شاہ لطیف بھٹائی: ایک تخلیقی جینیئس کا جنم!


تاریخ میں کچھ ایسے خوش بخت دن بھی آتے ہیں جن کی نسبت سے ہونے والے واقعات تایخ پر کبھی نہ مٹنے والے اثرات اور نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ تاریخ میں ایسے دن بھی آئے جنہوں نے قوموں اور معاشروں کے نام و نشان تک مٹا دیے اور تاریخ میں کچھ خوش  قسمت دن ایسے بھی آتے ہیں جو کہ قوموں٬ سماجوں اور زبانوں کی ارتقاء ابدیت اور قومی وحدت کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ شاہ لطیف کے جنم کا دن سندھ کی تاریخ٬ بلکہ میں کہوں گا کہ انسانی تاریخ کا وہ خوش  قسمت ترین دن ہے٬ جب سوا تین سو برس قبل اور فرینچ انقلاب سے پوری ایک صدی پہلے 1689ء میں برِصغیر کے ایک تاریخی وطن اور تہذیبی اکائی سندھ میں ایک عظیم شخص کا جنم ہوا جنہیں ہم شاہ لطیف کہتے ہیں۔ یہ راز تاریخ اور وقت کی کوکھ میں پنہاں تھا کہ شاہ عبدالکریم بلڑی والے کے تیسرے فرزند سید جمال شاہ کی تیسری نسل سے پیدا ہونے والے شاہ لطیف مستقبل میں نہ صرف سندھ بلکہ انسانی تاریخ کے ایک منفرد عظیم شاعر٬تخلیقی مفکر اور آرٹسٹ ثابت ہوں گے۔ یہ ایک عظیم عالمی جینیئس کا جنم تھا٬ جن کی شاعری٬ خیال٬ احساس٬ تفکر٬ زبان اور فن کا ایک غیرمعمولی تخلیقی معجزہ ہے۔ انہیں تو بس خود ان کے الفاظ سے ہی خراج پیش کیا جا سکتا ہے:

ڪوڙين ڪايائون تنهنجون، لِکن لکَ هزار

جيء سڀ ڪنهن جيءَ سين، دَرسن ڌارَون ڌارَ،

پريمَ، تنهنجا پارَ، ڪهڙا چئي ڪهڙا چوان.

سندھ کے اکثریتی سادہ لوح٬ عقائد کے غلام اور عقیدہ پرست لوگوں یا مجموعی طور پر انسانذات کو کیا معلوم کہ بھٹ شاہ کی دھرتی کی آغوش میں سویا ہوا یہ شخص کون ہے؟ ان کے آدرش٬ خیالات٬ افکار٬ خواب٬ احساسات اور تفکرات کیا ہیں؟ یا ان کے تصور کی کائنات کس قدر وسیع٬ خوبصورت اور حیرت انگیز ہے؟دنیا کو تو دور کی بات خود ان کے اپنے سماج کو کیا معلوم کہ جہالت اور عقیدہ پرستی کی خاردار سرحدیں کس طرح عوام اور شاہ لطیف کی فکر کی روح کے درمیاں صدیوں سے حدِ فاصل کا باعث بنی ہوئی ہیں جن کے ہوتے ہوئے شاہ لطیف کی مزار پر چادریں تو چڑھائی جا سکتی ہیں لیکن ان کے عظیم فکر٬ تخیلاتی زبان اور تخلیقی فن کو سمجھ کر اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں بامقصد بنایا نہیں جا سکتا۔ لطیف سائیں اس صورتحال کو سمجھتے ہوئے خود ہی کہتے ہیں کہ:

پاڙي ويڄَ هئام، تان مون مور نه پڇيا،

تيلاهين پيام، موريسر اکين ۾.

لطیف سائیں کو معلوم تھا کہ جن لوگوں کے شعور کی آنکھوں پر عقائد کی پٹی بندھی ہوگی ان کے لیے آس پاس میں موجود طبیب بھی بے سود ثابت ہوں گے٬ وہ اس طبیب کی شناسائی سے ہی قاصر ہوں گے۔ شاہ لطیف جیسے لوگ تو جسمانی طبیب نہیں بلکہ انسانی تصورات٬ خیالات٬ خوابوں٬ احساسات٬ دلوں ٬ ذہنوں اورروحوں کے طبیب ہوتے ہیں۔ ان کے حقیقی منصب اور درجے کو سمجھنے کے لیے جو آنکھیں اور شعور کی بلندیاں درکار ہیں سندھ اور برِصغیر کے اکثریتی عوام اس سے ہنوز محروم ہیں٬ وہ آنکھیں جو روحانی سمجھ اور شعور کی آنکھیں ہیں٬ جو ادراک اور تخلیقیت کی آنکھیں ہیں! وہ تخلیقی اور مفکرانہ آنکھیں جو کائنات کی تشخیص بھی کرتی ہیں اور اس کو تسخیر بھی کرتی ہیں اور خودشناسی کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔

اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ سندھ کی تاریخ کا سب سے خوش نصیب دن کون سا ہے؟ تو میں یہ ہی کہوں گا کہ شاہ لطیف کا جنم دن۔ شاہ لطیف کو ڈ اکٹر گربخشانی نے بطور ایک شاعر دریافت اور شناخت کیا ۔ سائیں جی ایم سید نے انہیں سندھ کے قومی شاعر کے طور پر پیش کیا اور رسول بخش پلیجو نے انہیں ایک عالمی انقلابی شاعر کے طور پر دریافت کیا٬ ڈ اکٹر تنویر عباسی نے شاہ لطیف کو ایک جمالیاتی شاعر کے طور پر پیش کیا۔ لطیف کی یہ تمام شناختیں درست ہیں لیکن میرے خیال میں لطیف محظ ایک شاعر نہیں بلکہ ایک غیرمعمولی مفکر تھے اور شاعری ان کا مقصد نہیں بلکہ ان کے عظیم فکر کے اظہار کا ایک حَسین٬ جمالیاتی اور تخلیقی ذریعہ تھی۔ ان کے افکار اور ادراک میں اتنا حسن موجود تھا اور ان کی تخیلاتی زبان فن کی ایسی بلندیوں پر تھی جہاں پر وہ اپنے ایسے عظیم خیالات صرف ایسے ہی خوبصورت انداز سے پیش کر سکتے تھے٬ اس سے کم خوبصورتی٬ فن کی بلندی اور اظہار کی جمالیات ان کے شعور کے شایانِ شان نہ ہوتی۔

جانب تون جيڏو، آهين شان شعور سين،

مون تي ڪر، منهنجا پرين! توهه تسي تيڏو،

اي ڪامِلَ! ڪم ڪيڏو! جيئن نوازينم نگاهه سين.

لطیف سائیں نے بھی اپنے درج بالا بیت کے مطابق بالکل ایسے ہی کیا٬ فکر اور دانائی کے اس مفکر شاعر نے یہ نہیں سوچا کہ لوگ پسماندہ ہیں٬ ہزاروں برس سے متروک عقائد کے جال میں مقید ہیں٬ عالمی انسانی شعور اور تفکر سے دور اور محروم ہیں٬ ادراک کی بلندیوں پر نہیں ہیں٬ لیکن انہوں نے اپنے شانِ شعور سے٬ دانائی٬ فن اور فکر کے خالص سرچشموں سے فکری طور پر پسماندہ سندھ اور برِصغیر کو اس قدر سیراب کیا کہ یک مشت فکری طور پر غریب الحال سندھ نے صرف ایک لطیف کی وجہ سے تاریخ میں وہ مقام حاصل کر لیا جس کے لیے قومیں ٬ معاشرے اور ادوار خواہشیں کرتے ہیں اور ترستے ہیں اور خواب سجاتے ہیں٬ لیکن المیہ یہ بھی ہے کہ صدیوں کے بعد بھی ہم بطور ایک پسماندہ اور عقیدہ پرست سماج کے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ شاہ لطیف اصل میں کون ہیں؟ وہ اصل میں ہیں کیا؟ کیونکہ لوگوں کی اکثریت آج بھی انہیں اولیاء سمجھتی ہے اور سندھ سے باہر لوگ انہیں ایک روایتی صوفی شاعر سمجھتے ہیں۔ ان کی فلسفیانہ وائیاں اور عظیم تخلیقی تصورات اور فنی بلندیاں اب بھی اکثریتی لوگوں کی نظروں اور شعور سے اوجھل ہیں۔ جب ایک معاشرہ ان کے افکارو اور فن کی عظمتوں کو سمجھنے سے محروم ہے تو ظاہر ہے کہ ان کے فلسفہ حیات کا اطلاق زندگی پر کرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہ جانتے ہوئے خود شاہ لطیف نے کہا ہے کہ:

هئين ته ويڄن وَٽِ، تون ڪيئن جيءَ جڏو ٿئين!

سِر ڏيئي ۾ سٽ، ڪهه نه ڪيئي ڊبڙا!

