ڈیرہ اسماعیل خان: لڑکی نہیں، تماشائی ننگے تھے!


کبھی رات کے پچھلے پہر بلی کے رونے یا چیخنے کی آواز آئے تو ایسے لگتا ہے اس کی فریاد نما چیخ نے روح اور بدن تار تار کر دیے ہیں۔ پہلی بار جب سوشل میڈیا پر ڈیرہ اسماعیل خان کے حوالے سے یہ خبر نظر سے گزری تو۔۔ نظر نے خبر دیکھی اور کانوں نے وہ خوفناک چیخ سنی ۔۔یہ ایک ماں کی چیخ تھی جو اپنی بیٹی کو ڈھونڈنے نکلی اور ایک گلی میں کچھ مسلح افراد نے اس کو کہا کہ جاؤ پہلے اپنے بیٹے کو لاؤ۔ قیاس یہ ہے ماں کو جب خبر ملی ہوگی اور بیٹی کی تلاش میں نکلی ہوگی تو یقیننا سر پر دوپٹہ لینا بھول گئی ہو گی۔۔ماں کو پہلی دفعہ اپنا سینہ ڈھانپنا بھی یاد نہ رہا ہو گا کہ ۔۔جوان معصوم بیٹی خلقت کے سامنے ننگی کھڑی تھی۔

یہ اس بیٹی کی چیخ تھی جو بتیسی نکالتے جانوروں کے سامنے ۔۔۔بے لباس تھی۔ دوہاتھ تھے۔۔ بدن کے دو حصے چھپاتی یا آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر ۔۔حرص آلود نگاہوں کے تیروں سے بچتی ۔۔۔المیہ سا المیہ ۔۔الجھن سی الجھن ۔۔نہ زمین پھٹ رہی کہ دفن ہو جائے نہ آسمان گر رہا ہے کہ تماشائی غرق ہو جائیں۔ گھڑیاں ٹھہر گئیں ہیں ۔۔بدترین انسانی المیے کا گواہ بننے کے لیے۔

پانچ- سات ہزار سالہ تاریخ میں زمین نے تو ایسی چیخیں بہت سنیں اور وہ عادی بھی ہے لیکن سوال ہے یہ چیخ تماشائیوں نے کیوں نہ سنی ۔۔کیا وہ بہرے تھے؟ یا خود ننگے تھے؟ آپ کا بطور قاری تو اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن آپ کو بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے واقعہ کا منظر دو طرح سے نظر آ سکتا ہے۔ایک یہ کہ لڑکی ننگی تھی اور تماشائی لباس پہنے ہوئے تھے یا دوسرا یہ کہ تماشائی ننگے تھے اور لڑکی ملبوس تھی۔ اپنا فیصلہ اس مضمون کے آخر تک محفوظ رکھیے۔

ہمارے ہاں اس طرح کے رویوں اور واقعات پر ایک رد عمل تو یہ آتا ہے جس کو میں معصومانہ ردعمل کہنے کو تیار ہوں ۔۔”اف خدایا ، اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ہر واقعہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لگتا ہے درندگی کی یہ حد ہے جبکہ کچھ عرصہ کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی واقعہ ہو جاتا ہےاور ہمارا ملک دنیا کا عظیم ترین ملک ہے ایسے واقعات سے بدنام ہو جاتا ہے ” وغیرہ وغیرہ ۔اس طرح کے ردعمل دینے والوں کو میں دو وجوہات کی بنا پر معصوم کہتا ہوں ۔ ایک یہ کہ شاید وہ محدود وابستگیوں کے ساتھ ایک لگی بندھی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کو نہیں معلوم کہ یہ ملک ان کی محدود وابستگیوں کا نام نہیں ۔۔۔کہ ملک بہت بڑا ہے ۔ جبکہ ملک کا ہماری اچھی خواہشوں کے برعکس دنیا میں مختلف تعارف ہے ۔۔کہ دنیا بہت بڑی ہے۔دوسرا یہ کہ شاید وہ ملک کے مختلف حصوں میں جاتے رہتے ہیں لیکن نفسیات کی سائنسی اور پیچیدہ جہتوں سے واقفیت نہیں رکھتے۔

