کافی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران لاہور سے گرو رجنیش کی پانچ چھ کتب کا اردو میں ترجمہ شائع ہوا۔ جن میں ”شہوانیت سے الوہیت تک، “ ”زندگی ایک نغمہ ایک رقص، “ لیکچرز، “ ”محبت، “ ”ایک گمراہ صوفی کی آپ بیتی“ اور ”مغرب کی منافقت“ وغیرہ شامل تھیں۔ بعد ازاں دیگر کئی اداروں نے بھی گرو رجنیش کی تحریروں (خطبات) کے تراجم شائع کیے جو نسبتاً کم معتبر تھے۔ ان کتب کا یکے بعد دیگرے تیزی سے ترجمہ کروایا جانا اور پھر چھاپنا اس بات کی دلیل ہے کہ قارئین اسے یا اس کے بارے میں پڑھنا چاہتے تھے۔ انہی دنوں راقم الحروف کو اس کی آپ بیتی کا ترجمہ کرنے کو دیا گیا، لیکن ابتدائی باب پڑھنے کے بعد ہی اسے واپس کر دیا اور ترجمہ کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ حالانکہ اگر اپنی رائے تحریر سے مختلف بھی ہو تو اسے ترجمہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ دیباچے میں تنقیدی نکتۂ نظر پیش کر دیا جائے۔ اسی غلطی کا ازالہ کرنے کی خاطر بعد ازاں اس کی کتاب ”مراقبہ“ ترجمہ کی جو ”ذات“ کو پانے کے لیے مختلف مشقوں اور ان کی تشریح پر مشتمل ہے۔

گرو رجنیش 11 دسمبر 1931ءکو مدھیہ پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوا۔ سات سال کی عمر میں اس کا دادا فوت ہو گیا اور اس حادثے کا اثر اس کی ساری بعد کی زندگی پر رہا۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کا دادا دنیا کا واحد شخص تھا جسے اس نے حقیقی معنوں میں محبت کی، اور دادا کی موت نے اسے اس قدر دکھ پہنچایا کہ کبھی کسی اور انسانی ہستی کے ساتھ قریبی تعلق نہ بنا سکا: ”تنہائی میری فطرت بن گئی۔ اس کی موت نے مجھے ہمیشہ کے لیے تمام بندھنوں سے آزاد کر دیا۔ اس کی موت میرے لیے تمام بندھنوں کی موت بن گئی۔ “ والدین نے اس کی پرورش کا ذمہ اٹھایا، لیکن وہ ایک مشکل، تنہائی پسند مگر باغیانہ بچہ تھا۔ ناقابل تردید طور پر ذہین ہونے کے باوجود وہ سکول میں متواتر مسائل کا باعث بنتا رہا۔ جھوٹ بولنا جیسے اس کی فطرت ثانیہ تھی۔ تاہم، اسے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ اور اسی کے نتیجے میں اس نے مشرقی مذہب اور مغربی فلسفہ کے بنیادی نظریات کا علم حاصل کیا۔ 1951ءمیں ہائی سکول سے گریجوایشن کرنے پر اس نے جبل پور کے Hitkarini کالج میں داخلہ لیا، لیکن بحث بازی اور اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی کی وجہ سے اسے کالج چھوڑنا پڑ گیا۔ تبھی اسے ایک طرح کی ”تخلیقی بیماری“ نے آ لیا۔

اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا، شدید سر درد میں مبتلا رہا اور اپنے اوپر تمام اعتبار کھو بیٹھا۔ آخر کار یہ تخلیقی بیماری کا عرصہ اختتام پذیر ہوا۔ رجنیش اسے 21 مارچ 1953ءکا واقعہ بتاتا ہے جب وہ ”کیف و سرور سے دیوانہ“ ہو گیا۔ اسی بیداری کے نتیجے میں وہ یونیورسٹی میں (جہاں اسے داخلہ دینے سے انکار کیا گیا تھا) فلسفے کا اسسٹنٹ پروفیسر بننے کے لیے درکار اہلیت حاصل کرنے میں لگ گیا۔ بطور مسحور کن لیکچرر اس نے ہندوستان بھر میں سفر کیا اور بڑے بڑے مجمعوں سے خطاب کیا۔ اگرچہ وہ دانش بھری اور دلچسپ باتیں بتانے کا اہل تھا، مگر مروج خیالات کو جھٹلانے کے باعث کافی مخالفت بھی پیدا کر لی۔ مثلاً اس نے مہاتما گاندھی کو جنسی کجرو اور مدر ٹریسا کو فراڈ قرار دیا۔ وسیع مطالعہ پر مبنی اس کی تعلیمات بدھ مت، ہندومت، مسیحیت اور اسلام کا ملغوبہ تھا۔ اس نے یہ ملغوبہ ایسے پرکشش انداز میں پیش کیا کہ بہت سے سنیاسی (شاگرد) پیدا کر لیے۔ 1971ءمیں رجنیش نے بھگوان کا لقب اختیار کیا۔ انگلش نفسیات دان Anthony Storr کے مطابق اس میں شک کی گنجائش بہت کم ہے کہ وہ اپنی الوہیت پر یقین رکھتا تھا کیونکہ ایسی ہی ذہنی حالت سے دوچار دوسرے خود ساختہ ’پیغمبروں‘ کی طرح اس نے اپنے بالوں اور کترے ہوئے ناخنوں کو بھی مقدس خیال کیا اور انہیں متبرکات کے طور پر ڈبیوں میں ڈال کر سنیاسیوں کو دیا کرتا تھا۔ یہ چیز اس کی نرگسیت پر بھی دلیل ہے۔ اسی طرح رجنیش نے یہ بھی اصرار کیا کہ اس کی ہر تصویر خاص پوز میں ہو اور روشنی چہرے پر اس طرح پڑے کہ بہترین نقوش نمایاں ہو جائیں۔

1970ءکے عشرے میں اس کی شہرت پھیلتی گئی اور دنیا بھر سے لوگ اس کے آشرم (پونا) میں آنے لگے۔ 1974ءکے بعد سے چھ ہزار سنیاسی آشرم میں رہائش پذیر تھے جبکہ ہر سال تیس ہزار کے قریب مہمان بھی آتے۔ یہ ایک بہت بڑا کاروبار تھا: ماہانہ 2 لاکھ ڈالر کا منافع۔ رجنیش امیر ہونے لگا۔ 1981ءمیں وہ ہندوستانی ٹیکسوں سے بچنے کی خاطر یو ایس اے چلا گیا اور ساٹھ لاکھ ڈالر میں اوریگون میں 64000 ایکڑ سے زیادہ رقبے پر محیط دوسرا سب سے بڑا رینچ خریدا۔ یہاں اس نے ایک نیا آشرم تعمیر کیا۔ مستقل رہائش اختیار کرنے والے 2500 سنیاسیوں میں سے زیادہ تر سفید فام، متوسط طبقے کے، کالج سے تعلیم یافتہ اور پچیس تا پینتیس سال عمر کے لوگ تھے۔ رجنیش نے تعلیم دی کہ بیک وقت غریب اور مذہبی ہونا ممکن نہیں۔ وہ کسی شرم اور جھجک کے بغیر ”امیر آدمی کا گرو“ بنا۔

رجنیش پورم کی کامیابی کے دو تباہ کن نتائج برآمد ہوئے: آشرم کے سنیاسیوں کا مقامی آبادی سے تصادم اور خود بھگوان کی ذہنی اور جسمانی حالت میں تیزی سے بگاڑ۔ جِم جونز، ڈیوڈ کوریش اور دیگر خود ساختہ ’پیغمبروں‘ کی طرح رجنیش بھی دولت، طاقت، خود پرستی اور لالچ میں کھو گیا۔ وہ ویلیئم کی بڑی مقدار کھاتا اور نائٹرس آکسائیڈ سونگھتا، سارا وقت ویڈیوز دیکھتے ہوئے گزارتا، رولز رائس کاریں، پلاٹینم گھڑیاں، رائفلیں اور آٹومیٹک کاربینیں اکٹھی کرنے میں لگا رہتا۔ آشرم کا انتظام و انصرام تیزی سے بگڑتا گیا۔

