جب صدر ایوب نے محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں بدزبانی کی


انتظارحسین کے ناول ’’بستی ‘‘سے ایک اقتباس دیکھیئے

’’میاں! یہ لوگ جلسہ کر رہے ہیں یا ہلڑ بازی کر رہے ہیں؟‘‘

’’ابا جان! تحریکوں میں یہی ہوتا ہے۔ جوش میں لوگ بے قابو ہوجاتے ہیں۔‘‘

’’کیا کہا، تحریک؟ یہ تحریک ہے؟ بیٹے کیا ہم نے تحریکیں دیکھی نہیں ہیں۔ تحریک خلافت سے بڑی بھی کوئی تحریک ہوئی ہے اور مولانا محمد علی ، اللہ اللہ جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ انگارے برس رہے ہیں۔ مگرمجال ہے کہ کوئی کلمہ تہذیب سے گرا ہوا ہو۔ خیر وہ تو مولانا محمد علی تھے، ہم نے توکبھی کسی رضا کارکو بھی تہذیب سے گری ہوئی بات کرتے نہیں دیکھا۔ انگریز کو مردہ باد کہا اور بات ختم کردی۔

افسوس کہ ہمارے سیاستدانوں نے گفتارکے حوالے سے مولانا محمد علی کو رہبر جانا نہ ہی قائد اعظم کو اس معاملے میں رہنما کیا۔ پاکستان بنا توہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اپنے رویے سے ظاہرکر دیا کہ وہ سیاسی مخالفین کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔ سب سے زیادہ مسئلہ انھیں حسین شہید سہروردی سے تھا جنھیں وہ اپنے لیے سیاسی اعتبار سے خطرہ جانتے تھے۔

وطن عزیز کے تیسرے یوم آزادی کے موقع پر قائد ملت نے فرمایا ’’سہروردی وہ کتا ہے، جسے بھارت نے کھلا چھوڑ رکھا ہے۔‘‘ ستمبر1950ء میں لیاقت علی خان نے ایک تقریر میں حسین شہید سہروردی کے خوب لتے لیے۔ تقریر کے کچھ حصے جو ’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں چھپے ان کا ترجمہ قدرت اللہ شہاب کے ’’شہاب نامہ ‘‘ میں شامل ہے :’’اب پاکستان آنے کے بعد مسٹر سہروردی اور ان کی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف عمل ہے، سہروردی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے حالات روز بروز بدتر ہوتے جا رہے ہیں…وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کسے فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں ، جھوٹے ہیں، منافق ہیں…‘‘

قدرت اللہ شہاب کے بقول اس تقریرکے مذکورہ بالا مندرجات ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اردو انگریزی دونوں زبانوں میں چڑھا لیے تھے۔ شہاب کے بقول ’’اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ تک ان کا یہ دستور رہا کہ اپنے چیدہ چیدہ ملاقاتیوں کے سامنے اور نجی محفلوں میں وہ سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے اس تقریر کا یہ حصہ بھی نہایت چٹخارے لے لے کر سنایا کرتے تھے، یہ عمل وہ اتنی بار دہرا چکے تھے کہ میرا اندازہ ہے کہ اس کے بہت سے فقرے انھیں زبانی یاد ہو گئے تھے۔‘‘

گورنر جنرل ملک غلام محمد کے تو یہ معمول میں شامل تھا کہ وہ مخالفین خاص طور سے سیاستدانوں کو گالیاں دیں۔ ایوب خان نے اپنی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز ‘‘میں ان سے ایک ملاقات کا ذکر کیا ہے، جس میں ان کی گالیاں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں، چودھری محمد علی نے ہمت کر کے کچھ بات کرنے کی کوشش کی تو ان پربھی گالیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔

صدارتی الیکشن میں ایوب خان کا پالا فاطمہ جناح سے پڑا تو وہ ان کی عوامی پذیرائی سے گھبرا گئے۔ فاطمہ جناح کے بارے میں نا زیبا زبان استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ جواب میں فاطمہ جناح نے ایوب خان اوران کے خاندان کی بدعنوانیوں پر کڑی تنقید کی۔ الطاف گوہر نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے

“…اب ایوب خان کی برداشت جواب دینے لگی تھی۔ انھوں نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مس جناح کے غیر شادی شدہ ہونے کے حوالے سے ان پر ’’خلاف فطرت ‘‘زندگی بسر کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وہ ’’بدخصال لوگوں میں گھری ہوئی ہیں۔‘‘ایوب خان کے ان ناگفتنی کلمات پر سرکاری حلقے سکتے میں آگئے۔ تاہم ایوب خان کو اس کا کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچا ، الیکشن کی گرما گرمی میں دونوں طرف سے ایک دوسرے پر گھٹیا الزام تراشی کی جارہی تھی اور متصادم جماعتوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف گالیوں اور ناشائستہ جملوں کا آزادانہ تبادلہ ہو رہا تھا۔ ایوب خان کے غیر محتاط جملے اسی گہما گہمی میں دب گئے۔”

ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خان کے معتمد خاص کا درجہ حاصل تھا ، اس لیے حیدرآباد میں جلسہ عام سے خطاب میں فاطمہ جناح نے بھٹو کو شرابی اورعورتوں کارسیا کہہ ڈالا۔ ایوب خان کی ڈائریوں میں مجیب الرحمن کوگنوار سیاسی غنڈہ اور ممتاز دولتانہ کو مکار لومڑ قرار دیا گیا ہے۔ ڈائریوں میں بھٹو اور اصغر خان کا بھی نامناسب الفاظ میں ذکر ہے۔

ایوب خان کے خلاف تحریک چلی تو اس میں مخالفین نے ان پر بہت کیچڑ اچھالا۔ پاکستان ٹائمزکے سابق ایڈیٹر مولوی محمد سعید اپنی آپ بیتی ’’آہنگ بازگشت ‘‘میں لکھتے ہیں:

“بھٹو قوم کے ہیرو بنتے جا رہے تھے اور صدر ایوب کے پائوں تلے سے ملک کھسکتا جارہا تھا ۔ قوم گالی گلوچ پر اتر آئی۔ یہ دور شستہ مذاق لوگوں پر گراں گزر رہا تھا ۔ نہ صرف ایوب اور ان کی بیٹیوں کو گالیاں دی جا رہی تھیں ، بلکہ ان کے بزرگوں کو بھی نہایت گھٹیا قسم کے الفاظ کا ہدف بنایا جارہا تھا۔”

 شیخ مجیب الرحمن کی زبان بھی کنٹرول میں نہیں رہتی تھی۔ انھوں نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ وہ اقتدار میں آ کر نورالامین کی کھال ادھیڑ کر اس کے جوتے بنائیں گے۔ بڑے سیاسی مخالفین کے نام بگاڑنے اور ان کا تمسخر اڑانے میں ذوالفقار علی بھٹو پیش پیش رہے۔ مغربی پاکستان کے گورنر موسیٰ نے1968ء میں ایک تقریر میں کہا ’’بھٹو تانگوں اور رکشے والوں کا لیڈرہے اور میں اس کی پتلون اتار دوں گا !‘‘چند دن بعد بھٹو نے جلسہ عام میں اس کا جواب دیا: ’’اگر موسیٰ خان نے میری پتلون اتار دی تو وہ ایسا ہتھیار دیکھے گا جو اسے آرمی سروس میں بھی نظر نہیں آیا۔‘‘ بھٹو نے اصغر خان کو آلو خان کہا۔ خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیریل خان قرار دیا اورکہا کہ اس کے آگے بھی خان لگا ہے اور پیچھے بھی۔ بھٹو نشتر پارک میں بنگلہ دیش کو منظور کئے جانے کے حق میں دلائل دیتے رہے ، عوام نہ مانے توتنگ آ کر کہا کہ ’’ سور کے بچے جہنم میں جائیں۔‘‘

اصغرخان بھٹو پر گرجتے برستے رہتے تھے۔ انہوں نے بھٹو کو کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ بھٹو دشمنی میں انھوں نے فوج کو خط کے ذریعے اقتدار پر قبضے کی دعوت دی۔ مارشل لاء لگنے کے بعد ان کا چراغ نہ جلا تو تو وہ ضیاء الحق پرملامت کرنے لگے۔ 1980ء میں حیدر آباد بار ایسوسی ایشن سے خطاب میں اصغرخان نے کہا ’’میں زندگی میں ضیاء الحق سے بڑے کذاب اور اس سے بڑے دھوکہ باز سے کبھی نہیں ملا۔‘‘

