شاخِ تنہائی پہ کھلے ہوئے پھول


ہر شاعر دو دنیائوں میں بیک وقت زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ خارجی اور داخلی۔ خارجی دنیا سے اس کے دوست اور رشتہ دار‘ ہمسائے اور رفیقِ کار اور اس کے ہم عصر شاعر اور ادیب سبھی واقف ہاتے ہیں لیکن اس کی داخلی دنیا جو اس کے تجربے‘ مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے کی مرہوں منت ہوتی ہے وہ سب کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اور اگر شاعر اس کا تخلیقی اظہار نہ کرے تو وہ ساری عمر لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی ہے۔۔ شاعر زندگی کے کسی موڑ پر فیصلہ کرتا ہے کہ وہ اپنی غزلیں اور نظمیں اپنے قارئین‘ سامعین اور ناقدین کے سامنے پیش کرے گا‘ اپنا پہلا مجموعہِ کلام چھپوائے گا اور اپنی داخلی دنیا کے چند گوشے انہیں دکھائے گا لیکن شاعروں کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کے قارئین‘ سامعین اور ناقدین ان کی داخلی زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کی بجائے ان پر عدمِ ابلاغ اور تنقید کی سنگ زنی نہ شروع کر دیں۔ ادب اور نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ ابلاغ کی عمارت دو انسانوں کے جذباتی اور تخلیقی رشتوں کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے اور بہتر ابلاغ کے لیے ضروری ہے کہ دونوں انسان زبان‘ ادب‘ روایت اور ثقافت کی مشترکہ قدروں سے جڑے ہوں ورنہ شاعری شاعر اور قاری کے درمیان قرب کی بجائے بعد پیدا کر سکتی ہے اور بہت سی جذباتی اور تخلیقی غلط فہمیوں کو جنم دے سکتی ہے۔ میری نگاہ میں ایسے شاعروں اور قاریوں کے رشتے‘ جو لفطوں کی حرمت سے واقف ہوں اور اپنے سچ کے متلاشی ہوں‘ بہت محترم اور مقدس رشتے ہوتے ہیں۔

میں منظر حسین سے کبھی نہیں ملا۔ میرے لیے ان کا تعارف یہ تھا کہ وہ میرے شاعر چچا عارفؔ عبدالمتین کے ہمعصر شاعر اخترؔ حسین جعفری کے بیٹے ہیں اور میرے شاعر دوست امیرؔ حسین جعفری کے بھائی ہیں لیکن جب میں نے ان کا پہلا مجموعہِ کلام ’سطرِ نو‘ پڑھنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ ان سے ایک جذباتی اور تخلیقی رشتہ استوار ہونا شروع ہو گیا۔ میں نے جان بوجھ کر دیباچے نہیں پڑھے کیونکہ میں ان کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے بنانا چاہتا تھا اور ان کی شاعری کو تبصرہ نگاروں کی عینک سے نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔

منظر حسین کی شاعری پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ وہ بھی اسی دشت کے مسافر ہیں جس میں میں برسوں بھٹکتا رہا ہوں۔ وہ بھی ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے نکلے ہیں جن سوالوں نے میری راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں اور وہ انہیں بھی میری طرح اپنے خواب اور آدرش عزیز ہیں۔ جب میں منظر حسین کی شاعری کے دروازے سے ان کی داخلی دنیا میں داخل ہوا اور کافی دیر تک اس دنیا کی سیر کرتا رہا تو مجھے احساس ہوا کہ منظر حسین ایک سچے اور کھرے شاعر ہیں جنہیں زبان پر بھی عبور حاصل ہے اور وہ اپنے جذبات‘خیالات اور تصورات کے تخلیقی اظہار پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ یہ مصرعے تخلیق نہ کر پاتے

گوشِ وفا میں کچھ وعدوں کے آویزے ہیں

اور

ہر ایک کھڑکی کے پٹ لبوں کی طرح سلے ہیں

اسی لیے ان کی شاعری‘ ان کی سوچ اور شخصیت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے اور قاری کو ان کے دل کے نہاں خانوں میں پوشیدہ رازوں سے آگاہی بخشتی ہے۔ میری نگاہ میں ہر عہد اور ہر زبان کا جینون شاعر اپنی بصیرتوں کے اظہار میں زبان و ادب کی روایات اور جمالیات کا خیال رکھتا ہے تا کہ وہ نہ صرف اپنے عہد کے قاری سے تخلیقی رشتہ جوڑ سکے بلکہ ایسا ادب تخلیق کر سکے جو پچھیل اور اگلی نسلوں کے درمیان ایک پل کا کام بھی کر سکے۔

جب میں نے ایک قاری بن کر منظر حسین کا تخلیقی ہمسفر بننے کی دعوت قبول کر لی تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ہر سچے شاعر کی طرح دنیا کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ وہ انجانی منزلوں کے کارواں کے مسافر ہیں جس کا اعلان ان الفاط میں کرتے ہیں۔

ازل ابد کے میان میں اب یہی ہے ساعت

کہ جس کے رستے پہ میں نے اور تیری آرزو نے

طوافِ وعدہ میں پا برہنہ ہزار صدیاں سفر کیا ہے

منظر حسین جس دشت کے مسافر ہیں وہاں انہیں بھٹک جانے کا خطرہ بھی رہتا ہے لیکن انہیں اپنی ذات پر اعتماد ہے کیونکہ ان کی جستجو دولت اور شہرت کی مرہونِ منت نہین۔ وہ درویشوں کی طرح ان رستوں کے مسافر ہیں جہاں ان کے دل کا دیا ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ منظر حسین معرفت کی منازل طے کرنے کے باوجود یہ جانتے ہیں کہ اپنے سچ کا تخلیقی اظہار اتنا آسان نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں فرشتوں کے پر جلتے ہیں کیونکہ اپنے خیالات‘ جذبات‘ مشاہدات اور تجربات کے پورے سچ کو الفاظ میں ڈھالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں

نواحِ شوق میں روشن ستارے ہیں

کسی گم کردہ کاغذ کے فلک پر

                یوں اترتے ہیں

                                ہیولیٰ سا ابھرتا ہے

                                                مگر مصرع نہیں ہوتا

منظر حسین اس ادبی روایت سے واقف ہیں کہ اپنے عہد کا نمائندہ شاعر بننے کے لیے وہ بھاری پتھر اٹھانا پڑتا ہے جسے میر اور غالب‘ ن م راشد اور میرا جی نے اٹھانے کی کوشش کی۔ اسی بھاری پتھر کو اٹھانے کی سعی منظر کو نئی نظم لکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ نئی شاعری کرنے کے لیے شاعر کو نئے تصورات‘ نئی تشبیہات اور نئے استعارے تخلیق کرنے پڑتے ہیں۔ اس حوالے سے جب ہم منظر حسین کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری میں زمین‘ چاند‘ سورج‘ کہکشاں‘ بادل‘ دریا اور موج کو اپنے master symbols کے طور پر استعمال کیا ہے اور اپنے محبوب اور قاری سے مکالمہ کیا ہے

تمہیں تو یاد ہوگا سب‘ وہ پہلا ربط کا لمحہ

کہ جب ہم نے سرِ ساحل

بہت سے دھوپ کے ٹکڑوں کو

اک بادل کی دھجی میں

یقین کے ساتھ باندھا تھا

منظر حسین کی شاعری کا ایک اہم اور توانا کردار وقت ہے جس کی کہانی ازل سے ابد تک پھیلی ہوئی ہے۔ ’وقت‘ کا بارے میں اظہارِ خیال کرتے وقت منظر حسین ایک فلسفی شاعر بن جاتے ہیں۔ منظر حسین ایک بہتر زندگی اور بہتر انسان کے خواب بھی دیکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انسانیت کے ارتقا کے لیے خواب دیکھنا اور پھر اس کی تعبیر تلاش کرنا ناگزیر ہے لیکن اس کے لیے انفرادی سطح پر کئی دہائیوں اور اجتماعی سطح پر کئی صدیوں کی ریاضت درکار ہے

آنکھیں آبیاری کر رہی ہیں پھر سے خوابوں کی

مجھے معلوم ہے

خود کو

مجھے تعمیر کرنے میں زمانے بیت جائیں گے

لیکن منظر حسین بہتر انسان کے خواب دیکھنے والے شاعروں اور دانشوروں کی طرح اپنے آدرشوں پر عمل کرنے اور ان آدرشوں کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انسانی ارادوں اور خوابوں کو عمل کی ضرورت ہے۔

منظر حسین نئی نظمیں لکھتے ہیں لیکن بہت سے جدید نظم کے شاعروں کی طرح فکرمند بھی رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اردو کے بہت سے قاریوں کی سماعت پر روایتی غزلوں کے اشعار سن سن کر برف جم چکی ہے کیونکہ ان کے دل کئی دہائیوں سے ادبی freezer میں پڑے ہوئے ہیں جنہیں پگھلانے اور دوبارہ دھڑکنے کی ترغیب دینے کے لیے نئے جذبوں اور نئی نظموں کی حدت کی ضرورت ہے۔ منظر حسین اپنی پریشانی کا اظہار ان لفطوں میں کرتے ہیں

ابھی باتوں کو محرابِ تغافل میں کہیں رکھ دو

سماعت برف کا گھر ہے

یہ لفظوں کی حرارت اور مفاہیمِ تمنا سے

ابھی نا آشنا ہے۔۔۔

منظر حسین نے کم عمری میں ہی علم و ادراک سے جذب و وجدان کا سفر طے کر لیا ہے۔ یہ وہ سفر ہے جس کے ہر موڑ پر بہت سوں کا پتہ پانی ہا جاتا ہے اور وہ نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ منظر حسین اس آزمائش سے سرخرو لوٹتے ہیں اور خاموشی سے سرگوشی کرتے ہیں

مرے ادراک کی سرحد جہاں پر ختم ہوتی ہے

                وہاں سے کچھ قدم کے فاصلے پر

                                مرے وجدان کا گھر ہے

                                                اور اس کے صدر گنبد میں مکمل خامشی ہے

یہ شاعری اور معرفت کا وہ مقام ہے جہاں منظر حسین درویشوں‘ سادھوئوں اور سنتوں کی طرح خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہین اندازہ ہو جاتا ہے کہ جہاں الفاظ گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور ان کا سانس پھولنے لگتا ہے وہاں خاموشی رہنمائی کرتی ہے کیونکہ خاموشی وہ ماں ہے جس کی کوکھ میں الفاظ و معانی پروان چڑھتے ہیں۔ منظر حسین تخلیق کے اس موڑ پر خاموشی سے رشتہ جوڑ لیتے ہیں

منظر حسین کی شاعری پڑھتے ہوئے جب مجھے احساس ہوا کہ خاموشی اور دانائی کا گہرا رشتہ ہے تو میرے دل میں سوال ابھرا کہ اس دانائی کے رستے میں منظر حسین نے کن شخصیات سے فیض حاصل کیا ہے۔ اس سوال کا جواب مجھے ان کی شاعری میں یہ ملا کہ ان کے والد اخترؔ حسین جعفری نے ان کی ذہنی تربیت اور تخلیقی پرورش میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کا اقرار وہ اپنے والد کی موت کے بعد لکھی ہوئی ایک نظم میں کرتے ہیں

 اب کچھ ایسے ہے‘ یارِ تنہائی

زندگی کی اندھیری راہوں میں

رہنما میری‘ تیری دانائی

منظر حسین کی خوش قسمتی ہے کہ اخترؔ حسین جعفری اور احمد ندیمؔ قاسمی کی دانشمندانہ تخلیقی تربیت کی وجہ سے انہیں دانائی اور تخلیقی ریاضت کا وہ مقام‘ جو بعض شاعروں کو بزرگی میں بھی نہیں ملتا‘ جوانی میں ہی مل گیا ہے۔ میری بھی یہ خوش قسمتی کہ میں منظر حسین کے عہد میں زندہ ہوں اور ان کی شاعری کی شاخِ دانائی پر جو پھول کھلے ہیں ان کی خوشبو سے اپنے ذہن اور قلب کے آنگنوں کو معطر کر رہا ہوں۔ میں منظر حسین سے کبھی نہیں ملا لیکن ان کی شاعری نے میرا ان سے خاموشی اور دانائی کا رشتہ جوڑ دیا ہے۔ اگر میں کبھی ان سے ملا تو اپنی ایک غزل کے دو اشعار ان کی خدمت میں پیش کروں گا

تجھ سے سب کچھ کہہ کے بھی کچھ ان کہی رہ جائے گی

گفتگو اتنی بڑھے گی کچھ کمی رہ جائے گی

                اپنے لفظوں کے سبھی تحفے تجھے دینے کے بعد

                آخری سوغات میری خامشی رہ جائے گی

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail