علم محدود اور جہل لامحدود ہے


کارل پوپر بیسویں صدی کا عظیم ترین فلسفی تھا جس نے تاریخ فلسفہ میں ڈھائی ہزار سال سے زیر بحث ذرائع علم کے سوال کو رد کیا اور اس جگہ معروضی علم کا ایک نیا تصور پیش کیا۔ درج ذیل تحریر اس کے ایک بہت معرکة الآرا مضمون ( On the Sources of Knowledge and of Ignorance)کے آخری دو حصوں کا ترجمہ اور کچھ تلخیص ہے۔

(1) علم حاصل کرنے کا کوئی حتمی ذریعہ نہیں۔ ہر ذریعہ، ہر رائے قابل پذیرائی ہے اور ہر رائے، ہر ذریعے کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ تاریخ کے علاوہ ہم بالعموم حقائق کی چھان پھٹک کرتے ہیں نہ کہ ذرائع علم کی۔

(2) علمیات کا اصل مسئلہ ذرائع کے بارے میں نہیں بلکہ پیش کردہ دعوے کے متعلق یہ جاننا ہے کہ کیا یہ سچ ہے۔ یعنی کیا یہ حقائق سے مطابقت رکھتا ہے؟ ۔۔۔ یہ جاننے کے لیے ہم جہاں تک ممکن ہو، دعوے کو بلاواسطہ طور پر جانچنے کی یا اس کے نتائج کی جانچ پڑتا ل کی سعی کرتے ہیں۔

(3) اس جانچ پڑتال کے ضمن میں ہر قسم کے دلائل مفید مطلب ہو سکتے ہیں۔ اس عمومی طریق کار کے مطابق ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں آیا ہمارے نظریات ہمارے مشاہدات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ ہم اس بات کی جانچ بھی کر سکتے ہیں کیا ہمارے تاریخی ذرائع داخلی اور باہمی طور پر مطابقت کے حامل ہیں؟

(4) جبلی علم کے علاوہ کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا ذریعہ علم روایت ہے۔ ہم اپنا بیشتر علم تقلید، دوسروں سے سن کر اور کتابیں پڑھ کر حاصل کرتے ہیں۔ تنقید کے فن پر مہارت حاصل کرنا، تنقید کو قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا، اور صداقت کا احترام کرنا بھی علم حاصل کرنے کا وسیلہ بنتے ہیں۔

 (5) ہمارے ذرائع علم کے زیادہ تر روایتی ہونے کی حقیقت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روایت دشمنی کا رویہ عبث اور بے سود ہے۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ روایت پرستانہ رویہ درست ہے۔ روایت سے حاصل ہونے والے ہر علم، یہاں تک کہ خلقی علم، کو بھی تنقید کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ تاہم روایت کے بغیر علم کا وجود تقریباً ناممکن ہو گا۔

(6)  علم کا آغاز نہ تو خلا میں ہوتا ہے نہ ورق سادہ سے اور نہ مشاہدہ سے۔ علم کا سفر دستیاب علم میں ترمیم و اضافے سے آگے بڑھتا ہے۔ اگرچہ بعض اوقات مثلاً علم الآثار میں کوئی اتفاقی مشاہدہ کسی نئی دریافت کا سبب بن سکتا ہے، تاہم نئی دریافتوں کا بالعموم سبب سابقہ نظریات میں ترمیم و اضافے کی ہماری صلاحیت پر ہی مبنی ہوتا ہے۔