آئین اور سیاستدانوں کے باب میں ضیاالحق کے ارشادات عالیہ بھی جان لیں: آئین ، آئین …آئین ہے کیا؟ دس بارہ صفحوں کا کاغذی پرزہ جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ اگر میں آج اعلان کردوں کہ کل سے ہم کسی مختلف نظام کے تحت زندگی بسر کریں گے تو مجھ کو کون روک سکتا ہے؟ میں جس طرف چاہوں سب اسی طرف چلیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو کسی زمانے میں بڑے تیس مار خان سورما ہوا کرتے تھے وہ بھی اور باقی سب سیاستدان بھی دم ہلاتے میرے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ ‘‘ذوالفقار علی بھٹواور معراج محمد خان کے درمیان اختلافات نے سر اٹھایا تو ضیاء الحق نے انھیں ہوا دی۔ بھٹوکوخوش کرنے کے لیے ضیاء، معراج محمد خان کوگالی دیتے تھے۔اس بات کا ذکرخود بھٹو نے جیل میں لکھی اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔ضیاء دور میں سیاستدانوں کی آپسی گالم گلوچ سے تنگ ہوکر میاں محمود علی قصوری نے عرض کی تھی’’سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں نہ دیں۔ ‘‘

فوجی حکمران پرویز مشرف نے محترمہ مختاراں مائی کے واقعے کے بعد غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ ہمارے ہاں ویزے اور دولت کمانے کے لیے بھی ریپ کروا لیا جاتا ہے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں بڑی عامیانہ زبان کا استعمال ہوتا رہا۔ 1988ء میں مولانا منظور احمد چنیوٹی نے پنجاب اسمبلی میں ، جب نوازشریف وزیر اعلیٰ تھے ، بینظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کے بارے میں نازیباالفاظ کہے تو اپوزیشن احتجاجاً واک آؤٹ کرگئی اور اسپیکر کومولانا کے الفاظ اسمبلی کی کارروائی سے حذف کرنے پڑے۔ بینظیر کے بارے میں سب سے لچر زبان شیخ رشید احمد نے استعمال کی۔جلسوں اور قومی اسمبلی میں محترمہ پر جملے کسنا ان کا وتیرہ تھا۔ شیخ رشید احمد کی بد زبانی سے تنگ آکر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک بے بنیاد مقدمے میں پھنسا کر انھیں جیل میں ڈال دیا۔

کچھ عرصہ پہلے بلاول بھٹو، شیخ رشید سے ملے اور خود کوان کا فین قرار دیا۔ اس پر پرویز رشید نے تبصرہ کیا کہ بلاول کو پتا ہی نہیں کہ یہ شخص محترمہ کے بارے میں کس قسم کی گفتگوکرتا رہا ہے۔ پرویز رشید نے آدھا سچ بولا۔ پورا سچ یہ ہے کہ شیخ رشید احمد جب سرعام بینظیر پر کیچڑ اچھالتے تھے تو وہ مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے ، اور وہ یہ سب کچھ اپنے لیڈ ر کی خوشنودی کے لیے کرتے تھے ،اگر نوازشریف انھیں منع کردیتے توشیخ رشید کی کیا مجال تھی کہ وہ محترمہ کے بارے میں زبان درازی کرتے۔ بے نظیربھٹوکا لہجہ بھی نواز شریف کے بارے میں گاہے تلخ ہوجاتا ، ایک دفعہ انھوں نے ان کا نام بگاڑ کر انھیں نوازو کہہ کرمخاطب کیا۔

سوقیانہ زبان کے مستقل مزاجی سے استعمال میں شیخ رشید کا کوئی ثانی نہیں، ٹی وی چینلوں کی آمد کے بعد ان کی شوخ گفتاری اور بھی چمکی۔ 2012ء میں انھوں نے اپنے کسی حریف کو باسٹرڈ تک کہہ دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).