لوگ سہمی سی زندگی جیئے جاتے ہیں


دنیا میں انسان ہمیشہ اپنے بقا سے متعلق خیالات پہ سوچتا رہا ہے، یعنی اس کی بنیادی فکر اسی محور کے گرد گھومتی رہی ہے۔یہ وہی معاملہ ہے جو تمام جانداروں میں مشترک ہے۔ ہر قدم پہ ایک خاص طرح کی احتیاط دراصل اس خوف کی بدولت ہے جو فطرتا انسانوں اور جانوروں میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔بعض اوقات یہ ایک  حقیقی رد عمل کے طور پہ رونما ہوتا ہے اور  کئی دفعہ ہمارے اندازے ہمارے اندر ایک تشویش پیدا کرتے ہیں۔  اس لیئے ہم ہر قدم اٹھاتے وقت  ناقابل بیان کھٹکا رہتا ہے، اگر وہ غالب ہو تو  فورا متبادل  حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اس ردعمل کا معمول کے لحاظ سے ظاہر ہونا ایک فطری امر ہے۔ مگر حیرت ہے کہ ہم  خوف کا  شکار رہتے ہیں اور اسے جذباتی کمزوری  سمجھتے ہوئےبہت کم مانتے ہیں۔ حالانکہ کہ اگر دیکھا جائے تو  اس خوف کی بدولت ہی انسان نے بہت سے تکلیف دہ  حالات اور کڑی آزمائیشوں سے خود کو نکالا ہے۔

موسمی تغیر و تبدل سے بچنے کے لیئے انسان نے مضبوط اور محفوط پناہ گاہوں  میں رہائیش اختیار کی ، جنگلی جانوروں سے بچاؤ  کے طریقے تلاش کیئے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان اپنے گردو پیش سے آگاہ ہوتا گیا اور ساتھ ہی اپنے بدن کی حفاظتی ضروریات  کے بارے  میں جانتا رہا۔ ان ضروریات کی تکمیل کے لیئے اس نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور نتائج حاصل کیئے، اس طرح انسان اپنے نسلی بقا  کے  فرض کو  پوری لگن کے ساتھ نبھاتا ہوا زمانےکے زینے چڑھتا گیا۔ لیکن  اس کٹھن دور میں زندگی کی حفاظت کرنے کے لیئے اس کے ادر اک اور تجربے نے بہت حد تک گردوپیش کو سمجھنے میں مدد کی ۔اس نے   اپنے آپ  کو حالات کے حوالے اتنی آسانی سے  نہیں کیا اور بلآخر وہ  خود  کو موسمی اور ماحولیاتی عدم تحفظ سے   نکال لایا۔ دوسری تمام انواع کی نسبت  بنی نوع انسان  نے شعوری منصوبہ بندی  کے زریعے زندگی کو بہت محفوظ بنایا ہے۔  آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ   خطرات کو سبھی جاندار محسوس کرتے ہیں اور پھر ان سے بچاؤ کی تدبیر  بھی دریافت کرتے ہیں۔ مگر انسان کا خاصہ یہ ہے کہ وہ مستقبل میں ان خطرات سے بچنے کا تدارک بھی کا سوچتا ہے اور مسلسل اس پہ کام کرتا ہے۔

 قدرتی آفات کی وجہ سے ہونے والے جانی نقصانات اٹھا کر انسان نے ان آفات کے اثرات  سے  ممکنہ حد تک بچاؤ کے لیئے مسلسل کام کیا۔  انسانی بقا تمام انسانوں کا مشترکہ موضوع ہے، ہر نسل، ہر قبیلے اور ہر قوم  اپنے بقا کی فکر کرتی ہے۔ جب بھی کبھی ایسا موقع آئے  کہ کسی ریاست یا قوم پہ  کوئی افتاد ٹوٹے تو سب لوگ انسانی تعلق نبھاتے ہیں۔ یہ وہی لا شعوری اظہار ہے جو انسانی نسل  کے اجتماعی تحفظ پہ یقین رکھتا ہے۔ ایسی کسی بھی صورت میں دنیا کے ہر کونے سے رضاکار تنظیمیں  اور مخیر حضرات آگے بڑھتے ہیں اور اپنا عملی کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں جہاں جبر نے داستان رقم کی ہے وہاں درد دل رکھنے والے انسانوں نے بھی آنکھ کھولی ہے۔ انسانوں کے دکھوں کا اگر مستقل مداوا نہ کر سکے تو پھر بھی ایک کردار ضرور متعارف کرایا ہے کہ زندگی یوں بھی گزاری  جا سکتی ہے۔ لوگ ہمیشہ سے مختلف دائروں اور حلقوں میں پناہ گزین ہوتے رہے ہیں ۔ ان دائروں کو کبھی، قبیلہ کہا گیا  تو کبھی قوم ۔ باوجود اس کے کہ سب انسان ہیں پھر  بھی  مخصوص دائیروں میں محصور ہیں ۔

ہر دائرے کے  باسی اپنے اپنے مفادات کے تابع ہیں انکی تعلیم میں دائروی   مفادات کا درس دیا جاتا ہے۔ اسی بنا پہ پہ نفرت اور محبت  کے جذبات کی نمو ہوتی ہے۔ فطرت بہت سے غیر فطری قوانین کے ساتھ مسلسل کشمکش میں ہے۔  انہی قوانین کے تحت  آپس کے اختلافات کو اس قدر جارحیت سے بھر  پور بنا دیا جاتا ہے کہ بستیوں کی بستیاں دھماکوں اور گولوں سے اڑا دی جاتی ہیں ۔ یہ عجب ہے کہ  قدرتی آفات سے نبٹنے کے لیئے ہر دائیرے کے باسی ایک بڑے انسانی حلقے میں آ جاتے ہیں ۔ پھر ایسا کیا ہے کہ انہیں اس بڑے حلقے میں خوف محسوس ہوتا ہے۔ پھر وہ مخصوص  دائرے میں  تحفط تلاش کرتے ہیں۔ سمجھ میں آتا ہے کہ اس خوف کے پیچھے جنگلی جانور یا پھر قدرت کے آفاتی کرشمے نہیں ہیں  بلکہ یہ  ہمارے درمیان  ہی طاقت کے کچھ ستون قائم ہو گئے ہیں ۔  ہم جیسے انسانوں نے ہی خوف اور نفرت کے زریعے  ہمیں  کئی حصوں  میں بانٹ رکھا ہے۔چونکہ خوف انسانی نفسیات میں ایک اہم ترین جذبے کے طور  پہ برآمد ہوتا ہے، اسی لیئے ہمارے  اس احساس  کے ذریعے ہمیں اتنا ہی اختیار ملتا ہے کہ جتنا ہم اس دائرے کے اندر رہ کے سفر کر سکیں ، گویا ہم اس کے اندر ایک خاص طرح کے مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ ہمارے جیسے کئی اپنے اپنے دائروں اور مداروں میں محو سفر ہیں ۔ کچھ مرکزی نقطے کے پاس تنگ گولائی میں متحرک ہیں اور کچھ ذرا باہری مدار میں  گھوم رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی ذرا برابر  دائرے کی حد سے تجاوز نہیں کر سکتا، یہ تجاوز جتنا بھی بے ضرر ہو، چاہے اس سے کسی دوسرے انسان کو کوئی نقصان نہ بھی پہنچے ، لیکن  بحرحال جس خاص طرح کی دائروی حرکت کا اختیار دیا گیا ہے، اسکی خلاف ورزی معاشرتی طاقت کے ستون  کے لیئے خطر ناک ہو سکتی ہے ۔ البتہ  اپنے حلقے کے اندر کوئی چاہے تو اپنی آزادی کے نعرے لگا سکتا ہے۔ اسی سوچ کا شکار ہر دائیرے کا مکین ہے، یعنی اسی کے اندر وہ اپنے تحفظ سے لطف اٹھاتا ہے۔ باہر  کےخطرات سے اسے بار بار تنبیہ کی جاتی ہے ، یوں ساری زندگی اس خوف کے زیر اثر نجانے کتنے لوگ قدرت کے انمول تحفے یعنی زندگی کی ساعتوں کو گزار دیتے ہیں۔ ڈر کے  حقیقی اور غیر حقیقی گھیروں میں غوطے کھا کھا کے یقین دلاتے رہتے ہیں کہ صاحب ہم خوب اچھی طرح آگاہ ہیں کہ ہم کس حد کے پابند ہیں ۔  اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اس فطری احساس کو ہم نے اپنی ذات کے اندر ناقابل تسخیر بنا لیا ہے۔

کئی صورتوں میں  بے جاخوف کی وجہ سے اپنے فطری رد عمل کو ہم خود بھی نہیں جان پاتے کہ اس غیر معمولی کیفیت کے پیچھے کونسی وجوہات ہیں۔پسماندہ سماج میں خوف کے ذریعے   اجارہ داری قائم ہوتی ہے اور  لوگوں کو محکوم بنایا جاتا ہے۔کسی بھی خطرناک صورتحال سے  بچنے اور خود کو محفوظ رکھنے کے لیئے انسان جتنے بھی اقدامات اٹھاتا ہے  ،وہ اسی پیشگی اطلاع یعنی خوف کے سبب ممکن ہے۔ چونکہ اس احساس کے نتیجے میں انسان ایک محتاط رویئے کو اپنا لیتا ہے، بہت سی خود ساختہ مزاحمتیں کھڑی کر کے وہ اپنی پیش رفتگی کو معطل کر دیتا ہے۔ چنانچہ ایک حد تک اس جذبے کے بہت مثبت اثرات ہیں، یعنی ہم یقینا بہت سے ناگوار واقعات سے خود کو بچا سکتے ہیں۔ لیکن جس لمحے اس کمزوری کے زریعے انسان کو  قابو کیا جاتا ہے تو اس وقت اس کا غیر فطری استعمال ہوتا ہے۔  ایسا ہی اب ہو رہا ہے کہ ہم اتنے  جدید عہد میں بھی عدم تحفظ کے ساتھ زندہ  ہیں۔ یہ ڈر ہمیں اپنے ہی ہم منصب سے ہے جو خود ایک الگ خوف کے ساتھ زندہ ہے۔ ان اندیشوں اور  اور کھٹکوں نے بے ترتیب قلبی دھڑکنوں کی مدد سے زندگی کو ہر لمحہ  بے رنگ بنانے کی سازش کی ہے۔ سب اپنا خوف غیر محسوس طریقے سے منتقل کر رہے ہیں اور ایک سہمی ہوئی زندگی جیئے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).