انسانوں میں نیکی اور دوسروں کے دکھ کو بہتر انداز سے سمجھنے میں ہم دلی یا “ایمپتھی” کا کردار انتہائی اہم ہے۔ آسمانی پیغامات اخلاقیات کا بنیادی نقشہ ضرور بتاتے ہیں لیکن یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کو ٹریفک قوانین یا ایمبولینس کو راستہ دینے کی تلقین کی جائے ۔ احساس سے بڑا اور کامیاب محرک اور کوئی نہیں۔ ایمبولینس کو راستہ نہ دینے کی صورت میں دی جانے والی سزا صرف اس وقت تک ہی محرک ہے جب تک کہ سزا دینے والا سامنے ہے ۔جیسے ہی وہ اوجھل ہوا تو محرک ختم ہوا ۔لیکن اگر آپ کے اندر ایمبولینس کے اندر لیٹے شخص کی تکلیف دہ ساعتوں کا احساس پیدا ہو جائے تو ایمبولینس کا دور سے سنائی دینے والا سائرن آپ کو مجبور کر دے گا کہ آپ گاڑی کو ابھی سے ایک سائیڈ پر لگا دیں چاہے آپ سے آگے کتنی ہی گاڑیاں گزر جائیں اور چاہے آپ کو کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے (ویسے وقت پر پہنچ کر ہم نے کرنا کیا ہوتا ہے)

عقلی حوالے سے آپ جتنے مرضی کسی کو سبق دیتے رہیں لیکن انسان کے فوری ردعمل کی تحریک میں جذبات کا اہم کردار ہے ۔ہمارے ملک میں کرپٹ اور نجی زندگیوں میں خبیث ترین انسان آپ کو نیکی کا درس دیتے نظر آئیں گے ۔اور کیوں کہ یہ درس آپ کو ہر طرف نظر آئیں گے تو آپ کو “نیکی کا دور دورہ” بھی نظر آئے گا۔ اور پھر جب ایسا واقعہ ہو گا تو دل کی حیرانی جانے کا نام نہیں لے گی۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیکی کو جانچنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ۔ ایک مثال تو یہی ایمبولینس والی لیجئے۔ ایک پمفلٹ پر یہ لکھا ہوا ہے کہ ایمبولینس کو راستہ دینا احترام انسانیت ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔اوریہ پمفلٹ آپ نے پورے ملک میں بانٹ دیا۔ کچھ دنوں بعد آپ نے یا کسی سوفٹ وئیر نے نوٹ کیا کہ ہر طرف سوشل میڈیا پر ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے رجحانات عروج پر ہیں۔ کیا ان رجحانات کو دیکھتے ہوئے آپ یہ فیصلہ کریں گے کہ اس ملک میں اب ہر کوئی ایمبولینس کو راستہ دے گا؟

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو آپ نے انسانی رویوں کی پیچیدگیوں کو سمجھے بغیر انتہائی چھوٹے پیمانے کو اپنے فیصلے کا سبب بنایا ہے۔ نیکی کے حوالے “ٹیکسٹ” کچھ اور چیز ہے۔ اس ٹیکسٹ کو طوطے کی طرح دہرانے کی کئی وجوہات ہیں ۔مثال کے طور پر خوف یا ڈیفنس میکنزم ۔اس معاملے کو ایک اور انداز سے دیکھئے ۔ڈیرہ اسماعیل خان میں جس بیٹی کو سب تماشائی ننگا دیکھ رہے تھے ۔اگر آپ اس منظر کو دیکھ رہے ہوتے اور کچھ دیر بعد آپ دیکھتے کہ جیسے ہی “تماشا” ختم ہوا تو ان تماشائیوں میں سے کچھ لوگ اپنے اپنے مذہب کے مطابق مسجد یا چرچ گئے تو یہ منظر دیکھ کر آپ تو بے ہو ش ہوجاتے۔ لیکن اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ نیکی بنیادی طور پر عکسی نیورانز کی بہتر بڑھوتری اور ہم دلی کے عروج کا نام ہے تو آپ شاید حیران نہ ہوتے۔ پھر تو ہمیں یہ سمجھنے میں بھی دقت نہ ہوتی کہ موئے یہ کافر لوگ معاشرتی رہن سہن انصاف اور باہم ہمدردی میں ہم سے اچھے کیوں ہیں۔یا وہاں ایمبولینس کو راستہ دینے کے حوالے سے بڑی تشہیری مہمات کی ضرورت کیوں نہیں پڑتی؟ہمارے ہاں بدترین واقعات پر بات کرنے اور بالخصوص بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بات کرنے سے کچھ لوگوں کے نزدیک قوم کی بدنامی کیو ں ہوتی ہے؟

دیکھئے جب درسی کتابوں میں آپ ۔۔اپنے جیسے انسانوں کے قتل ہونے کے بارے میں لکھیں گے کہ دشمن کومولی گاجر کی طرح کاٹ دیا گیا۔ دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگا دیے گئے۔ گردنیں اڑا دی گئیں۔کسی ملک کی دراندازی کو ایک طرف برا کہیں گے اور تاریخ میں اپنی دراندازیوں کو معرکوں کا نام دیں گے۔ایک طرف اپنی عورت کو اعلیٰ اور قیمتی قرار دیں گے اور دوسری طرف دشمن کی عورتوں کے ساتھ ناروا سلوک کو اپنا حق بتائیں گے ۔ دوقومی نظریے کو ملک کی بنیاد یں قرار دیں گے اور کوئی اور اسی اصول کی بات کرے گا تو اسے غدار کہیں گے ۔۔کسی ملک میں ٹائلٹ کی کمی کو اس کے خلائی پروگرام کے منہ پر طمانچہ کہیں گے اور مدرسے کی چھت سے پھینکے جانے والی ۔۔بد فعلی کے بعد آٹھ سالہ معصوم بچے کی ننگی لاش کو حادثہ قرار دینے کی کوشش کریں گے ۔ ۔ایک طرف قتل کو برا جانیں گے اور دوسری طرف قندیل کے قتل پر جواز تراشیں گے تو ۔۔۔تو سوچ میں ایسی ہی دوئی پیدا ہو گی۔ ایسی ہی الجھی ہوئی نسلیں پیدا ہوں گی۔ یہ نسلیں ننگی لڑکی کو دیکھ بھی لیں گی اور دل میں ہزار جواز بھی تراش لیں گی کہ سب سے پہلے جواز آپ ہی نے ان کو سکھائے تھے۔اب گلہ کیسا؟

آپ نے درسی کتابیں ۔۔”لیکن اگر مگر چونکہ چنانچہ”۔۔سے سنوار رکھی ہیں ، دنیا اس سے آگے نکل کر “فل سٹاپ ” کی بات کر رہی ہے۔ کسی فرد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں فل سٹاپ ۔۔۔ہر فرد کی آزادی وہاں تک ہے جہان کسی اور فرد کی آزادی متاثر نہ ہو فل سٹاپ ۔۔۔ کسی بچے کا آپ کی اولاد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اس پر ہاتھ اٹھائیں فل سٹاپ ۔۔۔اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائیں گے تو یہ قابل سزا جرم ہے فل سٹاپ۔ زنابالجبر کی سخت سے سخت سزا ہونی چاہئے چاہے واقعہ پاکستان میں ہوا ہو یا بھارت میں فل سٹاپ۔ ۔۔کسی کی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانے والے کٹہرےمیں آنے چائیں چاہے واقعہ بھارت میں مسلمانوں کی عبادتگاہ کے ساتھ ہو یا پاکستان میں ہندوؤں ، عیسائیوں یا احمدیوں کی عبادت گاہ کے ساتھ فل سٹاپ ۔ اب آپ چائیں تو متذکرہ بالا تمام مثالوں کے آگے فل سٹاپ کے بجائے اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ لگا دیں اوراپنے لیے جواز تراش لیں لیکن اس صورت میں ۔۔۔

ڈیرہ اسماعیل خان میں آپ کو لڑکی ننگی نظر آئے گی جبکہ تماشائی لباس میں نظر آئیں گے۔اگر ان فقروں کے آگے فل سٹاپ لگا رہنے دیں گے تو ۔۔۔ڈیرہ اسماعیل خان کی بیٹی لباس میں نظر آئے گی اور تماشائی ننگے۔ ۔اس انتخاب میں آپ آزاد ہیں (اس ملک میں)

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik