کیا داعش کی ظلمت ختم ہونے کا وقت آن پہنچا ؟


ایک ہی دن میں شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے ہاتھ سے دو بچے کھچے اہم ٹھکانے نکل گئے ہیں۔ جمعے کی صبح شامی فوج نے اعلان کیا کہ انھوں نے دیر الزور شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ اسی دن بعد میں عراقی وزیرِ اعظم حیدر العبادی نے کہا کہ عراقی شہر القائم دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے چھڑا لیا گیا ہے۔ العبادی کا کہنا تھا کہ شہر پر ‘ریکارڈ وقت’ میں قبضہ کیا گیا۔ عراقی فوجیوں نے القائم سے دولتِ اسلامیہ کا جھنڈا اتار دیا۔ عراقی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے شام اور عراق کی سرحد پر آخری چوکی بھی چھڑا لی ہے۔

گذشتہ ماہ امریکی حمایت یافتہ شامی اتحاد نے شام میں رقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ دولتِ اسلامیہ نے اسا اپنا ‘دارالخلافہ’ قرار دے رکھا تھا۔ چار ماہ قبل عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل سے بھی دولتِ اسلامیہ کو نکال باہر کر لیا گیا تھا۔

تاہم بی بی سی کے عرب امور کے ایڈیٹر سبیسٹیئن اشر کہتے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے زمینی عزائم قریب قریب تباہ ہو چکے ہیں، لیکن اس کا نظریہ اب بھی مضبوط ہے۔

دولتِ اسلامیہ (داعش) دیر الزور پر 2014 سے قابض رہی ہے۔ اس شہر کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ شامی سرحد سے بہت قریب واقع ہے۔ دولتِ اسلامیہ نے سرحد کے دونوں اطراف کے علاقے کو ‘صوبۂ فرات’ کا نام دے رکھا تھا اور اسے جنگجو، اسلحہ اور سامان ایک ملک سے دوسرے تک لے جانے کے لیے استعمال کرتی تھی۔ دو ملکوں میں واقع صوبے سے دولتِ اسلامیہ یہ پیغام بھی دینا چاہتی تھی کہ وہ اس خطے کی 1916 کو ہونے والے سائیکس پیکٹ معاہدے کے تحت تقسیم کے خلاف ہے۔ اس معاہدے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ملکوں کی سرحدوں کا تعین ہوا تھا۔

شام میں دیر الزور صوبے میں چند علاقے ایسے ہیں جہاں اس شدت پسند تنظیم کے جنگجو اب بھی موجود ہیں۔ شام کی سرکاری فوج جنگجوؤں کے اتحاد ایس ڈی ایف کے ساتھ مل کر انھیں بچے کھچے علاقوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بعض علاقوں میں ایس ڈی ایف اور شامی فوج نے ایک دوسرے سے چند کلومیٹر دور مورچہ بندی کر رکھی ہے۔

ایس ڈی ایف کے ترجمان کینو جبریل نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں اب بھی بعض جگہوں پر مزاحمت کا سامنا ہے کیوں کہ دولتِ اسلامیہ خود کش کاریں اور ٹرک، میزائل اور مورٹر گولے استعمال کر رہی ہے۔ جبریل کے مطابق بعض دیہات میں گھر گھر لڑائی ہو رہی ہے۔

daesh-girls-slaves

سرحد کی دوسری طرف عراقی فوج نے حالیہ مہینوں میں دریائے فرات کے ساتھ پیش قدمی کر کے دولتِ اسلامیہ کو پے در پے شکستوں سے دوچار کیا ہے۔ ایس ڈی ایف کے مطابق اس علاقے میں دولتِ اسلامیہ کے ڈیڑھ ہزار کے قریب جنگجو بچے ہیں۔

تین سال قبل دولتِ اسلامیہ کے پاس جتنا علاقہ تھا، اس کا 95 فیصد حصہ اس سے چھینا جا چکا ہے اور 44 لاکھ عراقی شہریوں کو اس کے تسلط سے آزاد کروایا جا چکا ہے۔ کیا یہ دولتِ اسلامیہ کا خاتمہ ہے؟ برطانوی فضائیہ آر اے ایف کے ایک سینئر افسر نے جمعے کو کہا کہ دولتِ اسلامیہ کے پاس چند ہی مہینے باقی بچے ہیں۔ تاہم کموڈور جانی سٹرنگر نے لندن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اب دولتِ اسلامیہ یقیناً ایک چھاپہ مار تنظیم کے روپ میں ڈھل جائے گی اور دونوں ملکوں میں حملے کرتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp