اقبال اور معاشی انصاف کی تلاش


اقبال کی طویل نظم ’’لینن خُدا کے حضور میں‘‘ بڑی حد تک اقبال کی ممنوعہ شاعری میں شمار ہوتی ہے۔ یہ نظم قارئین ادب میں جتنی مقبول ہے نقادانِ ادب میں اتنی ہی غیر مقبول ہے۔ اس وقت تک اقبال کی طویل نظموں کی تفہیم و تحسین پر مشتمل دو قابلِ قدر کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ایک بھارت میں اور دوسری پاکستان میں۔ نامور نقاد پروفیسر اسلوب احمد انصاری کی کتاب ’’اقبال کی تیرہ نظمیں‘‘ اقبال شناسی میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ ہمارے ہاں پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کی تصنیف ’’اقبال کی طویل نظمیں‘‘ اقبالیات کے طالب علموں میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ یہ بات بہت معنی خیز ہے کہ ’’لینن خُدا کے حضور میں‘‘ ہر دو کتابوں میں زیرِ بحث نہیں لائی گئی۔ ہمارے میڈیا کے خُداوند بھی اس عظیم نظم کے فیضان سے محروم چلے آ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اس نظم سے اُتنا ہی ڈرتا ہے جتنا ہمارے خُداوندانِ مکتب اس سے خوف کھاتے ہیں۔ جو تین طویل نظمیں ’’بالِ جبریل‘‘ کی آبرو ہیں یہ نظم اُن میں سے ایک ہے۔ یادش بخیر، جس زمانے میں ’’بالِ جبریل‘‘ ایم اے اردو کے نصاب میں شامل تھی اُس زمانے میں بھی اس نظم کو ادبیاتِ اُردو کے نصاب سے باہر رکھنے کا اہتمام کر لیا گیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں تہذیب و سیاست کے اربابِ بست و کشاد مفکرِ پاکستان کی اسلامی انقلابی فکر سے پھوٹنے والی اس نظم کو عملاً سنسرشپ کی نذر کیوں کرتے چلے آ رہے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ معاشی انصاف کے اسلامی تصورات کو عوام کی نظروں سے چھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ چونکہ یہ طبقہ معاشی انصاف کے اسلامی تصورات کو پاکستان میں نافذ نہیں کرنا چاہتا اس لیے وہ ان تصورات کی مقبولیت سے خائف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم اقبال کے ہاں معاشی عدل و انصاف کی تلاش کی کہانی اس نظم سے شروع کر رہے ہیں۔

یہ نظم اُن دو تین نظموں میں سے ایک ہے جن میں اقبال کی شاعرانہ صناعی اپنے اوجِ کمال پر نظر آتی ہے۔ اس نظم کی فنی ساخت پرداخت بہت سوچ سمجھ کر کی گئی ہے۔ اس نیم ڈرامائی نظم کا جو تصوراتی ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے وہ تین کرداروں کی گفتگو سے وجود میں آیا ہے۔ یہ تین کردار ہیں: لینن، فرشتے اور خُدا۔ وفات کے بعد لینن خُدا کی ہستی پر ایمان لے آتے ہیں اور خُدا کی بارگاہ میں اپنے عمل کا حساب پیش کرتے وقت اپنی دہریت پسندی پر ندامت کا اظہار کرتے ہیں۔ آئیے پہلے لینن کی زبانی ذاتِ باری کی حقانیت کا بیان سُنیں:

اے اَنفُسُ و آفاق میں پیدا ترے آیات

حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تِری ذات

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے

ہر دم متغیر تھے خِرد کے نظریات

محرم نہیں فطرت کے سرودِ ازلی سے

بِینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات

آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہُوا ثابت

میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات

نظم کا یہ ابتدائی حصہ گویا توبہ کا باب ہے۔ لینن اپنی دہریت پسندی کی ذمہ داری بڑی حد تک مغرب کے سرمایہ داری نظام، اس نظام کے پروردہ علوم و فنون اور اس نظام کی کوکھ سے پیدا ہونے والے فرنگی استعمار پر ڈالتے ہیں۔ ہر دم بدلتے ہوئے نظریات سے عبارت بے خُدا تہذیب میں پنپتے ہوئے علوم کی نارسائی کا یہ عالم ہے کہ:

یورپ میں بہت روشنئ علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات

وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم

حد اُس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ایک لادین تہذیب کی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کا حاصل فقط ہلاکت آفرین ہتھیار ہیں۔ فرنگی مدنیت نے اگر ایک طرف بے کاری و افلاس کو پروان چڑھایا ہے تو دوسری جانب عریانی اور اوباشی کو ایک پسندیدہ معاشرتی چلن بنا دیا ہے۔ لینن حریمِ کبریا میں اس بے خُدا تہذیب کی غارت گری کے خلاف فریادکرتا ہے:

اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں

حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات

جب تک میں جیا خیمہ افلاک کے نیچے

کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات

گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا

جب رُوح کے اندر متلاطم ہوں خیالات

وہ کون سا آدم ہے کہ تُو جس کا ہے معبود

وہ آدمِ خاکی کہ جو ہے زیرِ سماوات؟

مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی

مغرب کے خُداوند درخشندہ فلزات

گویا دہریت کے فلسفے کو مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب نے ہی جنم دیا ہے۔ سرمایہ داری نظام نے خُدا کو دُنیا بھر سے عملاً بے دخل کر رکھا ہے۔ مشرق کے محکوم اپنے فرنگی آقاؤں کی پرستش میں مصروف ہیں تو اہلِ فرنگ زر کی پرستش میں منہمک ہیں۔ ایسے میں لینن خُدا سے یہ چبھتا ہوا سوال پوچھتے ہیں کہ وہ آدم کہاں ہے جو خُدا پرست ہو؟۔۔۔ سرمایہ داری نظام نے لوگوں کو اپنے استحصالی چنگل میں یوں دبوچ رکھا ہے کہ وہ اپنے خالقِ اکبر تک کو بھول بیٹھے ہیں۔ خُدا کی بارگاہ میں لینن کی یہ فریاد اُمید اور رجائیت پر آ تمام ہوتی ہے۔ یہ رجائیت مغرب میں اشتراکیت کے ہاتھوں سرمایہ دارانہ نظام کی شکست کے آثار سے پیدا ہوئی ہے۔فریاد میں یک بہ یک نمودار ہو جانے والی اُمید کی تان بھی ایک سوال پر آ ٹوٹتی ہے۔ وہ آتشیں سوال یہ ہے کہ روزِ مکافات کب آئے گا اور سرمایہ پرستی کا سفینہ کب ڈوبے گا؟:

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر

تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

میخانے کی بُنیاد میں آیا ہے تزلزل

بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیرانِ خرابات

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام

یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دُنیا ہے تری منتظر اے روزِ مکافات؟

بارگاہِ خُداوندی میں لینن کی فریاد کو فرشتے بھی چپکے چپکے مگر بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے۔ لینن کے اُٹائے ہوئے درج بالا آخری سوال تک پہنچتے پہنچتے وہ اتنے جذباتی ہو گئے کہ انھوں نے بے ساختہ لینن کی ہم نوائی شروع کر دی۔ نظم کا یہ حصہ فرشتوں کے گیت پر مشتمل ہے۔ فرشتوں کے خیال میں خلقِ خُدا پر اس پیہم ظلم و ستم کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی عشق کی گرمی سے محروم ہو کر رہ گئی ہے۔ چنانچہ وہ اللہ میاں سے یوں ہمکلام ہوتے ہیں:

خلقِ خُدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر

تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست

بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی

دانش و دِین و علم و فن بندگی ہوس تمام

عشقِ گرہ کُشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی

فرشتے لینن کے نقطۂ نظر کی پُرزور ، مدلل اور مؤثر تائید کرتے وقت اس حقیقت کو بڑی خوبی کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں کہ ’’رند و فقیہ و میر و پیر‘‘ سبھی خلقِ خُدا پر جبر و استبدادکے پہاڑ توڑنے والوں ہی میں شامل ہو گئے ہیں۔ گویا وہ مذہب جو خلقِ خُدا کوجبر و استبداد سے نجات دلانے کے لیے آیا تھا اُسے اِن اداروں نے جبر و استبداد کادستگیر اور خلقِ خُدا کا دشمن بنا کررکھ دیا ہے۔ ’’دانش و دین‘‘ اور ’’علم و فن‘‘ خُدا کی بندگی کی بجائے ہوس کی پوجا میں مشغول ہیں۔ اب وقت ا گیا ہے کہ عشق کی تلوار نیام سے باہر آئے اور خلقِ خُدا کو ظلم و ستم اور جبرواستبداد سے نجات دلائے۔

یہ لینن اور فرشتوں کے فکر و اظہار میں اس کامل ہم آہنگی ہی کا کرشمہ ہے کہ اللہ میاں فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ فی الفور دُنیا میں مروج سرمایہ دارانہ نظام کو مٹا کر زمین پر اللہ کی حاکمیت کا بول بالا کر دیں۔ نظم کے اس تیسرے اور آخری حصے کاعنوان ہے: ’’فرمانِ خُدا ،فرشتوں سے‘‘۔

اُٹھو میری دُنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو

کنجشکِ فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

سلطانئ جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اُٹھا دو

حق را بسجودے ، صنماں را بطوافے

بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

تہذیبِ نوی کارگہِ شیشہ گراں ہے

آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو

یہ نظم اقبال کی اسلامی انقلابی آرزو مندی کی دین ہے۔ ’’یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے‘‘ کے مصداق اقبال کی یہ تمنا تھی کہ روسی اشتراکیت دہریت یعنی ’’لا‘‘ کی منزل سے آگے بڑھ کر اِلّا اللہ کے مقام تک پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال روس کے اشتراکی انقلاب کو دورِ حاضر میں اسلام انقلاب کا ایک ناگزیر پیش خیمہ کیوں سمجھتے ہیں؟ اس سوال کا سرسری جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ دار یورپ نے قریب قریب ساری دُنیائے اسلام کو غلامی کے جال میں گرفتار کر رکھا تھا۔ جن کے لیے فقط اللہ کی بندگی مقدر ہو چکی تھی اُن کا حکمران طبقہ فرنگ کی بندگی پر نازاں تھا۔ ماہمہ عبدِ فرنگ آں عبدہ‘ اور ماکلیسا دوست، ما مسجد فروش۔ یورپ کے اشتراکی انقلاب نے سرمایہ داری نظام کی خُدائی کے سامنے ’’لا‘‘ کا نعرہ بلند کر دیا تھا۔ سرمایہ دارانہ استعمار کی خُداوی سے انکار نے مسلمانوں کے سامنے سامراجی غلامی سے انکار کا راستہ روشن کر دیا تھا۔ مغرب میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کے مابین کشمکش نے مغربی سامراج کو کمزور کر دیا تھا۔ ایسے میں اقبال اپنے ارتقائی نقطۂ نظر کے ساتھ یہ سوچنے لگے تھے کہ روسی اشتراکیت سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے بعد کسی روحانی مسلک کو اپنا لے گی۔ یہ بات انھوں نے سرفرانسس ینگ ہسبنڈ کے نام اپنے کھلے خط میں بھی برملا کہی تھی کہ اشتراکی روس کے بارے میں یہ سوچ غلط ہے کہ وہ کبھی بھی کوئی روحانی مسلک نہ اپنائے گا۔ انھوں نے اس خط میں دھمکی آمیز انداز میں سرفرانسس کو بتایا تھا کہ جب اشتراکیت خدا پر ایمان لے آئے گی تب اسلام کے بہت قریب آ جائے گی۔ چنانچہ اقبال سرمایہ دارانہ استعمار کی شکست و ریخت میں اشتراکی روس کے کردار کو اسلامی انقلاب کا اوّلین مرحلہ سمجھتے تھے۔

اقبال کی اس آرزومندی کو فلسفیانہ انداز میں سمجھنا ہو تو ہمیں اقبال کی کتاب ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ کا وہ باب پڑھنا چاہیے جس میں کلمہ طیبہ کی تفسیر کی گئی ہے۔ لا الہ الا اللہ کے زیرِ عنوان اقبال لا اور اِلّا کو نفی اور اثبات کی دو منزلیں قرار دیتے ہیں۔ جھوٹے خُداؤں کی نفی کے بغیر سچے خُدا کا اثبات ناممکن ہے۔ اشتراکی روس نے فرنگی تہذیب کے اندر بندگی اور خواجگی کے درمیان جنگ برپا کر دی تھی۔ اقبال نے سرمایہ داری اور اشتراکیت کے درمیان اس جنگ کے احوال و مقامات ’’پیامِ مشرق‘‘ میں پیش کیے ہیں۔ یوں تو انھوں نے فلسفی اور مزدور، موسیولینن اور قیصرولیم، نوائے مزدور کی سی نظموں میں اس جنگ کی مصوری متعدد حسین پیرایہ ہائے بیان میں کی ہے مگر نظم ’’قسمت نامۂ سرمایہ دار و مزدور‘‘ دُنیائے ادب میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔ اس مختصر نظم میں اقبال مزدور کی سادہ لوحی اور سرمایہ دار کی عیاری کو خوبصورت طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہیں.

اس تقسیم میں سرمایہ دار نے تمام تر مادی وسائل تو اپنے حصے میں رکھ لیے اور سارے کے سارے روحانی خواب و خیال مزدور کی جھولی میں ڈال دیے۔ قرآن کریم کے معاشی تصورات کی روشنی میں جب وہ یورپ میں برپا سرمایہ دار اور مزدور کی کشمکش کا مطالعہ کرتے ہیں تو انھیں قرآن مزدور کا دستگیر دکھائی دیتا ہے۔ ’’بانگِ درا‘‘ کی ایک چھوٹی سی نظم میں وہ کہتے ہیں:

کارخانے کا ہے مالک مردکِ ناکردہ کار

عیش کا پُتلا ہے ، محنت ہے اسے ناسازگار

حکم حق ہے لیس الانسان الّا ما سعیٰ

کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار

سرمایہ دار اور ممدور کے اس قسمت نامہ پر اقبال کے ابلیس کا یاد آ جانا قدرتی سی بات ہے۔ اپنی مجلسِ شوریٰ کے اجلاس سے افتتاحی کلمات میں ابلیس اپنے اس کارنامے پر بھی ناز کرتا ہے کہ ناداروں کو اُسی نے تقدیر کا سبق پڑھایا ہے اور سرمایہ داروں کو اُسی نے سرمایہ داری کے جنوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اقبال سمجھتے تھے کہ اشتراکیت نے یورپ میں جہاں بندۂ مزدور کو اپنا مقدرخود سنوارنے کا درس دیا ہے وہاں مزدوروں کو سرمایہ داری نظام کے خالق و مالک ابلیس کے سامنے ’’لا‘‘ کا نعرہ بلند کرنے کا حوصلہ بھی بخشا ہے۔ ابلیسی نظام کی نفی خُدائے واحد کی تلاش کا اوّلیں مرحلہ ہے۔

زندگی کی جدلیات میں نفی اوراثبات کی کارفرمائی کو اپنے فلسفیانہ دینی شعور کی روشنی میں پیش کرتے وقت اقبال نے مسلمانوں کو اس قرآنی حکمت کو سمجھنے کا مشورہ دیا ہے کہ سچی توحید پرستی اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک شہنشاہیت، پاپائیت اور دیگر جھوٹے خُداؤں کے بُت پاش پاش نہ کر دیئے جائیں۔ اشتراکی روس نے دُنیائے انسانیت کو لاسلاطیں، لا کلیسا، لا الٰہ کی منزلوں پر پہنچا کر تمام جھوٹے خُداؤں کی نفی کر دی ہے۔ اب اثبات یعنی اللہ کی خُدائی پر ایمان لانے کا مرحلہ باقی ہے۔ چنانچہ وہ اشتراکی روس کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنے رہوار کو ایک بار پھر ایڑ لگائے اور اِلّا اللہ کی منزل پر آ پہنچے۔ اقبال یہ مشورہ چند سال پیشتر اپنی عہد آفریں تخلیق ’’جاوید نامہ‘‘ میں بھی پیش کر چکے ہیں۔

’’جاوید نامہ‘‘ کے فلکِ عطارد پر مولانا جلال الدین رومی کی معیت میں اقبال سیّد جمال الدین افغانی سے ملاقات کرتے اور دُنیائے اسلام کو درپیش بحرانی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ سیّد جمال الدین افغانی اقبال کی وساطت سے اشتراکی روس کے رہنماؤں کو ایک پیغام بھجواتے ہیں۔ اس پیغام کا لب لباب بھی یہی ہے کہ اگر اشتراکی انقلاب نفی کی منزل پر ہی رُک کر رہ گیا تو اس کا بھی وہی حشر ہوگاجو اس سے پہلے اسلامی انقلاب کا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ اشتراکی روس کو یہ پیغام بھجواتے ہیں کہ وہ مسلمان قوم کی سرگزشت سے عبرت حاصل کرے۔ اپنی تقدیر کو اقوامِ مشرق کے ساتھ وابستہ کرے اور مغرب سے اٹھنے والے نئے فتنوں سے ہوشیار رہے۔ مغرب کے اُس پُرانے بت کدے کی طرف نہ دیکھے جس کے باطل خُداووں کا کام خود اُس نے تمام کر دیا ہے۔ اب وقت ہے کہ وہ ’’لا‘‘ کے مقام سے ’’اِلّا‘‘ کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرے۔ جب اشتراکی روس لا سے اِلّا کی جانب اپنا رختِ سفر باندھے گا تو اُسے قرآن کریم کی روشنی کی ضرورت پڑے گی۔ جمال الدین افغانی اپنے پیغام میں قرآن کریم سے روشنی لینے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اشتراکی روس کو بتاتے ہیں کہ حکمتِ قرآنی ابھی تک پوری طرح بروئے کار نہیں آسکی۔ اب وقت ہے کہ اس حکمت کو ایک سچے انقلابی پروگرام میں ڈھالا جائے تاکہ انسان کی تاریک رات ختم ہو اور ایک نئی، تابندہ اور پائندہ تر صبح طلوع ہو سکے:

عہدِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اشتراکی روس نے نہ تو اپنے مقدر کو مشرق سے وابستہ کیا اور نہ ہی ترکِ فرنگ پر آمادہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ کہ ردِ انقلاب کی تباہی سے دوچار ہو کر اُسی سرمایہ داری نظام کی چاکری پر مجبور کر دیا گیا جس کے خلاف ردِ عمل کے طور پر کارل مارکس نے اشتراکیت کا فلسفہ پیش کیا تھا۔ اسی اشتراکی فلسفے کو ایک انقلابی سیاسی پروگرام کی شکل دے کر لینن کی قیادت میں روس میں انقلاب برپا ہوا تھا۔ اقبال نے اس انقلاب سے یہ اُمید باندھی تھی کہ یہ انقلاب دوبارہ سرمایہ داری کے شکم کا ایندھن بننے کی بجائے نفی سے اثبات کی منزل کی طرف گامزن ہوگا۔ حقیقت کی دُنیا میں تو یہ اُمید پوری نہ ہو سکی مگر اقبال نے لینن کو خُدا کے حضور پیش کر کے خواب و خیال کی دُنیا میں اشتراکی انقلاب کو اسلامی انقلاب کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے دکھا دیا۔ چنانچہ اقبال کی نظم بارگاہِ خدا وندی میں لینن کی وکالت اس شان کے ساتھ کرتی ہے کہ فرشتے اُس کے ہمنوا بن جاتے ہیں اور اللہ میاں فرشتوں کو اسلام کے انقلابی معاشی تصورات کے نفاذ کا فرمان جاری کر دیتے ہیں۔

ہمارے حکمران طبقہ نے اب تک خُدا کے فرمان پر سرے سے غور ہی نہیں کیا۔ اس فرمان کی ایک ایک شق نفاذ طلب ہے۔ اس فرمان کا نفاذ مخصوص مفادات کے حامل جن طبقات کے لیے یومِ حساب کا حکم رکھتا ہے اُن کے ذوق اور ذہنیت سے اگر اقبال بخوبی آگاہ ہیں تو اللہ میاں اُن سے ناامید ہیں۔ چنانچہ فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ دُنیا کے غریبوں کو جگا دیں، غلاموں کا لہو سوزِ یقیں سے گرما دیں، پیرانِ حرم کو حرم سے نکال باہر کریں، خالق و مخلوق کے درمیان حائل پیری، مُلّائی اور سلطانی کے پردے اُٹھا دیں تاکہ غریب اور مظلوم خلقِ خُدا امیروں کے محلات کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دے اور یوں دُنیا میں معاشی انصاف کا بول بالا ہو۔

علامہ اقبال نے کسان کو جاگیردار اور مزدور کو سرمایہ دار کے پنجۂ ظلم سے آزاد کرانے اور قرض کے شکنجے سے رہا کرانے کی خاطر شعر و حکمت اور سیاست و معیشت، ہر دو، سے خوب کام لیا ہے۔ اس باب میں انھوں نے ایسی ایسی چونکا دینے والی باتیں کر رکھی ہیں جو نہ تو اُن سے پہلے اور نہ ہی اُن کے بعد کسی کو کہنے کی جُرأت ہوئی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ اُنھوں نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے ۳۲ء کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیاتھا کہ برصغیر میں اسلام کا مستقبل مسلمان کسان کی آزادی پر منحصر ہے۔ انھوں نے مسلمان نوجوانوں کی قوتِ عمل کو مہمیز دیتے ہوئے ملک بھر میں یوتھ لیگز اور کلچر سنٹر کے قیام کا مشورہ دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ یوتھ لیگز:

’’اپنی تمام تر توجہ خدمتِ خلق، اصلاحِ رسومات اورقصبوں اور دیہات میں اقتصادی پروپیگنڈے پر صرف کریں۔ اب حالات ۲۵ء کے چین کی طرح ناگوار صورت اختیارکر چکے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ نوجوانوں کی یہ جماعتیں خوب اقتصادی پروپیگنڈہ کریں اور کسانوں کو زمینداروں کے پھندوں سے نجات دلانے کی کوشش کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں اسلام کے مستقبل کا انحصار مسلمان کاشتکار کی آزادی پر ہے۔ آئیے شباب کی آگ کو ایمان کی آگ میں حل کر ڈالیں تاکہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے عمل کی ایک نئی دُنیا تخلیق کر سکیں۔‘‘

اس مقصد کے حصول کی خاطر علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے دو کام لیے ہیں۔ اوّل یہ کہ انھوں نے اپنی شاعری میں کسان اور مزدور کی غلامی اورمظلومیت کا دردناک نقشہ پیش کیا ہے۔ میں اس کی مثال میں اُن کے فقط دو ایک شعر پیش کرنا کافی سمجھتا ہوں:

دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مردہ

بوسیدہ کفن اُس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

۔۔۔۔۔۔

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ناب

از جفائے دہ خدایاں کشت دھقاناں خراب

انقلاب!

انقلاب اے انقلاب!

اور دوم یہ کہ انھوں نے اپنی شاعری کے جادو سے کسان اور مزدور کو خوابِ غفلت سے جگا کر جاگیردار اور سرمایہ دار کے خلاف بغاوت کا درس دیا ہے۔ انھوں نے غریبوں اور مظلوموں کو مختلف اور متنوع انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ اب اُس کی رات ختم ہونے کو آ رہی ہے، اُفق پر سپیدۂ سحر نمودار ہونے کو ہے ضرورت فقط اس بات کی ہے کہ وہ سحر کی آذان سُنیں اور خود کو ظلم و ستم سے آزاد کرنے کی جدوجہد کا آغاز کریں۔

اپنی وفات سے صرف دو سال پیشتر اپنی معرکۃ الاراء کتاب: پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، میں انھوں نے مستقبل کے نو آزاد مشرق کی تعمیر نو کی بنیادیں فراہم کر دی تھیں۔ کتاب کے نام ہی سے ظاہر ہے کہ وہ اقوامِ مشرق کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیاسی آزادی کے حصول کے فوراً بعد انھیں اس سیاسی آزادی کو اقتصادی اور تہذیبی آزادی بنانے کا چیلنج درپیش ہوگا۔ اس کتاب میں انھوں نے بتایا ہے کہ آزاد مشرق کو کیا کرنا چاہیے؟ اس اعتبار سے اُن کا یہ مجموعۂ کلام مشرق کی کامل آزادی کا ایک انقلابی منشور ہے:

اقبال اقوامِ مشرق کو مغربی استعمار کی قید سے رہائی کی جو تدبیریں بتاتے ہیں اُن میں سے ایک یہ ہے کہ مشرق کی قوموں کو مغرب کی بالواسطہ غلامی یعنی مغربی دُنیا کی نواستعماری پالیسیوں سے خبردار رہنا ہوگا۔ آج کی دُنیا میں سات سمندر پار بیٹھ کر ریمورٹ کنٹرول سے آزاد مشرقی اقوام کی سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی غلامی کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے مشرق کی قوموں کو فرنگ یعنی مغربی سامراج کے ہتھکنڈوں سے باخبر رہنا ہوگا۔ اقبال کے نزدیک عہدِ حاضر میں سیاست سوداگری بن کر رہ گئی ہے۔ تختۂ دُکاں شریکِ تخت و تاج۔ دُکان کا تھڑا ہی تختِ شاہی بن کر رہ گیا ہے۔ مغربی استعمار کی اصل قوت سوداگری میں پنہا ں ہے۔ اس لیے اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ خود اپنے وسائل پر انحصار کریں.

آج ہمارے اقتصادی منصوبہ سازوں کو ایک نظر علامہ اقبال کی پہلی کتاب ’’علم الاقتصاد‘‘ پر بھی ڈال لینی چاہیے اور اقبال کے آخری شعری کارناموں میں سے ’’پس چہ باید کرد‘‘ میں پوشیدہ حکمت اور حکمتِ عملی پر بھی بار بار غور کرنا چاہیے۔ اقبال نے آج سے ایک صدی پیشتر لکھا تھا کہ تعلیم اور اقتصادی ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ اقبال کے خیال میں جب تک تعلیم عام نہ ہوگی تب تک اقتصادی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے گا۔ اسی طرح اقبال نے آبادی کی منصوبہ بندی کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شادی بیاہ اور اُس سے متعلق خاندانی رسوم کی اصلاح کو بھی وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا تھا۔ اقبال نے اپنی شاعری اور اپنی فلسفیانہ تحریروں میں عمر بھر نہ صرف معاشی ظلم کے خلاف احتجاج کیا ہے بلکہ اس ظلم کو مٹا کر معاشی انصاف کے ایک نئے نظام کے قیام کی بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج ہم اقبال کے تصورات کو پاکستان میں ایک عادلانہ معاشی نظام کے نفاذ کی بنیاد بنائیں۔

***


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).