(7)  علم کے رجائی اور قنوطی نظریات دونوں یکساں طور پر غلط ہیں۔ (حالانکہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ تمام حیوانات اور نباتات کے مانند انسانوں کو بھی خلقی علم میسر ہوتا ہے۔) بلاشبہ مظاہر کی یہ دنیا غار کی دیواروں پر نظر آنے والے ہمارے سایوں کے مانند ہی ہے، لیکن ہم بسا اوقات غار سے باہر کی حقیقت سے بھی آگاہی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ دیمقراطیس نے کہا تھا صداقت بہت گہرائی میں پوشیدہ ہوتی ہے، لیکن ہم اس گہرائی میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پاس صداقت کی کوئی کسوٹی نہیں ہے اور اس حقیقت سے قنوطیت کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس دوسرے معیارات موجود ہیں جو اگر ہم خوش قسمت ہوں تو غلطی کو جاننے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں۔ وضاحت اور تمیز صداقت کا معیار نہیں ہیں لیکن ابہام اور انتشار غلطی کی علامت ہو سکتے ہیں۔ بعینہ نظریات کا ارتباط اثبات صداقت کے لیے کافی نہیں لیکن تناقض اور تضاد غلطی کو ضرور واضح کرتے ہیں۔ تناقض سے آگہی کے بعد ہماری غلطیاں ہمارے لیے مدھم سرخ مشعلوں کے مانند ہوتی ہیں جن کی مدد سے ہم غار کی تاریکی سے باہر نکلنے کا رستہ تلاش کرتے ہیں۔

(8)  حسی مشاہدہ اور عقل میں سے کسی کو سند کا درجہ حاصل نہیں۔ عقلی وجدان اور تخیل بہت اہم ہیں لیکن وہ بھی لائق اعتماد نہیں۔ وہ بہت سے حقائق کو بڑی وضاحت سے منکشف کر سکتے ہیں لیکن ہمیں گمراہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے نظریات کا بنیادی منبع ہونے کی بنا پر وہ ناگزیر ہیں، لیکن ہمارے بیشتر نظریات بہر طور غلط ہوتے ہیں۔ مشاہدہ اور عقل بلکہ تخیل کا بھی سب سے اہم وظیفہ یہی ہے کہ وہ ہمارے ان جرات مندانہ مفروضات کو تنقید کی کسوٹی پر پرکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم نامعلوم کا کھوج لگاتے ہیں۔

(9)  وضاحت بجائے خود قابل قدر ہے لیکن صراحت اور صحت الفاظ کی کوئی حیثیت نہیں۔ زیر بحث مسئلے کا جتنا تقاضا ہو ہمیں اس سے زیادہ صراحت کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ لسانی صراحت ایک واہمہ ہے، الفاظ کے معانی اور تعریفات سے متعلق مسائل غیر اہم ہیں۔ الفاظ کی بس اتنی اہمیت ہے کہ وہ نظریات کو بیان کرنے کا آلہ اور وسیلہ ہیں، اس لیے لفظی مناقشات سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہیے۔

(10)  کسی مسئلے کا کوئی بھی حل بہت سے نئے حل طلب مسائل کو وجود میں لے آتا ہے۔ ہمارا اصل مسئلہ جتنا عمیق ہو گا، ہمارا پیش کردہ حل اتنا ہی جرات مندانہ ہو گا۔ کائنات کے متعلق ہم جس قدر زیادہ جانتے جائیں گے اور ہمارا علم جتنا وسیع ہوتا جائے گا تو اسی قدر شعور اور وضاحت سے ہم یہ بھی جان لیں گے کہ ہم کیا کچھ نہیں جانتے۔ یعنی اپنی جہالت سے آگاہ ہو جائیں گے۔ ہمارے جہل کا اصلی منبع اس حقیقت کا عرفان ہے کہ ہمارا علم محدود ہی ہو سکتا ہے لیکن ہماری جہالت لازماً لامحدود ہو گی۔۔۔ہم سب کے لیے یہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ ہم اپنے قلیل علم میں متفاوت اور مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اپنی لامتناہی جہالت میں ہم سب برابر ہیں۔

۔۔۔اگر ہم تلاش کریں تو ہمیں کسی فلسفیانہ نظریے میں، جو غلط ہونے کی بنا پر رد کیے جانے کے لائق ہو، کوئی ایسا صحیح تصور بھی مل سکتا ہے جو محفوظ رکھے جانے کے قابل ہو۔ کیا علم کے حتمی منابع کے نظریے میں ہمیں کوئی ایسا تصور مل سکتا ہے؟

میرا خیال ہے کہ ایسا ممکن ہے۔ اس نظریے کی تہہ میں جاری و ساری دو تصورات میں سے ایک تصور یہ ہے کہ ہمارے علم کا منبع مافوق الفطرت ہے۔ ان میں سے پہلا تصور غلط ہے، جب کہ دوسرے کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہ صحیح ہے۔

پہلا یعنی غلط تصور یہ ہے کہ ہمیں اپنے علم یا نظریات کا جواز مثبت وجوہ سے فراہم کرنا چاہیے یعنی ایسی وجوہ جو اسے ثابت کر سکیں یا اسے زیادہ سے زیادہ احتمال کا حامل قرار دے سکیں۔ بہرحال یہ ان وجوہ سے بہتر ہونی چاہیئں جنھوں نے اب تک تنقید کا سامنا کامیابی سے کیا ہے۔ میری رائے میں اس خیال میں یہ امر مضمر ہے کہ ہمیں صادق علم کے لیے حتمی یا مستند ذرائع سے رجوع کرنا چاہیے۔ تاہم اس میں سند کا معاملہ طے نہیں ہو پاتا، خواہ یہ سند مشاہدہ یا عقل کے مانند انسانی ہو، یا ماورائے انسان، یعنی مافوق الفطرت۔

دوسرا تصور، جس کی ناگزیر اہمیت پر برٹرینڈرسل نے بہت زور دیا ہے، یہ ہے کہ کسی انسان کی اتھارٹی کسی فرمان کے ذریعے صداقت کا اثبات نہیں کر سکتی۔ ہمیں صداقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے، کیونکہ صداقت انسانی اتھارٹی سے بالاتر ہے۔

ان دونوں تصورات کو جمع کرنے سے فوری نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ جن ذرائع سے ہمیں علم حاصل ہوتا ہے انھیں فوق الانسانی ہونا چاہیے۔ یہ نتیجہ اپنے آپ کو راست باز سمجھنے کے رویے کو پروان چڑھاتا ہے اور ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال پر اکساتا ہے جو الوہی صداقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔

ان لوگوں پر، جو بجا طور پر اس نتیجے کو رد کر دیتے ہیں، تاسف ہوتا ہے کہ وہ پہلے تصور یعنی علم کے حتمی ذرائع کے وجود پر اعتقاد کو رد نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ اس دوسرے تصور کو رد کر دیتے ہیں کہ صداقت انسانی اتھارٹی سے بالاتر ہے۔ چنانچہ وہ علم کی معروضیت اور عقلیت اور انتقاد کے مشترک تصورات کو معرض خطر میں ڈال دیتے ہیں۔

میرے خیال میں ہمیں علم کے حتمی ذرائع کے تصور کو ترک کرکے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تمام علم انسانی سعی و جہد کا نتیجہ ہے، جس میں ہماری خطاؤں، تمناؤں، خوابوں اور تعصبات کی آمیزش ہوتی ہے۔ ہم اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ صداقت کی تلاش جاری رکھیں خواہ یہ ہماری دسترس سے ماورا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ہماری جستجو اکثر الہامی ہوتی ہے لیکن ہمیں اس اعتقاد کے بارے میں بہت چوکنا رہنا چاہیے، اگرچہ یہ بہت راسخ ہے کہ ہمارا الہام خدائی یا کسی دوسری سند کا حامل ہوتا ہے۔ پس اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ہمارے حیطہ علم میں کوئی ایسی سند نہیں پائی جاتی جو تنقید کی دسترس سے ماورا ہو، چاہے ہمارا علم کتنا ہی نامعلوم کی سرحدوں میں دخیل کیوں نہ ہو، تب ہم بلاخطر اس تصور پر قائم رہ سکتے ہیں کہ صداقت انسانی اتھارٹی سے بالاتر ہے۔ ہمیں لازماً اس کی حفاظت کرنا چاہیے کیونکہ اس تصور کے بغیر نہ تحقیق کے معروضی معیارات کا وجود ہو گا، نہ ہمارے مفروضات پر تنقید، نامعلوم کی جستجو اور علم کی تحقیق ممکن ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).