دھندھواں !


نومبر کا مہینہ آ گیا ہے اور چاروں طرف ایک پراسرار دھند کا راج ہے۔ یہ ہی دھند پچھلے سال بھی آئی تھی اور آثار کہتے ہیں اگلے سال بھی آ ئے گی۔
دھند کے آ نے جانے سے مجھ جیسے بیکار اور نکمے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کھڑکی کے باہر، روشنی ہو یا اندھیرا لیمپ جلا کے قلم گھسنے والوں کو اس سے کیا؟
مسئلہ ہے شاعروں کا۔ پہلے تو بے چاروں کو اپنی ننھی جانوں پہ ایک دسمبر کا مہینہ سہنا پڑتا تھا اب یہ نومبر بھی غدار ہو گیا۔ ساٹھ دن، اور کبھی کبھی تو اوائلِ جنوری کے دو ایک ہفتے بھی، ایسی یاسیت بھری دھند اٹھتی ہے کہ دل سینے میں گھٹ کے رہ جاتا ہے اور اس دھند کے ساتھ ہی سینوں سے اٹھتی آ ہوں کا دھواں بھی شامل ہو کر ماحول کو اور بوجھل کر دیتا ہے۔

ان دھندلے دنوں میں وہ تا بڑ توڑ شاعری ہوتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ شاعروں اور عاشقوں کو نوید ہو کہ آپ کی بربادی کے دن آ نے والے ہیں، کاغذ قلم سنبھال لیجیے۔
نثر نگاروں کے دل چونکہ ہوتے ہی پتھر کے ہیں، نیز ان کی جلی کٹی سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اسی طرح جاری رہتی ہے اس لیے وہ اطمینان سے گھسیٹا کاری کرتے رہیں ان کے لیے خطرے کی کوئی بات نہیں ہے۔

شاعروں اور عاشقوں کے علاوہ یہ دھندھواں کسانوں کے لیے بھی بڑا خطرناک ہے۔ نومبر کے مہینے میں سرحد کے آر اور پار، دھان کی فصل اٹھا کر گندم بوئی جا رہی ہوتی ہے۔
گندم کی بیجائی، میدانی علاقوں میں 15 تاریخ تک مکمل ہو جانی چاہیے، کیونکہ اس کے بعد سورج کی شعاعوں کے زاویے اور زمین تک پہنچنے والی ان کی حدت میں ایسی تبدیلی آتی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، نمو کا عمل سست سے سست پڑتا جاتا ہے۔ چنانچہ کاشتکار، کوشش کرتے ہیں کہ بہر صورت 15 نومبر تک بیجائی مکمل کر لیں۔
یہ جو قانون ساز، دفتری بابو اور اربابِ حل و عقد بیٹھے ہیں، ہیں تو قریباً سارے ہی آ پ کے میری طرح دیہاتی۔ لیکن جانے ہمارے دفتروں میں کون سا عقل چوس لگا ہے کہ کرسی پہ بیٹھتے ہی زمینی حقائق، نظر سے غائب ہو جاتے ہیں۔

مچھر بھی مارنا ہو تو پہلے ایک دورہ کسی ترقی یافتہ ملک کا کیا جاتا ہے اور پھر ان کے طریقہ ہائے کا ر پہ عمل کرایا جاتا ہے۔ نتیجتاً اہلِ وطن ہائے ہائے کر اٹھتے ہیں۔
خاص طور پہ زراعت کے معاملے میں تو ہم بالکل ہی فارغ ہیں۔ حالانکہ، ساری عمر یہ ہی رٹے لگائے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی 70 فیصد آبادی، با لواسطہ یا بلا واسطہ زراعت ہی سے منسلک ہے، لیکن جانے یہ آبادی، اپنی مٹی کی روح سے ناآ شنا کیوں ہے؟

پچھلے سال نومبر میں چھانے والے اس دھندھواں پہ ہا ہا کارمچانے والوں میں میں بھی شامل تھی۔ میری بھی یہ ہی رائے تھی کہ یہ دھندھواں صنعتی آلودگی کے علاوہ، دھان کی فصل کی پرالی اور زمین میں موجود اس کے ’ٹھنٹھ‘ کو آگ لگانے کے باعث فضا میں شامل ہوا ہے۔
یہ بات لکھ لی گئی اور اس سال صنعتی آلودگی کے لیے تو جانے کیا اقدامات کیے گئے لیکن، دھان کی فصل کی باقیات کو بذریعہ آتشزدگی تلف کرنے پہ پابندی عائد کر دی گئی۔ جوکاشتکار بھی دھان کی پرالی وغیرہ کو آ گ لگاتا ہوا نظر آ گیا اسے، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے پہ حوالۂ پو لیس کیا جائے گا۔

یہ سن کر چودہ طبق روشن ہو گئے ابرار الحق یاد آ گئے کہ ’جد کڈہیا جلوس غریباں تے شہر چے چوتالی لگ گئی‘۔ پچھلے سال کا لکھا، حرف بہ حرف آنکھوں کے سامنے ناچنے لگا۔ ’بی بی! آ پ ہی نے تو لکھا تھا کہ اس نامیاتی فضلے کو جلانے کی بجائے زمین میں ہی ہل کے ذریعے ملا دیا جائے تو زمین کی زرخیزی بڑھ جائے گی۔ اب جایے، چلایے ہل اور بڑھائے زمین کی پیداوار اور کیجے دھندھواں میں کمی۔ ‘

زمین میں نامیاتی مادہ دبا کے اس کی زرخیزی بڑھانے کے لیے، پہلے تو ٹریکٹر اور ہل چاہیے، یعنی پر ایکڑ ڈیزل کا ایک نیا خرچہ۔ دوسرا یہ کہ اس نامیاتی مادے کو کھاد بننے میں جو وقت لگے گا، اس کا انتظار کرتے کرتے 15 نومبر کی ڈیڈ لائن گزر جائے گی۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ کھیتوں میں پرالی اور ’ٹھنٹھ‘ اسی طرح موجود ہیں۔ منادی تو کر دی گئی ہے لیکن اس کا حل نہیں بتایا گیا۔ جوگاڑو کاشتکار، اپنے ملازموں کو ٹھیکیدار بنا کے ان سے آتشزدگی کرانے کے ارادوں میں ہیں۔ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی ضمانت تو ہو ہی جائے گی کسی طرح سال بھر کے دانوں کا انتظام تو ہو۔

اب ہو گا یہ کہ پرالی کو آ گ بھی لگے گی، قانون شکنی بھی ہو گی، گندم کی پیداوار بھی اچھی نہ ہوگی، یعنی، بات کے اندر بات الجھتی جائے گی۔ مسئلہ حل ہونے کی بجائے ہائیڈرا کی طرح اس میں سے تین نئے مسائل پیدا ہو گئے۔

دھندھواں ایک علامت ہے، فطرت کی ایک ادا ہے۔ اس ادا کو بھانپ لیجیے، فطرت ہم سے روٹھ رہی ہے۔ منا سکتے ہیں تو منا لیجیے اور خدارا اب کے جو بھی حل تجویز کریں، اس سے پہلے، سر سے عقل چوس اتار لیں، (ہم نے تو اتار لیے )سبھوں کا بھلا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).