آخر کار اس کی قریب ترین اور سب سے زیادہ با اعتبار سنیاسن شیلا نے آشرم کا انتظام سنبھال لیا۔ وہ خوفناک ڈکٹیٹر ثابت ہوئی۔ آشرم میں مہلک ہتھیاروں کا ذخیرہ بڑھتا چلا گیا۔ رنیچ کے لیے ایک خصوصی پولیس فورس بنائی گئی، سنیاسیوں کو رینچ کی حدود سے باہر جانے سے منع کر دیا گیا۔ ان کی کالز ٹیپ کی جاتیں اور کمروں میں جاسوسی کے آلات نصب تھے تاکہ ممکنہ غداروں کا سراغ لگایا جا سکے۔ بے کل ثابت ہونے والے سنیاسیوں کے کھانے مُسکن ادویات کی بھاری مقدار ڈال دی جاتی۔ جب مقامی الیکشن کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوا کہ آشرم کے تعمیراتی منصوبوں کا مخالف دھڑا برسراقتدار آ جائے گا تو شیلا نے اپنے کارندوں کے ساتھ مل کر سلاد بارز اور اور ریستورانوں میں کھانے کو نقصان دہ جراثیم سے آلودہ کر دیا اور یوں سلمونیلا وبا پھوٹی۔ اس اور دیگر جرائم کے حوالے سے شیلا پر مقدمہ چلا اور طویل قید کی سزا سنائی گئی۔ رجنیش یو ایس حکام کے ساتھ سودے بازی کر کے واپس ہندوستان فرار ہو گیا۔ مبصرین اور ناقدین نے اسے سیکس گرو، تماشا باز، رولز رائس گرو اور مسخرا جیسے القابات سے نوازا۔ البتہ وہ اپنی آپ بیتی میں ان القابات کی توجیہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ (امریکہ میں ”اوشو انٹرنیشنل“ نامی ایک تنظیم گرو رجنیش کی کتب اور آڈیو کیسٹوں کے علاوہ دیگر وراثتوں کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ گرو رجنیش کو ”اوشو“ کہا جائے۔ )

مغرب کے لیے گرو رجنیش عرف اوشو کی اہمیت غالباً اس کا یہ فلسفہ ہے کہ جنسی عمل کے سرور کے ذریعے الوہی سرور کا تجربہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا یہ فلسفہ ”شہوانیت سے الوہیت“ (کاما سے راما) میں بہت وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ شہوانی بلکہ مجامعتی عمل کا نقطۂ عروج الوہیت یا ماورائیت تک پہنچنے کی سیڑھی بن سکتا ہے۔ لیکن وہ اس سرور یا وجدان کو شعوری مراقبہ میں تبدیل کرنے پر بھی اصرار کرتا ہے اور اپنی ہی بات کی نفی کرتا ہے، یعنی ہیجان شہوت کے مطلق کیف اور بے خودی کے ’عالم‘ میں شعوری اور ارادی ارتکاز کی کوشش! اس کے خیال میں انسان کو ہر قسم کی سماجی پابندیوں سے آزاد ہو کر جینا چاہیے، البتہ اس کے آشرم کے قواعد و ضوابط (مثلاً اپنی سوچیں اور جوتے باہر ہی چھوڑ آئیں) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ہر قسم کے مذہب، ہر قسم کے سماجی اصول اور ضوابط کو مسترد کر دینا، اپنے اندر سے کھرچ کر نکال دینا چاہیے تاکہ امن و محبت اور الوہیت سے عبارت خیالی دنیا کو عملی روپ دیا جا سکے۔ وہ آزاد جنسی روابط کا نہ صرف قائل بلکہ مبلغ ہے۔ ظاہر ہے یہ چیز اس کے مغربی سامعین کو ان کے انداز زندگی کی ایک فلسفیانہ یا فکری اساس فراہم کرنے کے لیے کافی تھی۔

