اصل احتساب تو پیپلز پارٹی کا ہو رہا ہے


پاکستان میں احتساب کے دہرے قوانین کے حوالے سے مسلسل سوال اٹھ رہے ہیں اور ان سوالات کے اٹھنے کی وجوہات نظرانداز کئے جانے کے قابل نہیں۔ سندھ سے پیپلزپارٹی کے راہنما شرجیل میمن کے خلاف ان کے مؤقف کو جانے بغیر اور ملک میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے باوجود نیب نے ریفرنس دائر کئے اور عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کردیئے۔

دوسری جانب خصوصا پنجاب، خیبرپختوںخوا اور بلوچستان میں پہلے سمن جاری کیا جاتا ہے، پھر قابل ضمانت وارنٹ اور پھر بھی اگر ملزم پیش نہ ہو تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوتے ہیں مگر سندھ میں اکثر سب سے پہلے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہوتا ہے۔

میاں نوازشریف وطن واپس آئے تو جہاز کی سیڑھیوں پر ایک گاڑی ان کے پروٹوکول کے لئے تیار کھڑی تھی، نیب افسران بیان لینے کے لیے آئے تو انہیں اسلام آباد ائیرپورٹ میں گھسنے تک نہیں دیا گیا جبکہ یہی ائیرپورٹ تھا اور یہی اہل کار جب شرجیل میمن کو گرفتار کرنے آئے تو جہاز کی سیڑھیوں سے ضمانت ہونے کے باوجود بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کرکے لے گئے۔

کیپٹن صفدر جب وطن واپس آئے تو ان کے وارنٹ گرفتاری موجود تھے، ان کی کوئی ضمانت نہیں تھی، نیب اہل کاروں نے انہیں ( میڈیا رپورٹس کے برعکس) گرفتار نہیں کیا بلکہ احتساب عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی پروٹیکشن میں انہیں لے کر آئے ہیں، عدالت نے ذاتی مچلکوں پر کیپٹن صفدر کو چھوڑ دیا۔

شرجیل میمن کو چند روز قبل کراچی سٹی کورٹ میں احاطہ عدالت سے بغیر وارنٹ گرفتار کیا گیا جبکہ کچھ برس قبل جب سندھ ہائی کورٹ کے باہر کبوتر چورنگی سے ذوالفقار مرزا کے سیکیورٹی گارڈز کو گرفتار گیا تھا تو چیف جسٹس نے نوٹس لے کر اعلیٰ پولیس افسران کو معطل کردیا تھا، اس پر مستزاد یہ کہ انوسٹی گیشن آفیسر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ شرجیل میمن کو احاطہ عدالت سے نہیں بلکہ پاسپورٹ آفس سے فرار ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا جبکہ اسی نیب کے اہل کاروں نے احتساب عدالت کو بتایا کہ شرجیل میمن کو فرار ہوتے ہوئے صدر کے علاقے میں مسجد خضریٰ کے پاس سے گرفتار کیا گیا، یہ وہ معاملات ہیں کہ ان پر پراسرار طور پر میڈیا بھی خاموش رہتا ہے جبکہ عوام کا حق ہے کہ وہ اس کھلے تضاد سے واقف ہوں۔

نیب ریفرنس پر تحریک انصاف کے علیم خان کو طلب کیا گیا، شرجیل میمن کے برعکس علیم خان کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے بلکہ انہیں پہلے سمن جاری کیا گیا، انہوں نے عدالت سے اربوں روپے فراڈ کے ریفرنس میں اسٹے آرڈر کی درخواست دی اور انہیں اسٹے آرڈر بآسانی مل گیا۔