لطیف جیسے کامل رہبر کے ہوتے ہوئے سندھ اور برِصغیر کے کمزور٬ لاچار اور مجبور معاشرہ ہونے کی وجہ یہ ہی ہے کہ ابھی تک ہمارا سماج٬ قوم اور عوام انسانی تاریخ کے ایسے عظیم مفکروں کی حقیقی شناخت سے کوسوں دور ہیں۔ وہ خود ہی یہ دہائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے خود فریب تصورات کو قربان کرکے لطیف کے عظیم فکر سے فکری اور شعوری طور پر بیمار قوم کا علاج کرتے تو آج ہماری فکری قوت کا مقام کیا ہوتا؟

ہاں البتہ یہ بات اتنی آسان بھی نہیں٬ کیوں کہ لطیف کا پیغام محض خوبصورت شاعری نہیں جسے پڑھ کر صرف واہ واہ کی جائے٬ یہ تو بس کایا پلٹ کی بات ہے٬ ایک نئے انسان کے نئے فکری٬ روحانی ٬ جمالیایتی اور تخیلاتی جنم کی بات ہے۔ لطیف کا پیغام صرف شاعرانہ تصور کے فنی اظہار کی بات بھی نہیں کہ لوگ یوں ہی منفرد اور نئی بات پر واہ واہ کریں٬ یہ تو فکری٬ احساساتی اور روحانی طور پر ایک نئے انسان کی تخلیق کی بات ہے۔ لطیف کہتے ہیں کہ:

اَکِ الٽي ڌار، وَنء الٽو عامَ سِين،

جِت لَهوارو لوڪ وهي، ته تون اوچو وَهه اوڀار،

منجهان سوچَ نهارَ، وَنء پٺيرو پرينءَ ڏي.

شاہ لطیف کو معلوم تھا کہ اس زمانے کے مروج عقیدہ پرست خیالات٬ تصورات٬ غلامانہ اقدار نمک کی کان کے مترادف ہیں۔ اپنے ہمعصر دؤ ‏ ر کی فکری تقلید انسان کو کس قدر محدود کردے گی٬ اس سے تخلیقی شعور اور نئے انسان کی روحانی تشکیل کس قدر ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ اپنے مروج سماج کے عقیدہ پرست تصورات کی تقلید ہمیں ذہنی اور پس و پیش سماجی غلامی کے آگے سرنِگون ہونے پر ہی مجبور کرے گی۔ اس لیے شاہ لطیف نے برملا اس سے بغاوت کی اور زمانے کے دستور سے ہٹ کر ‘‘الٹی آنکھ’’ سے دنیا کو دیکھنے کی بات کی۔ یہ ‘‘الٹی آنکھ’’ دراصل تخلیقی اور تنقیدی شعور ہے٬ جس کی بات شاہ لطیف بار بار کرتے ہیں۔ بڑی بات کہ وہ یہ بات اٹھارویں صدی کے اس دؤ ‏ ر کے عقیدہ پرست اور سخت پس ماندہ ماحول اور دؤ ‏ ر میں کہہ رہے تھے جب برِصغیر میں مغل دؤ ‏ ر کا زوال شروع ہو چکا تھا اور مغربی معاشرہ نشاط الثانیہ کے دؤ ‏ ر سے گذر رہا تھا۔

رومی کی طرح شاہ لطیف کے فلسفہء حیات کا ایک بنیادی پہلو بھی عشق ہے اور شاہ لطیف عشق کے سفر کو بھی ‘‘الٹی انکھ’’ سے تعبیر کرتے ہیں۔ عشق کے تقاضے اور ہوتے ہیں اور اس لیے شاہ لطیف کے ہاں زندگی کا تصور عشق کے بغیر ممکن نہیں۔جو عاشق نہیں وہ یہ سفر طے نہیں کر سکتا اور طے کرنا تو دور کی بات وہ سفر پر جانے کے لیے پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ شاہ لطیف نے اس راز کو بڑے حسن اور باریک بینی کے ساتھ اپنے کلام میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

پهرين ڪاتي پاءِ، پڇج پوءِ پريتڻو،

ڏک پريان جو ڏيلَ ۾، واڄٽَ جيئن وَڄاءِ،

سيخن ماهه پچاءِ، جي نالو ڳيڙءِ نينهنَ جو.

دنیا کا کوئی بھی غیرمعمولی کام عشق کے بغیر ممکن نہیں۔ شعبہ اور سفر کوئی بھی ہو لیکن عشق اس کی پہلی شرط ہے۔ ادب٬ فن٬ انقلاب٬ سیاست٬ سائنس٬ مصوری٬ موسیقی٬ ایجادات٬ جستجو٬ تسخر٬ قربانی اور ذات کی نفی- یہ سب عشق کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے فلسفیوں کو بھی دانائی اور علم کے عاشق (Philosophia) کہا گیا۔ یہ تو فلسفی ہونے سے بھی آگے کی منزل کی بات ہے۔ شاہ لطیف کے ہاں صرف دانائی اور ادراک سے محبت ہی نہیں بلکہ زندگی پر اس کے اطلاق کی بات ہے۔ سراپا مجسمِ ادراک اور عشق ہونے کی بات ہے۔ دنیا کے تمام بڑے غیرمعمولی مفکروں اور فنکاروں کا قبیلہ ایک ہی ہوتا ہے٬ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ زندگی شناس ہیں جن کا تسلسل اس خطے میں شاہ لطیف بھی ہیں۔ رومی٬ حافظ٬ امیر خسرو٬ بابا فرید٬ بلھے شاہ٬ مادھو لال شاہ حسین٬ باہو٬ سچل سرمست٬ غالب٬ خواجہ غلام فرید٬ فیض اور شیخ ایاز بھی اسی دھارے میں آتے ہیں۔

شاہ لطیف کے ہاں کائنات ٬ فطرت٬ زندگی٬ خیال٬ گہرے احساس٬ تفکر اور ادراک کی وحدت کا غیرمعمولی امتزاج ہے۔ ان کے رسالہ کے تیس سروں میں ان کے کردار بظاہر مختلف ہیں۔ بظاہر ان کا تاریخی اور ثقافتی پس منظر٬ محرک٬ حالات اور استعارے مختلف ہیں لیکن حقیقت میں اگر ان کے تمام کرداروں کو گہرائی سے دیکھا جائے تو ان میں وحدت نظر آتی ہے۔ میری نظر میں شاہ لطیف نے ان تمام استعاروں کے امتزاج سے ایک نیا تصوراتی اور آئیڈیل انسان کا خاکہ تخلیق کیا ہے۔ یہ کردار بظاہر مختلف ہیں لیکن دراصل یہ ان کا کردار ایک ہی ہے۔ چاہے وہ سر کلیان میں محبت اور مقصدیت کی وحدت کی بات ہو یا ایمن کلیان میں محبوب٬ عاشق اور رہنما کا تصور ہو۔ کھنبات میں حسن و جمالیات کا مجسم تصور ہو یا سریراگ کا مسافر٬ سامونڈ ی کا سراپاء جستجو ونجارا ہو٬ عاشقانہ بغاوت اور جرئت کی علامت سوہنی ہو یا منزل پر سفر کو فوقیت دینے والی اور پنھوں کو اپنے اندر پانے والی سسئی ہو٬ وطن پر نچھاور ہونے والی مارئی ہو یا کاموڈ کا عاشق حکمران سموں جام تماچی ہو٬ جس نے عشق میں اپنے آپ کو ڈ ی کلاس کیا٬ کلاچی (کراچی کا اصل نام) کا مورڑو میربحر ہو یا سورٹھ رائے ڈ یاچ کا سر پر سَر قربان کرنے والا رائے ڈ یاچ ٬ کیڈ ارو کا سورمہ ہو یا آسا کا طالب٬ رِپ کا ہجر کا مارا عاشق ہو یا کھاہوڑی اور رام کلی کا جوگی اور تیاگی سنیاسی٬ کاپائتی کا کاتار ہو یا پورب کا کانگل٬ سر کارایل کا ہنس ہو یا پربھاتی کا منگتا- یہ تمام کردار بظاہر مختلف لگتے ہیں لیکن شاہ لطیف کے کلام میں فکر اور خیال کی وحدت کو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ یہ تمام ایک ہی کردار کی شکلیں یا خصلتیں ہیں۔ ان کی سوچ٬ رویوں٬ اقدار٬ جستجو٬ قربانی٬ بہادری٬ جرئت٬ باغیانہ مزاج٬ متحرک کردار٬ مسلسل سفر اور منزل سے بے نیازی٬ منزل سے سفر کو مشروط نہ کرنا اور پس و پیش اندر سے مکمل طور پر آزاد ہو جانا- ان کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ اس لیے میں شاہ لطیف کے تمام بظاہر مختلف کرداروں میں ایک غیرمعمولی کیفیتی وحدت تلاش کرتا ہوں اور پس و پیش ان کے تخلیقی کردار میں ایک ہی تصوراتی انسان کے خاکے کا عکس دیکھتا ہوں۔ جو شارح شاہ لطیف کے ان بظاہر مختلف کرداروں میں وحدت تلاش نہیں کر سکتا وہ ان کے فلسفہ کو سمجھنے کا داعی نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ان کے پیغام کی روح کی گہرائیوں تک پہنچنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔

خودشناسی تصوف کے ساتھ ساتھ بہت سے فکری رجحانات کا بنیادی موضوع رہا ہے۔ شاہ لطیف کے ہاں خود شناسی کا تصور نہ صرف مختلف بلکہ انوکھا ہے۔ ان کے ہاں خودشناسی داخلی اور خارجی سفر کا وہ مقام ہے جہاں انسان حتمی طور پر اندر اور باہر سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ ہی وہ مقام ہے جس کو سدھارتھ یعنی گوتم نے نروان کے نام اور کیفیت سے تعبیر کیا تھا۔ ایک نقطے کے لحاظ سے شاہ لطیف کا فلسفہء خودشناسی گوتم سے بہت قریب ہے یا ان دونوں میں کچھ قدر مماثلت ہے۔ شاہ لطیف کا نروان کوئی مخصوص منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے اور ایک لامتناہی جستجو ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں داخلیت اور خارجیت کی سرحدیں مِٹ جاتی ہیں۔ شاہ لطیف کہتے ہیں:

وڃين ڇو وڻڪار، هِت نه ڳولين هوتَ کي،

لِڪو ڪِين لطيف چئي، ٻاروچو ٻئي پار،

ٿي سَتِي ٻَڌ سندورو، پِرت پنهونءَ سين پار،

نائي نيڻَ نِهارَ، تو ۾ ديرو دوست جو.

کائنات٬ فطرت اور سماج کے ادراک سے پہلے بھی خودشناسی کا مرحلہ آتا ہے۔ یہ ہی نقطہ آغاز ہے اور یہی نقطہ حاصل ہے اور یہ ہی جستجو اور لامتناہی کے سفر کا نام ہے۔ باقی تمام منزلیں اس کے عبوری مراحل ہیں۔ یہی نروان اور داخلی آزادی کا نام ہے۔ انسان پر ادراک کے دروازے حقیقی معنیٰ میں تب کھلتے ہیں۔ کیوں کہ کسی بھی طور پر غلام یا مقید انسان ادراک کی بلندیوں کو چھو نہیں سکتا٬ پانا تو دور کی بات ہے۔ یہ ہی شاہ لطیف کے پیغام کی روح اور اساس ہے۔ ان کا ہر کردار Liberated یعنی مکمل طور پر آزاد ہے۔ اس لیے اس میں بے خوفی٬ سرمستی٬ کیف اور حاصلات سے بے نیازی ہے۔ اوپر بیان کیے گئے ان کے تمام کرداروں کی جملہ خوبیاں اس نقطے اور مقام کی پیداوار ہیں۔ جو خود شناس نہیں وہ جہاں شناس کیسے ہوگا اور جو جہاں شناس نہیں وہ خود شناس کیسے ہوگا؟

شاہ لطیف اس لیے بھٹکے ہوئے بے شعور انسان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ:

ڪِنين ڪامڻ ڪياءِ، ڪيئن ڀنڀولئين ڪَرها!

اکين مٿي اکيا، پِڙَ ۾ پيرَ گَٺاءِ،

وَڳَ ڪهِ وسرياءِ، ٻڌو جيئن گهاڻي وهين!

یہ کون سا جادو ہے٬ جس کی شاہ لطیف بات کر رہے ہیں۔ یہ جہالتوں٬ عقیدہ پرستی٬ اوہام پرستی٬پس ماندگی٬ ذہنی اور روحانی غلامی٬ علم و ادراک سے محرومی کا جادو ہے٬ جس نے ان کے ایک علامتی کردار اونٹ کو گمراہ کیا ہے۔ یہ اونٹ ایک صیغہ ہے اور علامت ہے بے شعور٬ بے مقصد٬ عشق اور کیف کی کیفیت سے محروم اور اندر سے کھوکھلے انسان کا٬ جس کی ہمہ گیر نجات شاہ لطیف لامتناہی سفر٬ ذات کی نفی٬ عشق٬ منزل سے بے نیازی٬ کیف و سرمستی٬ ادراک کی بلندیوں اور ‘‘الٹی آنکھ’’ اختیار کرنے میں دیکھتے ہیں۔

جامی چانڈیو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جامی چانڈیو

جامی چانڈیو پاکستان کے نامور ترقی پسند ادیب اور اسکالر ہیں۔ وہ ایک مہمان استاد کے طور پر ملک کے مختلف اداروں میں پڑھاتے ہیں اور ان کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے۔ Jami8195@gmail.com chandiojami@twitter.com

jami-chandio has 8 posts and counting.See all posts by jami-chandio