کیا ڈی آئی خان کے ملزمان کی پشت پناہی علی امین گنڈاپور کر رہے ہیں؟


خیبرپختونخوا میں اے حوا کی بیٹی۔ تیرے کپڑے پھاڑ کر تجھے سڑکوں پر ننگا گھمایا جائے مگر تیری آواز۔ صدا نہیں بن سکتی کیونکہ معاملہ عمران خان کو لیڈر بنانے کا ہے، اگر تیرا درد سامنے آگیا تو کسی کی لیڈری کی چمک ماند پڑجائے گی۔

ڈٰیرہ اسماعیل خان میں 21 برس کی لڑکی کو اس وقت راستے میں روک کر قینچی سے کپڑے کاٹے گئے، جب وہ اپنی کزنز کے ہمراہ پانی بھرنے کے لیے جارہی تھی، وہ بے بسی سے چلاتی رہی، ظالموں سے معافی مانگتی رہی مگر ہوس زادے قہقہے لگاتے رہے، لڑکی پناہ لینے کے لیے ایک گھر میں چھپی تو اسے وہاں سے باہر نکالا گیا، اس کی کزن نے بدن پر روپٹہ ڈالنے کی کوشش کی تو اسے اتار دیا گیا، ایک شخص ڈھال بننے کے لیے آگے بڑھا تو اس پر بھی تشدد ہوا، لڑکی اگر کہیں رکتی تو ایک لکڑی مار کر اسے چلنے پر مجبور کیا گیا، اسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ہاتھ شرمگاہ یا سینے پر سے ہٹائے۔

لڑکی کو اس سلوک کا دراصل دوسال پہلے ہوئے ایک ایسے واقعے کے ردعمل میں سامنا کرنا پڑا، جس میں اس کے بھائی نے ایک لڑکی کو موبائل فون دلایا، اس واقعے پر پنچایت دولاکھ روپے جرمانے کی صورت میں فیصلہ کرچکی تھی۔

اگر یہ معاملہ قومی ایشو بن جائے تو عمران خان کی سیاست کو نقصان ہوگا، مثالی پولیس کا تاثر دھندلا پڑجائے گا، لوگ سوال کریں گے کہ ایک گھنٹے تک حوا کی بیٹی کو گھمایا جاتا رہا، پولیس کیا کررہی تھی، اسی لیے شاید اتنہائی سنگینی کے باوجود یہ واقعہ جگہ بھرنے کے لیے خبروں میں تو آچکا ہے مگر ایشو نہیں بنایا گیا۔

تحریک انصاف کے مقامی راہنما اور قومی اسمبلی کے رکن داور کنڈی سے اس حوالے سے میری بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے وزیر علی امین گنڈا پور ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں، یہی بات متاثرہ لڑکی کے والد نے بھی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، لڑکی کے والد نے بتایا کہ علی امین گنڈا پور انہیں دھمکا رہے ہیں کہ کیس واپس لو۔

اس واقعے کو جب میں نے سوشل میڈیا پر اٹھانے کی کوشش کی تو عجیب وغریب اور حیران کن قسم کے رویے کا سامنا کرنا پڑا، مہر تارڑ صاحبہ عمران خان کی اینکر وکیل ہیں اور خود کو صحافی بھی کہتی ہیں، اس واقعے کے تناظر میں جب خیبرپختونخوا میں صوبائی حکومت کی کارکردگی کی بات آئی تو ان کی تکلیف اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ کہنے لگیں کہ میری سمجھ نہیں آرہا کہ آپ واقعے کو بیان کیوں کررہے ہیں کہ اب تو ملزمان بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔

یہ سانحہ تھانہ چودھوان کی حدود میں واقع گرہ مٹ گاؤں کے اندر 27 اکتوبر کو پیش آیا اور اس کے بعد سے اب تک میڈیا میں اتنی پراسرار خاموشی ہے کہ جیسے اس واقعے کا بیان کوئی گناہ ہو، اگر یہی سانحہ سندھ میں ہوا ہوتا تو ہر پڑھنے والا ایک ثانیے کے لیے ذرا تصور کریں کہ کیا ایک ماہ تک اسپیشل ٹرانسمیشن نہیں چلتیں۔

تحریک انصاف کے معاملے میں میڈیا کا رویہ بالکل مختلف ہے، ایک نیوز چینل نے تو پنجاب کا کہہ کر اس واقعے کو بیان کیا، سوشل میڈیا پر بھی ہماری ترجیحات خیبرپختونخوا کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں، ایک عام دستور ہے کہ کبھی بھی ریپ یا بدسلوکی سے متاثرہ لڑکی کی تصویر کبھی بھی جاری نہیں کی جاتی، عموما فائل فوٹو یا قریب تر تصویر استعمال کرکے سانحے کی سنگینی کو استعمال کیا جاتا ہے، جب میں نے ایسا کیا تو تحریک انصاف کے سپورٹرز نے تصویر کو موضوع بنالیا کہ یہ جعلی ہے اور اس توجیہ کے تحت سانحے کو پس پشت ڈال دیا۔

لڑکی دہائیاں دے رہی ہے، متاثرہ خاندان کو تحریک انصاف کے وزیر دھمکیاں دے رہے ہیں، لڑکی کو خود اپنے خاندان کی جانب سے غیرت کے نام پر قتل ہونے کا خطرہ ہے اور مثالی پولیس کہیں نظر نہیں آرہی، مقامی افراد کے مطابق پولیس با اثر ملزمان سے ملی ہوئی ہے، ایسے میں اگر کوئی صحافی سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھانے کی کوشش کررہا ہے تو اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ اس واقعے کا بیان ملک کی بدنامی کا باعث ہے اس وجہ سے خاموش رہا جائے، یہ توجیہ پیش کی جارہی ہے کہ ملزمان تو اب گرفتار ہوچکے ہیں، اب کیا بات کرنا، کیا سندھ میں ہوئے اس طرز کے واقعات کو بیان کرنا ملک دشمنی نہیں ہوتی اور کیا سندھ میں فورا ملزمان کی گرفتاری کے باوجود مہینوں تذکرے زندہ نہیں رہتے، سندھ سے ایک صحافی ہونے کی حیثیت میں ملک بھر میں میڈیا کے نمائندوں سے یہ میرا سوال ہے۔

سیاسی وابستگیاں ایک حقیقت ہیں مگر متوازن رویے اس سے بڑی حقیقت ہیں، سندھ اور پنجاب کے مسائل کو تباہی قرار دینا اور خیبرپختونخوا کے مسائل پر جواز تراشنا متوازن رویہ نہیں، اس سے خود تحریک انصاف کو نقصان ہے کہ بہتری کی صورت پیدا نہیں ہوپائے گی، صحافیوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو دنیا کی تمام برائیوں کی جڑ بتا کر تحریک انصاف کو دنیا کی سب سے اچھی جماعت پیش کررہے ہیں اور اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ غیرجانب دار بھی ہیں جبکہ یہ سراسر جانب داری ہے، جب کوئی تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کرے تو الٹا اسے متنازع کیا جارہا ہے، یہ ملکی صحافت کا ایک تاریک ترین دور ہے، عوام تک حقائق نہیں پہنچ پارہے، جس کی وجہ سے عام آدمی غلط رائے بناسکتا ہے جس کا ملک کو مستقبل میں نقصان ہوگا۔

اگر تحریک انصاف کے سپورٹرز اور عمران خان کے وکیل اینکر اس سانحے میں مظلوم لڑکی کی آواز بنیں گے تو اس سے ان کا قد بلند ہوگا، تحریک انصاف میں جو برے لوگ با اثر ملزمان کی پشت پناہی کررہے ہیں، ان کی چھانٹی ہوگی، تحریک انصاف اور خیبرپختونخوا کی بہتری کے لیے ہی خدارا۔ اس لڑکی کی آواز بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).