پورے پاکستان میں ملزم کی ضمانت اس وقت منسوخ ہوتی ہے کہ جب وہ عدالت میں پیش نہ ہو یا مزید تفتیش کے لیے ملزم کی ضرورت ہو مگر سندھ میں عموماً ایسا نہیں ہوتا، شرجیل میمن مقدمات کا سامنا کرنے وطن آئے، مسلسل عدالتوں میں پیش ہوتے رہے، سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ چلا اور فیصلہ محفوظ ہوگیا، محفوظ فیصلہ کبھی سنایا نہیں جاسکا اور پھر دوبارہ وہی کیس چلا جس کی ہر سماعت میں یہ موجود رہے، جب شرجیل میمن گرفتار کیا گیا تو نیب کی استدعا پر انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا یعنی نیب کو تفتیش کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوئی، اگر یہ مسلسل پیشی پر حاضر ہورہے تھے اور تفتیش کی ضرورت نہیں تھی تو گرفتاری کی کیا وجہ تھی، قوانین کے دہرے نفاذ پر کسی بھی غیرجانب دار حلقے سے آواز نہ اٹھنا بھی پاکستان کے صحافتی رویوں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

سندھ میں نیا احتسابی قانون بنا تو شرجیل میمن اس قانون کو بنانے والی ٹیم میں شامل تھے، انہوں نے سندھ کے وزیراعلیٰ کو خط لکھا کہ ان کے مقدمات نئے قانون کے تحت صوبائی احتسابی ادارے کو منتقل نہ کیے جائیں بلکہ وہ نیب ہی میں قوانین کا سامنا کریں گے تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ شرجیل میمن نے نئے قوانین کا فائدہ اٹھایا، شرجیل میمن پر پانچ ارب 76 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام لگا، یہ وہ رقم تھی جو شرجیل میمن کی جیب میں نہیں آئی بلکہ اشتہارات کی مد میں میڈیا ہاؤسز کو دی گئی، نیب نے الزام لگایا کہ اشتہارات زیادہ نرخوں پر دیئے گئے جبکہ اشتہارات وفاق سے 23 فیصد کم قیمت پر دیئے گئے تھے، نیب کے سابق چیئرمین کے صاحبزادے کی بھی اشتہاری ایجنسی کو اشتہارات جاری ہوئے، قمر زمان چوہدری نے ریفرنس بناتے ہوئے اپنے صاحبزادے تک سے نرخوں کو دریافت نہیں کیا اور بظاہر ایک متنازع ریفرنس فائل کر دیا۔

میاں نوازشریف کی سہولت کے لیے نیب کے تینوں ریفرنسز کو یکجا کرنے کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے، یوسف رضا گیلانی ایک کیس میں 26 الگ الگ پیشیاں بھگتا رہے ہیں، ان کا سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے کہ کم ازکم ان کے مقدمات کو یکجا کیا جائے مگر ان کے لیے نیب کے الگ قوانین ہیں۔

شرجیل میمن کے گھر سے اربوں روپے برآمد کرکے میڈیا پر خبر چلادی گئی اور بعد میں مخصوص میڈیا ہاؤس نے معافی مانگ لی مگر ایک وزیر کے کردار کی دھجیاں اڑگئیں، وہ آج تک وضاحت کرتے پھررہے ہیں، یہی صورت حال دیگر کے ساتھ بھی پیش آتی ہے، عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اس میں کہیں یہ لکھا ہے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور نے انہیں کسی قتل کا حکم دیا جبکہ جے آئی ٹی میں ایسا کچھ نہیں لکھا بلکہ عزیر بلوچ کے ہاتھ سے مجسٹریٹ کو لکھا گیا 164 سی کے بیان میں اس کا ذکر موجود ہے، یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ عزیر بلوچ نے جو انکشافات حساس اداروں کے قابل ترین اہل کاروں کی زبردست تفتیش کے بعد نہ کیے، وہ ایک مجسٹریٹ کے سامنے کیسے کر دیے۔

قوانین کا دہرا نفاذ اور خبروں کی ترسیل کے نظام میں گڑبڑ کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کسی کی عارضی کامیابی کی وجہ تو بن سکتی ہے مگر مستقل طور پر یہ ملک وقوم کا نقصان ہے، یہ عوام کو بے وقوف بنانے کے بھی مترادف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).