خیبر پختونخوا ایک لیبارٹری ہے


جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہم نے اپنے صوبے جس کا پہلے نام صوبہ سرحد تھا پھر عوامی نیشنل پارٹی کی وجہ سے یہ خیبر پختونخوا کہلانا شروع ہوا۔ جس سے ہونا تو چاہیے تھا اس کی قسمت بھی بدل جاتی مگر نام میں کیا رکھا ہے۔ صوبہ سرحد ہو یا شمال مغربی صوبہ یاپھر خیبر پختونخوا۔ علاقے میں کام سے مقصد ہونا چاہیے۔ مگر یہاں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ پشاور جو کہ خیبر پختونخوا کا ہیڈ کوارٹرہے اس میں کسی بھی حکومت میں ترقی کے کام نہیں ہوئے۔ گیلانی آیا تو کوہاٹ کی قسمت بدلی، درانی ایا تو بنوں کی قسمت جاگ گئی اور پھر ہوتی آیا تو مردان میں روشنی ہوگئی مگر پشاور نظر انداز ہوا۔ جو عرصہ داراز سے ایک تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ بلکہ پورا صوبہ تجربہ گاہ ہے۔ جہاں پر تجربات ہوتے ہیں۔

روس سے مقابلہ امریکی مفادات کے لئے ہوا تو اثر اس صوبے پر پڑا۔ افغانیوں کی ایک فوج ظفر موج ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی جسمیں ہمارے صوبے کا حصہ زیادہ آیا جس سے ہماری معیشت کا ستیاناس ہوا اور ساتھ میں کلاشن کوف کلچر بھی پروان چڑھا۔ بے ترتیبی کی فضا بنی تو جرائم کی شر ح بھی بڑھ گئی۔ صوبے میں اپنوں کے لئے جگہ کم پڑ گئی کیونکہ افغانی مہنگے داموں جگہیں لے لیتے تھے۔ گیلم جم کی وجہ سے بے حیائی پشاور کے حیات آباد تک پھیلی تو تجربات شروع ہوئے۔

پھر امریکہ میں ٹوین ٹاورز پر حملہ ہوتا ہے تو افغانستان پر حملے کی ابتدا ء ہوتی ہے اور یوں اس کا اثر پشاور پر ڈائریکٹ ہوجاتا ہے۔ اور یوں پھرڈمہ ڈولا پر حملے کے ساتھ ایک نئے تجربے کی ابتدا ہوتی ہے اور لال مسجد پر حملے کا اثر پشاورپر ہوجاتا ہے اور یوں ایک نہ تھمنے والی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ جس سے فاٹا بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ تحریک طالبان کی تحریک اسی صوبے میں پیدا کردی جاتی ہے۔ انہیں پھر ان سنگلاخ پہاڑوں میں آپریشنوں سے نیست ونابود کرنے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ آئی ڈی پیز سوات سے صوبہ بھر میں پھیل جاتےہیں۔ یہ تجربہ ہمارے صوبے میں کیا جاتا ہے۔

ڈرون حملوں کی ابتداء کی جاتی ہے۔ دھماکوں پر دھماکے ہوتے ہیں۔ کبھی کوہاٹ، کبھی مردان، کبھی صوابی، کبھی کرک، کبھی چارسدہ اور یاپشاور جسمیں بے چارے غریب تجربات کی زد میں اتے ہیں۔ تبادلے میں ہماری پولیس کی جانیں جاتی ہیں۔ اورکزئی، مہمند، وزیرستان اور سوات میں جنگ کی ایندھن کے تجربات اس صوبے کی قسمت میں آتے ہیں۔ سوات کے آئی ڈی پیز کے بعد وزیرستان کے آئی ڈی پیز کو در بدر کردیا جاتا ہے۔ جو ابھی تک اپنے گھروں سے دور ہیں۔

ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو بھی تجربہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کیا جاتا ہے۔ شکیل آفریدی کے ذریعے اسامہ تک اپروچ کی جاتی ہے اور پھر اسامہ کا اپریشن ایبٹ اباد میں کیا جاتا ہے۔ پھر سلالہ آپریشن بھی اسی صوبے کے قسمت میں آتا ہے۔ سیاست دانوں کو اسی صوبے میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور جب ملکی سلامتی کے لئے عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں جس سے عمران اور نواز جیسے سیاست دانوں کی سیاسی موت کا خدشہ ہوتا ہے تو آرمی پبلک سکول کا واقعہ بھی اسی صوبے کے دارلخلافہ پشاور میں ہوتا ہے جو تاریخ میں ایک داغ ہے۔ جس میں سینکڑوں بچوں کو شہید اور زخمی کیا گیا۔ جس کے بعد ان بچوں کے ناموں پر اسکولوں کے نام رکھ کر جان خلاصی کردی جاتی ہے۔ ملالہ یوسف زئی کاواقعہ بھی اسی صوبے سوات میں ہوتا ہےجس سے ملک کا نام ”روشن“ ہوتا ہے۔

اسی صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت بن جاتی ہے تو حالات پھر بھی نہیں بدلتے۔ کرپشن کے خاتمے کا راگ الاپنے والے خود کرپشن میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ جس پر پارٹی کا چئیرمین بھی خاموش ہوتا ہے۔ پھراسی صوبے کی خاتون کے ساتھ عمران خان کی شادی ہوتی ہے پھر طلاق کا واقعہ ہوتا ہے۔ اسی صوبے کی ایک دختر عائشہ گلاَلئی عمران خان پر الزام لگاتی ہے کہ عمران نے اسے گندے پیغامات بیجھے تھے۔ وہ بھی اسی مٹی کی پیدوار ہوتی ہے اور ابھی تک وہ الزامات لگ رہے ہیں۔ یہی وہ صوبہ ہے جہاں ہسپتالوں، تعلیمی اداروں میں سیکسوئیل ہراسمنٹ کے کیسز میدان میں آکر میڈیا پر چھا جاتے ہیں حالانکہ اس سے بڑے بڑے واقعات ملک کے دیگر حصوں میں رونما ہوتے ہیں۔

یہی وہ صوبہ ہے جہاں قانون کے ہوتے ہوئے خاتوں کو ننگا کرکے گھمایا جاتا ہے اور قانون ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ڈاکٹر ہراساں ہوتی ہے تو ایچ ایم سی میں جعلی ڈاکٹر شہ سرخیوں میں ہوتا ہے۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا نہیں بلکہ صوبہ تجربہ گاہ ہے جہاں تجربات کیے جاتے ہیں اور اس صوبے کا نام ”روشن“ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ بد سے بدنام برا ہوتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).