گرو رجنیش اپنے گرویدہ انسانوں کو ہر قسم کے بندھن سے آزاد کر دینا چاہتا ہے، چاہے وہ شادی کے بندھن ہوں یا خاندانی زندگی کے۔ دوسری طرف وہ اپنی نانی، دادا اور باپ کا ذکر (آپ بیتی میں) بڑی محبت اور لگاؤ کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ انسان کو ایک کل اور عالمگیر اکائی کا حصہ بننے، اپنا آپ بھلا دینے کا درس دیتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے گاؤں، بچپن کی یادوں سے بھی بہت حد تک بندھا ہوا ہے۔ اس نے مذہب اور مذہبی طور طریقوں اور دنیاوی عقائد کو مسترد کیا، مگر دوسری طرف اپنا ایک نیا مذہب تشکیل دینے کی کوششوں میں لگا رہا جس کے اپنے طور طریقے، رسوم، ضوابط اور عقائد تھے۔ وہ قدیم ہندوستانی مذہب کی ہی اصطلاحات مثلاً بھاگوان، سنیاس، نروان وغیرہ کو اختیار کرتا ہے۔ البتہ نئے مفہوم کے ساتھ۔ یوں سمجھ لیں کہ اس نے پرانی مذہبی روایات کی تفسیر اپنے مغربی سامعین اور قارئین کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے کی۔ اس نے ایک مسیحا، ایک مُنّجی بننے کی کوشش کی، بلکہ کچھ عرصہ کے لیے تو کامیاب بھی ہو گیا۔ وہ کہتا ہے، ”گوتم بدھ نے مجھ میں پناہ لی ہوئی ہے، میں میزبان ہوں، وہ مہمان ہے۔ “ اس اعتبار سے وہ شدید قسم کا تفسیر پسند ہے۔

رجنیش بڑی چابک دستی کے ساتھ حقیقی اور طبعی چیزوں کو علامتی اور علامات کو حقیقی اور طبعی بنا کر دکھاتا ہے۔ وہ مذہب میں کنزیومر ازم کا داعی ہے، یعنی اسے کنزیومر یا صارف کی خواہشات اور تقاضوں اور سب سے بڑھ کر ”سہولت“ کے مطابق بنا کر پیش کرنا۔ مثلاً آپ روحانیت اور تحصیل ذات کی ’مشقیں‘ ضرور کریں: اگر دن میں ایک گھنٹہ نکال لیں تو کافی ہے، ورنہ دفتر میں کرسی پر بیٹھے بیٹھے، اگر یہ نہیں ہو سکتا تو بس میں سفر کرتے ہوئے، اگر یہ بھی نہیں ہو سکتا تو چلتے پھرتے یا نہاتے ہوئے یا سونے سے پہلے۔ یہ مذہب کو کیمپنگ کے چاقو کی طرح بنا کر پیش کرنے والی بات ہے جس میں کئی چھوٹے بڑے پھل، پیچ کس، چھوٹے چھوٹے رینچ، قینچی، بوتل کا ڈھکن اتارنے والا آلہ اور لیور بھی ہوتا ہے کہ کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ تو کام آئے گا۔ یا پھر آپ اسے اے بی ایس ’بنانے‘ والی یا مساج مشین سمجھ لیں جو دفتر میں بیٹھ کر کام کرتے ہوئے کسی مخصوص حصے پر اپنا عمل جاری رکھتی رہتی ہے۔ آپ کو دو نمبر چینلوں پر ایسی کئی پروڈکٹس کے اشتہاری پروگرام ملیں گے۔ ایک صوفہ جو سونے کا کام بھی آتا ہے، بچوں کے کھیلنے کے بھی، میز کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے اور ہوا نکال کر اسے الماری میں سنبھالا بھی جا سکتا ہے۔ کون نہیں چاہے گا کہ مذہب (جو جدید طرز حیات و مصروفیات سے تصادم رکھتا ہے) بھی ایسا ہی ”سہولت بخش“ ہو جائے؟ صارفین اسے اپنی نجی ’تسکین‘ کے لیے ’استعمال‘ کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ اس کو اپنانے کے چکر میں خود صرف ہونا۔ اگر اوشو کا کوئی کارنامہ ہے تو یہی: یعنی صارفین کی اس ضرورت کو پورا کرنا۔

اگر کوئی عیسائی ’جسم کے گناہ‘ کی وجہ سے احساس جرم میں مبتلا ہو تو اسے اوشو کے ہاں تسکین ملتی ہے۔ اگر کوئی معاشرتی ذلت کا شکار ہے تو اسے اوشو کی تفسیر پسندی شیو کے مسکن کیلاش کی بلندیوں تک لے جاتی اور پاروتی کے سامنے بٹھا کر مبہوت کر دیتی ہے۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ دولت ہے تو اوشو اس کو قابل توجیہ بناتا اور اپنے آشرم کا ”تیاگ“ والا ماحول پیش کرتا ہے، تاکہ ”صارف“ فطرت اور ذات کی پنہائیوں میں کچھ دن گزارے اور اپنی انا پر لدے ہوئے بوجھ سے کچھ عرصہ کے لیے چھٹکارا پا لے۔ مابعد جدیدیت دور میں یہ پیکیج عین مناسب ہے۔
اوشو کا تجزیہ یا اس پر بات کرتے ہوئے مجھے کارل مارکس کا ایک اقتباس بار بار یاد آتا ہے جس کا جزوی حوالہ تو بہت زیادہ دیا گیا، لیکن مکمل دو تین سطروں کو پڑھنا کافی بصیرت افروز ہو گا:
”مذہبی تشویش (distress) حقیقی تشویش کا اظہار اور ساتھ ہی ساتھ حقیقی تشویش کے خلاف احتجاج بھی ہے۔ مذہب استحصال زدہ مخلوق کی آہ ہے، بے دل دنیا کا دل، اور اسی طرح ایک بے روح صورت حال کی روح ہے۔ یہ لوگوں کے لیے افیون ہے۔ لوگوں کی التباسی مسرت کے طور پر مذہب کا خاتمہ حقیقی مسرت کے لیے ضروری ہے۔ اس کی حالت کے متعلق التباس کو ترک کرنے کا مطالبہ التباس کی ضرورت مند حالت کو ترک کرنے کا مطالبہ ہے۔ “

اوشو کے ”فلسفہ“ پر میرا بڑا اعتراض یہی ہے کہ یہ افیون جیسا تاثر پیدا کرتا ہے، تحریر سے زیادہ تقریر میں یہ امر زیادہ واضح ہے جس میں آواز کا زیر و بم، وقفہ، ہاتھوں کے اشارے اور آنکھوں کی حرکات بھی مدد کرتی ہیں۔ وہ مسرت کا التباس پیدا کرتا ہے، جبکہ حقیقی مسرت کب کی نابود ہو چکی ہے۔ اس حقیقی مسرت کو پانے کی کوشش شاید معمولات زندگی میں خلل پیدا کرے، لہٰذا التباس نہایت کارآمد ہے۔ جوزف کیمپ بیل کے مطابق، ”اسطورہ ایک عوامی خواب ہوتا ہے، اور خواب ایک نجی اسطورہ۔ “ عوامی خواب کو نجی اسطورہ بنانا یا بنا کر پیش کرنا ہی اوشو کا اصل فن ہے۔
غور کرنا چاہیے کہ اس التباس کو پیدا کرنے اور اس کے پیدا ہونے میں کیا عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).